فکر و نظر

بی جے پی کے لیے ملک کی شبیہ کا مطلب آخر کیا ہے …

اگر سنگھ پریوار سے وابستہ حکمراں اور ان کے پیروکارسمجھتے ہیں کہ ملک کی شبیہ مدھیہ پردیش میں محمد ہونے کے شبہ میں بھنور لال کو بھاجپائیوں کے ذریعےپیٹ پیٹ کر  مار دیے جانے سے نہیں، بلکہ راہل گاندھی کے لندن میں یہ کہنے سے خراب ہوتی ہے کہ بی جے پی نے ملک میں مٹی کا تیل اس طرح چھڑک  دیا ہے کہ ایک چنگاری بھی ہمیں بڑی مصیبت  میں مبتلا کرسکتی ہے، تو انہیں بھلا  کون سمجھا سکتا ہے!

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

آئین کے بنیادی حقوق والے حصے کےآرٹیکل 21 کو ، جس کے تحت ہمیں زندگی کا حق حاصل ہے، اگر یوں ہی  زندگی اور شخصی  آزادی کا نگراں  نہیں سمجھا جاتا۔جس کی بابت زندگی کے اختیار سے خالی ہونے کی وجہ سے صاف صاف کہا گیا ہے کہ  کسی بھی شخص کو اس سے صرف اور صرف قانونی  عمل کے ذریعے  ہی محروم کیا جا سکتا ہے۔

آئین کے نافذ العمل ہونے کے بعد سے وقتاً فوقتاً سپریم کورٹ کے ذریعےاس آرٹیکل کی متعدد تشریحات نے اس حق کو نہ صرف اہم بلکہ باوقار بھی بنا یا ہے۔

عدالت کے مطابق اس حق کا مطلب محض یہ نہیں کہ کسی کو جسمانی اذیت دے کر اس سے اس کی زندگی نہیں چھین لی جائے گی۔ اس کے برعکس، اس میں عزت اور احترام کا حق بھی شامل ہے، جو آرٹیکل 19 کے تحت آزادی کے حق کے بغیر جزوی اور نامکمل ہے۔

یہی نہیں، قانون کے ذریعے دی گئی سزائے موت پر عملدرآمد میں تاخیر اور جنسی استحصال سے بھی اس حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ تاہم، چونکہ اس حق میں مرنے کا اختیار شامل نہیں ہے، اس لیے کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی کو تباہ کرے یا ‘اپنی مرضی سے موت’ کا انتخاب کرے۔

لیکن افسوس کہ ہمارے نئے، بالخصوص راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے نزدیک، بھلے ہی  وہ آئین کے تحت الیکشن لڑکر اور حلف اٹھا کر اقتدار میں آئے ہیں،بنیادی حقوق فراہم کرنے والے دوسرے آرٹیکل کی طرح آئین کے اس  آرٹیکل کی بھی کوئی اہمیت  نہیں ہے۔

اپنے اقتدار کے آخری آٹھ سالوں میں انہوں نے بار بار یہ ‘ثابت’ کیا ہے کہ وہ  اور ان کے پیروکاروں کےذہن ودل میں جڑ پکڑ چکی مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تعصب عوام کے اس حق  کی، بغیر کسی  امتیازی سلوک کے، حفاظت کرنے کے اپنے فرض کی ادائیگی میں بار بار رکاوٹ پیدا کرتی ہے،لیکن اس کو لے کر وہ  کبھی خود کو آئینے کے سامنے کھڑا نہیں کرتے، اس لیے انہیں کبھی بھی ذرہ برابر  شرمندگی محسوس نہیں ہوتی۔

اس کی تازہ ترین مثال جنونی فرقہ پرست ہجوم کے ہاتھوں قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات کے لیے معروف  ‘ملک کے دل’ مدھیہ پردیش کے نیمچ ضلع میں سامنے آئی، جس میں بھنور لال نامی پینسٹھ سالہ بزرگ کو ایک بی جے پی لیڈر کی قیادت میں اس وجہ سے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا کہ لنچ  کرنے والوں کو شک تھا کہ اس کا نام محمد ہے اور وہ جاورا (سرسی، ضلع رتلام) سے آیا ہے۔

منسا میں بھنور لال کی پٹائی کے وائرل ویڈیو میں، جہاں بھنور لال کی لاش بعد میں رام پورہ روڈ پر ملی تھی، پیٹنے  والے اس انداز سےان سے ان کا نام پوچھتے ہوئے اور آدھار کارڈ مانگتے نظر آرہے ہیں، جیسے کہ انہیں اس  کا قانونی حق ہو! ‘ سَیّاں بَھئے کوتْوال اَب ڈَر کاہے کا’ والی حالت میں تو وہ خیرپچھلے آٹھ سالوں سے ہیں۔

یہاں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ بھنور لال مدھیہ پردیش کے ہی رتلام ضلع کے چھیاسی سالہ سرپنچ پستا بائی چتر کے بڑے بیٹے نہیں، بلکہ جیسا کہ ان کی پٹائی کرنے والوں کو شبہ  تھا، محمد ہوتے تو مدھیہ پردیش حکومت اور اس کی پولیس اس کے قتل کو کس طرح لیتی۔

مدھیہ پردیش کے سیونی اور علی راج پور میں پچھلے دنوں ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات میں اب تک کی گئی کارروائیاں خود اس بات کی وضاحت کرتی ہیں۔ لیکن اب معاملہ الٹ گیا ہے اور گلے میں پھنس گیا ہے، تو پٹائی کرنے والوں کے قائد دنیش کشواہا، جو  بی جے پی کی سابق کونسلر بینا کشواہا کے شوہر ہیں، کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے ساتھیوں سمیت ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

لیکن اس کے دوسرے پہلو پر جائیں تو دنیش کشواہا  ‘اپنی حکومت’ کی نگرانی میں اس قدر محفوظ ہیں کہ وہ اپنے وہاٹس ایپ گروپ میں بھنور لال کی پٹائی کی ویڈیو وائرل کرنے سے نہیں ڈرے اور وہ ‘کوئی کیا کر لےگا؟’ والے جوش سےبھی بھرے ہوئے تھے۔

لیکن ملک کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے، ان سب کے باوجود، ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ سنگھ پریوار سے وابستہ حکمراں کو ذرا سی بھی شرمندگی محسوس ہو گی، اور کسی کی نہیں تو اپنے پرانے ہیرو اٹل بہاری واجپائی کی گجرات فسادات کے دوران دی گئی اس نصیحت کو ہی مان لیں گے کہ حکمرانوں کے لیے ‘راج دھرم‘  سب سے اوپر ہوتا ہے اور عوام کے درمیان تفریق کی وجہ سے اس ‘دھرم  کی مریادا’ جاتی رہتی ہے۔

اگر وہ اس نصیحت پر عمل کرتے ہیں توپچھلے دنوں رام نومی کے موقع پر کھرگون وغیرہ میں فرقہ وارانہ تشدد کے معاملوں میں مدھیہ پردیش کی شیوراج حکومت یکطرفہ کارروائی سے آگے کیوں نہیں بڑھتی، تشدد کے دیگر کئی ریاستوں میں پھیلنے کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی اپنی چپی کیوں نہیں توڑتے اور امن و امان و ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے رسمی  اپیل بھی کیوں نہیں کرتے؟

غور کیجیے، اب بھی جب ہم تشویش میں مبتلا ہیں کہ وزیر اعظم اور بی جے پی کے حامی محمد تو محمد ، محمد ہونے کے شبہ میں بھنور لال کے جینے کا حق بھی چھین لے رہے ہیں، تو ان کی تشویش  کیا ہے؟

وہ کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی پر برس رہے ہیں کہ انہوں نے لندن میں تھنک ٹینک ‘برج انڈیا’ کے زیر اہتمام منعقد کیمبرج یونیورسٹی کی ‘آئیڈیاز فار انڈیا’ کانفرنس میں کہہ دیا  کہ فرقہ وارانہ مذہبی پولرائزیشن کی بساط پر  اقتدار میں آئی بی جے پی نے  پورے ہندوستان میں مٹی کا تیل چھڑک دیا ہے  اور اب ہمیں بڑی مصیبت میں مبتلا ہونے کے لیے محض ایک چنگاری کی ضرورت ہے۔

حالت یہ ہے کہ جہاں وزیر اعظم کا رویہ ‘میں سننا چاہتا ہوں’ والا ہونا چاہیے،  وہاں ان کے سامنے سب کچھ ہوجا تا ہے اور وزیر اعظم کچھ نہیں سنتے ۔

غور کیجیے، ان پیروکاروں نے اپنی تمام توپوں کا رخ راہل کی طرف موڑ دیا ہے، لیکن انہیں  راہل کی باتوں کو اس کے منطقی مقام تک پہنچانایاغلط ٹھہرانا نہیں ، بلکہ جیسے بھی ہو انہیں  نیچا دکھانا اورپپو ثابت کرناہے۔ اس کے لیے وہ انہیں مایوس، پارٹ ٹائم، نادان اور ناکام کانگریس لیڈر کہہ کر ان کا ‘مواخذہ ‘کر رہے ہیں کہ انہوں نے بیرونی سرزمین پر ملک کی شبیہ کو خراب کرنے والی یہ بات وزیر اعظم کے تئیں نفرت سے متاثر ہو کرکہی ہے۔

کیا انہیں واقعی یاد نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر بھول گئے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے حالیہ جرمنی دورہ میں برلن میں ہندوستانی کمیونٹی سے خطاب کرتےہوئے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کا مذاق اڑانے میں کس بے حیائی کا مظاہرہ کیا تھا۔

درحقیقت  1985 میں قحط اور بھوک کے لیے معروف اڑیسہ کے کالاہانڈی ضلع کے دورے پر  واضح الفاظ میں راجیو گاندھی نے ملک میں پھیلی بدعنوانی کے بارے میں بڑے درد کے ساتھ کہا تھا کہ دہلی سے بھیجا گیا ایک روپیہ ضرورت مندوں کے پاس پہنچنے تک پندرہ پیسے رہ جاتاہے۔

مودی نے برلن میں اس پر طنز کرتے ہوئے کہا: اب کسی وزیر اعظم کو یہ نہیں کہنا پڑے گا کہ میں دہلی سے ایک روپیہ بھیجتا ہوں اورنیچے  پندرہ پیسے پہنچتے ہیں۔ پھر پوچھا وہ کون سا پنجا تھا جو باقی 85 پیسے گھس لیتا تھا؟

کسی کو تو ان لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ جب وزیر اعظم کے ذریعے غیر ملکی سرزمین پراپنے ہم منصب سابق وزیر اعظم کا  مذاق اڑانے سے ملک کی امیج خراب نہیں ہوتی تو وہ راہل جیسے اپوزیشن لیڈرکے وزیر اعظم، ان کی حکومت اور پارٹی کی تنقید سے کیسے خراب ہو سکتی ہے۔   اپوزیشن لیڈروں کا کام تو انہیں آئینہ دکھاتے رہنا ہے۔

پھر بھی سنگھ پریوار سے وابستہ حکمراں اور ان کے حامی سمجھتے ہیں کہ ملک کی شبیہ مدھیہ پردیش میں محمد ہونے کے شبہ میں بھنور لال کو بھاجپائیوں کے ذریعےپیٹ پیٹ کر  مار دیے جانے سے نہیں، بلکہ راہل گاندھی کے لندن میں یہ کہنے سے خراب ہوتی ہے کہ بی جے پی نے ملک میں مٹی کا تیل اس طرح چھڑک  دیا ہے کہ ایک چنگاری بھی ہمیں بڑی مصیبت  میں مبتلا کرسکتی ہے، تو انہیں بھلا  کون سمجھا سکتا ہے!

بالخصوص جب وہ جانتے بوجھتے کچھ بھی نہ سمجھنے کے وائرس سے متاثر ہیں کہ،  یہ مواصلاتی انقلاب کے بعد کی دنیا ہے اور مواصلات کے معاملے میں ملکوں کی سرحدیں ٹوٹ جانے کے بعد اس نتیجےتک  پہنچنے کے لیے کہ ہندوستان میں محمدہونے کے شک میں بھنور لال کا مارا جانا بھنور لا کا مارا جا نا ہی نہیں، محمد کی زندگی کا بھی بھگوان بھروسے ہوجانا ہے، یہ دنیا راہل، نریندر مودی یا کسی اور کی محتاج نہیں رہ گئی ہے۔

دراصل، سچائی، جس  کو وزیر اعظم، ان کی حکومت، پارٹی اور پیروکار مسلسل جھٹلانے کی کوشش کر رہے ہیں،وہ یہ ہے کہ راہل کی باتوں کو غلط ثابت کرنے کا واحد طریقہ مٹی کے تیل کا چھڑکاؤ کوبند کرنے سے ہو کر گزرتا ہے اور ایسا کرنا ان سب کو اپنی متعصب سیاست کے خلاف لگتا ہے۔

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)