خبریں

کرناٹک: ہندوتوا گروپوں کی جانب سے مسجد میں پوجا کرنے کی دھمکی کے بعد دفعہ 144 نافذ

کرناٹک کے مانڈیا ضلع میں سری رنگا پٹنم قلعے کے اندر جامع مسجد میں ہندوتوا گروپوں نے  4 جون کو پوجا کرنے کی دھمکی دی ہے، جس کی وجہ سے علاقے میں 3 جون سے 5 جون کی شام تک دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔ ہندوتوا گروپوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد ہنومان مندر کو منہدم کرنے کے بعد بنائی گئی تھی۔

کرناٹک کے سری رنگا پٹنم  میں واقع جامع مسجد۔ (فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا)

کرناٹک کے سری رنگا پٹنم  میں واقع جامع مسجد۔ (فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا)

نئی دہلی: کرناٹک کے مانڈیا ضلع کے سری رنگا پٹنم شہر  میں ایک مسجد میں ہندوتوا گروپوں کے داخل ہونے اور 4 جون کو پوجا کرنے کی دھمکی کے بیچ حکام نے 3 جون کی شام سے 5 جون کی شام تک دفعہ 144 نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دی نیوز منٹ کی رپورٹ کے مطابق، تحصیلدار شویتا رویندر نے شہر میں کسی بھی جلوس، احتجاج یا یاترا کو روکنے کے لیے امتناعی احکامات نافذ کیے ہیں۔ سی آر پی سی کی دفعہ 144 دیگر پابندیوں کے بیچ  چار یا اس سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی عائد کرتی ہے۔

ہندوتوا گروپوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سری رنگا پٹنم قلعے میں واقع جامع مسجد ہنومان مندر کو منہدم کرنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے مطابق، مسجد پر فارسی نوشتہ جات بتاتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نے 1782ء میں مسجد اعلیٰ  نام کی  یہ مسجد تعمیر کروائی تھی۔

رپورٹس  کے مطابق،  ہندوتوا گروپوں کی طرف سے بلائے گئے ‘سری رنگا پٹنم چلو’ مارچ کو اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسے گروپ مسجد میں داخل ہونے اورپوجا  کرنے کی بات پر قائم  ہیں۔ بدنام زمانہ شری رام سینا کے سربراہ پرمود متالک نے بھی ‘سری رنگا پٹنم چلو’ کے اپیل کی حمایت کی ہے۔

دی نیوز منٹ کے مطابق، کچھ ہندو کارکنوں نے ایک میمورنڈم سونپ کر ضلع انتظامیہ سے ویسا ہی سروے کرانے  کے لیے کہا ہے ، جیسا کہ وارانسی کی گیان واپی مسجد میں کیا گیا تھا۔

گیان واپی مسجد کے بعد کئی ہندو گروپوں نے مساجد میں سروے کرنے کے لیے اسی طرح کی درخواستیں کی ہیں۔

تاہم، عبادت گاہوں کے ایکٹ، 1991 میں کہا گیا  ہے کہ ایک مسجد، مندر، چرچ یا عوامی عبادت کی کوئی بھی جگہ جو 15 اگست 1947 کو وجود میں تھی، اس کا وہی مذہبی کردار برقرار رہے گا جو اس دن تھا اور اس کو عدالتوں یا سرکاروں کے ذریعےتبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

قانون کہتا ہے کہ کسی بھی عدالت کے سامنے 15 اگست 1947 کی حالت میں زیر الوا کسی بھی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کی تبدیلی کے سلسلے میں قانونی کارروائی ختم ہو جائے گی، لیکن کوئی نیا مقدمہ یا قانونی کارروائی شروع نہیں کی جائے گی۔

ایودھیا کیس کا فیصلہ ہندو فریقوں کے حق میں کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے 1991 کے قانون کے جواز کو  برقرار رکھا تھا۔ چنانچہ آئین کے ماہرین کا خیال ہے کہ بھلے ہی ثبوت سامنے آتے ہیں  کہ کوئی مذہبی مقام پہلے سے موجود ایک دوسری عبادت گاہ کو گرا کر بنائی گئی تھی، تب بھی اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جو 15 اگست 1947 کو تھا، وہی رہے گا۔