فکر و نظر

رویش کمار کا بلاگ: ’اکشے کمار، پلیز آپ مؤرخ سے واپس صحافی بن جائیے‘

اس وقت گودی جگت کو ایک نئے کمار کی ضرورت ہے اور اکشے کمار سے بڑا کمارسوجھ نہیں رہا ہے۔ کام و ہی کرناہوگا، لیکن نیا چہرہ کرے گا توچینج لگے گا۔ وہ صحافی بن کر آئیں گے تو ایک ہی شوکو ہر چینل پر ایک ساتھ چلوایا جائے گا۔ سیزن  بھی آم کا ہے، جتنا آم مانگیں گے، اتنا   کھلوایا جائے گا۔

اکشے کمار 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی کا انٹرویو لیتےہوئے۔ (اسکرین شاٹ بہ شکریہ: یوٹیوب/نریندر مودی)

اکشے کمار 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی کا انٹرویو لیتےہوئے۔ (اسکرین شاٹ بہ شکریہ: یوٹیوب/نریندر مودی)

محترم  اکشے کمار جی،

مؤرخ، وشو گروبھارت،

ملک مشکل میں ہے اور مشکل کی اس گھڑی میں آپ کو گھڑی–گھڑی یاد کر رہا ہوں۔ گودی میڈیا کے ایک کمار کے پروگرام کی وجہ سے ہندوستان کی ساکھ کو دھبہ پہنچاہے۔ ان کے شو میں کچھ ایسی باتیں کہی گئیں کہ کویت اور قطر میں لوگ ناراض ہو گئے ہیں۔ وہاں کی حکومت ناراض ہو گئی ہے۔ وہاں لوگ ہندوستانی اشیاء کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ ہندوستانی سفیروں کو بلا کر پوچھا–پاچھی ہونے کی خبریں پڑھ کرمیں صرف آپ کو یاد کر رہا ہوں۔

مجھے پتہ ہے کہ آپ تین سال بعد کسی فلم میں اس  کا بدلہ لیں گے، لیکن آپ کی ضرورت اس وقت ہے۔ابھی ہے۔

بی جے پی دنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ قطر اور کویت کی آبادی سے بھی کئی گنا زیادہ اس کے ارکان ہوں گے، پھر بھی بی جے پی ان ممالک کی ناراضگی سے ڈر گئی ،  اپنے دو ترجمانوں کو نکال دیا، جو ان دنوں مغلیہ دور کا حساب برابر کرنے میں لگے تھے۔ پوری لڑائی کنفیوژن کا شکار ہو گئی ہے۔

گزشتہ کئی دنوں سے مغلوں کی کرنی کا بدلہ لینے کے لیے ترجمانوں کے گھوڑے چھوڑ دیے گئے تھے، مبینہ مذہبی رہنماؤں کو کھلا چھوڑ دیا گیاتھا، لیکن عربی گھوڑوں کو دیکھتے ہی بی جے پی نے ترجمانوں کو نکال دیا۔ بتائیے ایسا کہیں ہوتا ہے؟ یہ پیروکاروں  کے جذبات کی توہین ہے۔

آخر جو ملک ایپ  ڈیلیٹ کر کے اور پھلجھڑیوں کے بائیکاٹ سے چین کو ڈرا سکتا ہے، وہ ملک اپنے سامانوں کے بائیکاٹ کے ڈرسے قطر اور کویت سےکیسے ڈر سکتا ہے؟ ڈو یو گیٹ مائی پوائنٹ ؟ (کیا آپ میری بات سمجھ رہے ہیں؟)

آج بی جے پی کے پیروکار فریب خوردہ ہیں۔ کیا وہ پٹرول کا استعمال نہیں چھوڑ سکتے؟ ٹرکوں کے ٹینکر پر لکھا عراق کا پانی مٹا کر گئو موتر نہیں لکھ  سکتے؟ سائیکل سے نہیں چل سکتے؟ پیدل نہیں چل  سکتے؟ ان کے اندرتیاگ  کی بے پناہ صلاحیت ہے لیکن بی جے پی نے اپنے ترجمانوں کو نکال کر انہیں مایوس کر دیا ہے۔

جب آپ بیک ڈیٹ میں مغلوں سے بدلہ لے سکتے ہیں تو مجھے بھروسہ ہے کہ آپ عربوں سے بھی بدلہ لے سکتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ملک  مشکل میں نظر آرہا ہے۔

آپ کمار نہیں ہوتے تو میں آپ کو خط نہیں لکھتا۔ میں جانتا ہوں کہ ایک کمار ہی کمار کی جگہ لے سکتا ہے۔ کچھ بھی ہو جائے، ابھی ملک کو گودی میڈیا کی اشد ضرورت ہے، تبھی تو گوڈی میڈیا کو بچانے کے لیے ملک کی امیج بھی داؤ پر لگائی  جا رہی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے عوام کے ذہن کوکند کرنے میں اس کی  ضرورت ہے۔ آپ کا بھی اہم رول ہے۔

اس وقت گودی میڈیا کو بچانا ہے۔ یہ اگر  صحافت کرنے لگے گا تو آپ بھی بچ نہیں پائیں گے۔ گودی میڈیا کو ابھی اورپروپیگنڈہ کرنا ہے۔ گودی کوزہر پھیلانا ہی ہے ورنہ گودی کا کوئی رول نہیں۔ مالک نے اسے یہ ٹاسک دیا ہے۔

گودی صحافیوں کو اب صحافت کا اعزاز بھی ملنے لگا ہے۔ اس لیے آپ ایوارڈ کی فکر نہ کریں۔ فلم فیئر سے زیادہ ایوارڈ ہیں یہاں۔

میری  آپ سے اپیل ہے  کہ آپ مؤرخ کا کام چھوڑ دیں۔ تاریخ ویسے بھی آپ کو ٹھیک سے یاد رکھے گی۔تاریخ پڑھانے کا کام ریٹائرڈ انکل لوگ  اپنے وہاٹس ایپ گروپ میں آپ سے بہتر  کر رہے ہیں۔ وہ بھی فری میں، آپ تو فلموں میں کام کرنے کے پیسے لیتے ہوں گے۔

آپ مکمل گوڈی میڈیا اور ہاف گوڈی میڈیا کے گروپ ایڈیٹر بن جائیے۔ اس وقت گودی جگت کو ایک نئے کمار کی ضرورت ہے اور مجھے اکشے کمار سے بڑا کمار سوجھ نہیں رہا ہے۔ کام و ہی کرنا ہوگا، لیکن نیا چہرہ کرے گا توچینج لگے گا۔

میں بھی کمار ہوں لیکن میں توفیل ہوچکا ہوں۔ میری ٹی آر پی زیروہے۔ یہ مسئلہ قومی مفاد کا ہے، اس لیے میں اپنے مفادسے اوپر اٹھ کر ملک کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ آپ سے بڑا کمار کوئی کمار نہیں ہے۔

آپ صحافی بن کر آئیں گے تو آپ کے ایک ہی شو کو ہر چینل پرایک ساتھ  چلوایا جائے گا۔ سیزن  بھی آم کا ہے۔ آپ جتنا آم مانگیں گے، اتنا  کھلوایا جائے گا۔ اکشے کمار، آپ پلیز مؤرخ سے واپس صحافی بن جائیے۔

آپ کا،

رویش کمار

(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)