خبریں

نصیر الدین شاہ نے پی ایم مودی سے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو روکنے کی اپیل کی

سیاسی معاملات پر شاہ رخ، سلمان اور عامر خان کی خاموشی پر اداکار نصیر الدین شاہ نے کہا کہ، میں ان کے لیے نہیں بول سکتا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ سوچتے ہوں گے کہ وہ بہت زیادہ خطرہ مول لے رہے ہیں، لیکن پھر میں نہیں جانتا کہ وہ اپنے ضمیر کو کیسے تسلی دیتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ اس پوزیشن میں ہیں جہاں ان کے پاس کھونے کے لیے بہت کچھ ہے۔

نصیر الدین شاہ(فوٹو : پی ٹی آئی)

نصیر الدین شاہ(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: پیغمبر اسلام کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو سابق عہدیداروں  کے تبصروں پر ملک اور بیرون ملک جاری مذمت کے درمیان معروف اداکار نصیر الدین شاہ نے بدھ کو امید ظاہر کی کہ ایک دن لوگوں  میں اچھی سمجھ پیدا ہوگی اورمسلمانوں کے خلاف ‘ نفرت کی لہر’ ختم ہو جائے گی۔

نصیر الدین شاہ نے بالی ووڈ کے تین خانوں– سلمان، شاہ رخ اور عامر پر خصوصی زور دیتے ہوئے بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کے بارے میں حالیہ تبصروں پر فلم انڈسٹری کی خاموشی کے بارے میں بات کی۔

این ڈی ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں شاہ نے اندازہ لگایا  کہ ملک کے سب سے بڑے ستاروں کے پاس بولنے کی وجہ سے بہت کچھ کھونے کا ڈر ہے۔ انہوں نے  ‘حب الوطنی کے جھوٹے جذبے’ کے تحت پیش کی گئی  فلم ‘دی کشمیر فائلز’ پر بھی تبصرہ کیا۔

کئی نیشنل فلم ایوارڈپاچکے شاہ نےنیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی سے مداخلت کرنے اور ‘اس زہر کو پھیلنے سے روکنے’ کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا، میں ان سے (وزیراعظم) سے گزارش کروں گا کہ وہ ان لوگوں کو تھوڑی اچھی سمجھ دیں۔ ہری دوار میں دھرم سنسد میں جو باتیں کہی گئی ہیں ، اگر وہ ان  باتوں پر بھروسہ کرتے ہیں تو انہیں ایسا کہنا چاہیے۔ اگر وہ ان باتوں پربھروسہ نہیں  کرتے ہیں تو بھی انہیں یہ بات کہنی چاہیے۔

معلوم ہو کہ پیغمبر اسلام کے بارے میں مبینہ طور پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے لیے بی جے پی نے 5 جون کو اپنے قومی ترجمان نوپور شرما کو معطل کر دیا  تھا اور دہلی یونٹ کے ترجمان نوین جندل کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔ پیغمبر اسلام کے خلاف متنازعہ ریمارکس کی کئی ممالک نے مخالفت کی ہے۔

شاہ نے ایک نجی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا، ہندوستانی حکومت نے جو  کارروائی کی ، بہت بہت کم اور بہت دیر سے کی۔

انہوں نے کہا، پاکستان، بنگلہ دیش یا افغانستان ، جنہیں ہم ایک دن ‘اکھنڈ بھارت’ (متحدہ ہندوستان) میں شامل کرنے کی امید رکھتے ہیں، ایسے ممالک میں اس طرح کے بیانات کا مطلب سزائے موت ہے، کیونکہ انہیں توہین مذہب سمجھا جائے گا۔ یہاں سب سے اوپر بیٹھے ہوئے لوگوں نے کچھ نہیں کہا اور لاکھوں عقیدت مند لوگوں کی دل آزاری کے بارے میں کسی نے بات نہیں کی۔

حکمران پارٹی سے معطل کیے جانے کے بعد، شرما نے ‘غیر مشروط’ معافی مانگی، جسے اداکار نے ‘ڈھونگ’ قرار دیا۔

انہوں نے کہا،مجروح شدہ  جذبات کو ٹھنڈا کرنا شاید ہی اس کا مقصد تھا۔ اگر نفرت پیدا کرنے والی اس طرح کی بات دوبارہ کی جائے تو مجھے حیرت نہیں ہوگی۔ یہ المیہ ہے کہ اگر آپ امن اور اتحاد کی بات کرتے ہیں تو آپ کو ایک سال سے زیادہ عرصہ تک جیل میں بند کردیا جاتا ہے۔ اگر آپ نسل کشی کی بات کرتے ہیں تو آپ کو معمولی سی سزا ملتی ہے۔ یہاں دوہرا معیار اپنایا جا رہا ہے۔ یہ جارج آرویل کے ناول ‘1984’ میں دکھائی گئی دوہری سوچ کی طرح ہے۔

جارج آرویل نے اپنے ناول  1984 میں دوہری سوچ کو’ایک دماغ میں دو متضاد خیالات کو بنائے رکھنے اور دونوں پر بیک وقت یقین کرنے’ کے طور پرپیش کیا ہے۔

بی جے پی نے انہیں (نوپور شرما) کو  ‘فرنج عناصر’ قرار دیتے ہوئے ان کے تبصروں سے دوری بنالی  اور کہا کہ ان کے خیالات پارٹی کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

شاہ نے کہا کہ نوپور شرما کوئی ‘حاشیائی  عنصر’ نہیں ہیں، جیسا کہ بی جے پی نے دعویٰ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ سمجھدار ہندو مسلم کمیونٹی کے خلاف جاری نفرت کے خلاف آواز اٹھائیں ۔

انہوں نے کہا کہ وہ ‘نفرت کے پروپیگنڈے’ کے لیے ٹی وی نیوز چینلوں  اور سوشل میڈیا کو ‘پوری طرح سے ذمہ دار’ سمجھتے ہیں۔

شاہ نے وارانسی میں گیان واپی مسجد کمپلیکس کے موجودہ معاملے کاذکر تے ہوئے کہا کہ، یہ پیدا کی گئی  نفرت ہے۔ یہ ایک طرح کا زہر ہے، جواس وقت  اُگلنا شروع ہو جاتا ہے، جب آپ کا سامنامخالف سوچ کے آدمی سے ہوتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ وہ وقت کتنا دور ہے جب ہر گرجا گھر کے نیچے شیولنگ تلاش کرنا شروع کر دیے جائیں گے۔

تاہم، انہوں نے نوپور شرما اور ان کے خاندان کو  جان سے مارنے والی  دھمکیوں کی مذمت کی۔

شاہ نے کہا، یہ راستہ غلط ہے۔ اسی لیے پاکستان اور افغانستان میں اتنا انتشار ہے۔ ہم ان ممالک کی تقلید نہیں کرنا چاہتے، لیکن کیا جانے انجانے ہم  ایسا کر رہے ہیں؟ صرف گائے ذبح کرنے پر  ہی نہیں ، بلکہ گائے کے ذبیحہ کے شبہ میں بھی لوگوں   کو پیٹ پیٹ کر مار دیا جا رہا ہے، مردہ گائے کی کھال اتارنےوالے اچھوت (سمجھے جانے والے ) لوگوں کو سرعام کوڑے مارے جاتے ہیں۔ ایسے واقعات ہندوستان میں نہیں ہوتے تھے ،بلکہ وحشی اسلامی ممالک میں ہوتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا شاہ رخ خان، سلمان خان اور عامر خان آج اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں، شاہ نے کہا کہ وہ ان بالی ووڈ اداکاروں کی طرف سے بات نہیں کر سکتے۔

شاہ نے خانوں کے بارے میں کہا، میں ان کے لیے نہیں بول سکتا۔ میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں، جس میں وہ ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ سوچتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ خطرہ مول لے رہے ہوں گے، لیکن پھر میں نہیں جانتا کہ وہ اس کے بارے میں اپنے ضمیر کو کیسے تسلی دیتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ اس پوزیشن میں ہیں، جہاں ان کے پاس کھونے کے لیے بہت کچھ ہے۔

انہوں نے شاہ رخ خان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے منشیات کیس میں اپنے بیٹے آرین خان کی گرفتاری کے وقت میڈیا کو بڑی شائستگی کے ساتھ ہینڈل کیا۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کے لیے بہت کچھ کرنے پر تعریف کے باوجود سونو سود کے خلاف چھاپے مارے گئے۔

انہوں نے کہا، شاہ رخ خان کے ساتھ جو ہوا اور جس وقار کے ساتھ انھوں نے اس کا سامنا کیا وہ قابل تعریف ہے۔ یہ وچ ہنٹ کے علاوہ  کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے اپنا منہ بند رکھا ہے۔ انہوں نے صرف ترنمول کی حمایت کی اور ممتا بنرجی کی تعریف کی۔ سونو سود کے ٹھکانے پر چھاپہ مارا گیا۔ جو کوئی بھی بیان دیتا ہے اسے جواب ملتا ہے۔ شاید میں اگلا ہوں۔ میں نہیں جانتا ۔ (ہنستے ہوئے) حالاں کہ انہیں کچھ نہیں ملے گا۔

آرین خان کو گزشتہ سال نارکوٹکس کنٹرول بیورو (این سی بی) نے گوا جانے والے کروز جہاز پر منشیات کےسلسلے میں گرفتار کیا تھا اور بعد ازاں ضمانت ملنے سے قبل انہیں کئی ہفتوں کے لیے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ حال ہی میں آرین اور پانچ دیگر کواین سی بی  نے  اپنی چارج شیٹ میں ‘شواہد کے فقدان’ کی وجہ سے کلین چٹ دےدی ہے۔

شاہ نے ان اداکاروں اور فلمسازوں کے بارے میں بھی بات کی جو قوم پرست سمجھے جانے والے منصوبوں سے وابستہ ہیں۔ اکشے کمار کی حالیہ ‘راشٹروادی’ فلم ‘سمراٹ پرتھوی راج’ اور وویک اگنی ہوتری کی بلاک بسٹر ‘دی کشمیر فائلز’ کے بارے میں پوچھے جانے پر نصیر الدین شاہ نے کہا، ‘وہ جیت پانے والے فریق کی طرف رہنا چاہتے ہیں۔

‘دی کشمیر فائلز’ کو’کشمیری ہندوؤں کے مصائب کا تقریباً خیالی ورژن’ قرار دیتے ہوئے اداکار نے کہا کہ حکومت کمیونٹی کی حفاظت اور بحالی کو یقینی بنانے کے بجائے اسے فروغ دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ کسی طرح لوگوں میں اچھی سمجھ پیدا ہو، لیکن مجھے امید نہیں ہے کہ یہ بہت جلد ہو گا۔ نفرت کی یہ لہر ایک دن ختم ہو جائے گی، بھلے ہی یہ میری زندگی میں نہ ہو، لیکن یہ لہر ایک دن ختم ہو جائے گی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)