فکر و نظر

یوپی حکومت کی توڑ پھوڑ مکمل طور پر غیر قانونی، معاوضہ ملنا چاہیے: ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس

دی وائر سے بات چیت میں الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے جسٹس گووند ماتھر نے کہا کہ جیسا اتر پردیش میں چل رہا ہے، ایسا ہی چلتا رہا تو قانون یا پولیس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ من مانا ہے۔

Arfa-Justice-Govind-Mathur

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے جسٹس گووند ماتھر نے سوموار کو ایک انٹرویو میں دی وائر سے کہا کہ 10 جون کو الہ آباد میں ویلفیئر پارٹی کے لیڈر جاوید محمد کے گھر کو گرانے کے لیے حکام کی جانب  سے جو بھی وجوہات بتائی  گئی ہوں، وہ  کارروائی غیر قانونی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ دار لوگوں   کی نشاندہی کی جانی چاہیے اور انہوں نے جو کیا اس کے لیے ان کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔

جاویدمحمد ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے لیڈر ہیں اور ان کی بیٹی آفرین فاطمہ بھی ایک اسٹوڈنٹ ایکٹوسٹ  ہیں۔ ان کا گھر، جو دراصل جاوید محمد کی اہلیہ کے نام پر ہے، اس کو الہ آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اتوار کو نوٹس بھیجے جانے کے چند گھنٹوں کے اندرتعمیراتی قوانین کی خلاف ورزی کر تے ہوئے منہدم کر دیا تھا۔

جاوید کو الہ آباد پولیس نے جمعہ کو پیغمبر اسلام کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں کی طرف سے کیے گئے تبصروں کے خلاف منعقد احتجاجی مظاہرے کے مد نظر گرفتار کیا تھا، بتادیں کہ یہ مظاہرہ  پرتشدد ہو گیا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس تشدد کے  ‘ماسٹر مائنڈ’  جاوید محمد تھے اور اس کے لیے ان کے گھر کو واضح طور پر توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا۔

اپریل 2021 میں الہ آباد ہائی کورٹ سے ریٹائر ہوئےجسٹس ماتھر کے مطابق،  ایسا کرنا سزا  دینے کا وہ طریقہ ہے، جس کا ہندوستانی قانون میں  کوئی ذکر نہیں ہے اور اس لیے یہ غیر قانونی ہے۔

انہوں نے اس کارروائی کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں محض قانون کی حکمرانی کی  خلاف ورزی نہیں ہوئی بلکہ یہ جان بوجھ کر کی گئی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ جو ایک مہذب معاشرے میں نہیں ہونا چاہیے، وہ سب ہو ا ہے۔

انہوں نے  مزید کہا،اگر ہم مان بھی لیں کہ  جو مظاہرہ ہوا، ان میں جاوید شامل تھے، ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ وہاں کچھ  ایسی سرگرمی بھی ہوئی ہوگی جسے ہم مجرمانہ سرگرمی سمجھتے ہیں، اس کے باوجود اس مرحلے پر ایسی کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ سب سے پہلے ایک مقدمہ درج کرنا ہوگا، شواہد اکٹھے کرنے ہوں گے، ان کی بنیاد پر ملزم طے کرنے ہوں گے، چالان درج ہوگا، فرد جرم عائد ہوگی، سماعت ہوگی اور جرم ثابت ہوئے بغیر سزا نہیں ہوسکتی۔ اور سزا بھی وہی ملےگی جو آئی پی سی میں لکھی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا