فکر و نظر

ممبئی: این سی ای آر ٹی نے کووڈ کے بہانے سماجیات کی کتاب سے ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے متعلق مواد کو ہٹایا

این سی ای آر ٹی کی کتابوں کے مواد کو ‘منظم کرنے’ اور کووڈ کے بعد طلبا کے نصابی  بوجھ کو ‘کم کرنے’ کا حوالہ دیتے ہوئے ماہرین کی ایک کمیٹی نے کاسٹ، کاسٹ مخالف تحریک،  اس کے ادب اور سیاسی واقعات سے متعلق متعددحوالہ جات  کو  ہٹا دیا ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی )

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی )

نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کی کتابوں کے مواد کو ‘منظم کرنے’ اور کووڈ کے بعد طلبا کے نصابی  بوجھ کو ‘کم کرنے’ کے لیے  ماہرین کی ایک کمیٹی نے نصابی کتابوں سے کاسٹ، کاسٹ مخالف تحریک اور اس کے ادب سے متعلق کئی بنیادی تذکروں اور اصل حوالہ جات کو  ہٹا دیا ہے۔

یہ تبدیلی اس سلسلے کا حصہ ہے، جس کے تحت 2002 کے گجرات فسادات، ایمرجنسی، ڈیم بنانے کے سلسلے میں جواہر لال نہرو کا نقطہ نظر،سیڈیشن اور نکسل ازم  جیسے اہم حوالہ جات کو این سی ای آر ٹی کی کتابوں سے ہٹادیا گیا ہے۔

بارہویں جماعت کی سوشیالوجی (سماجیات) کی کتاب ان کتابوں میں سے ایک ہے، جس میں سب سے زیادہ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ پرانی کتاب میں ذات پات کے نظام، ماضی اور عصری ہندوستان میں اس کے اثرات کے بارے میں متعدد اسباق تھے۔ لیکن، اب اس سے ذات مخالف تحریک کے اہم ترین تاریخی پہلوؤں کو ہٹایا جا رہا ہے۔

مثال کے طور پر، 12ویں جماعت کی سماجیات کی کتاب کے ایک باب ‘دی کلچرل چینج’ میں 13 سالہ مکتا بائی اور ان کی ہندو مذہب کو مسترد کرنے والی نظم کا ذکر نہیں ہے۔

دلت مانگ برادری سے تعلق رکھنے والی مکتا بائی یا مکتا سالوے جیوتیبا پھولے اور ساوتری بائی پھولے کے ابتدائی شاگردوں میں سے ایک تھیں۔ وہ اپنی نوعمری میں ہی ہوں گی، جب انہوں نے ہندو مذہب کو خارج کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ‘اس مذہب کو اس دھرتی سے ختم ہوجانا چاہیے جہاں صرف ایک شخص کو خصوصی اختیارات حاصل ہوں اور باقی محروم ہوں’۔

نصابی کتاب میں ان کی اس نظم کا تذکرہ یہ کہتے ہوئے کیا گیا تھا کہ ‘یہ ایک ایسا  خیال تھا جو دلتوں میں تیزی سے حمایت حاصل کر رہا تھا، جس میں ہندو فریق کی پوری طرح سےتردید تھی’۔

NCERT

نصابی کتابوں میں تبدیلی گزشتہ سال دسمبر میں اس وقت کے این سی ای آر ٹی ڈائریکٹر سریدھر سریواستو کی طرف سے دی گئی ہدایات کے بعد کی گئی  ہے، جب انہوں نے یہ محسوس کیا تھاکہ ‘کووڈ19کے پیش نظر طلباء پر نصابی کتابوں کے  بوجھ کو کم کرنا ضروری ہے’۔

ایک اور باب جس کا عنوان کاسٹ بیسڈ موومنٹ یعنی’ذات پر مبنی تحریک’تھا،اس میں ذات مخالف تحریک کے دونوں رہنما پھولے اور بی آر امبیڈکر کا بھی ذکر تھا، اس کو بھی ہٹا دیا گیاہے۔ اس میں مہاراشٹر اور تمل ناڈو کی برہمن مخالف تحریک پر بھی بات کی گئی تھی۔

یہ باب پہلے طلبا کو’دلت شاعروں’ کی نظموں اور گیتوں پر بحث کر کے ذات مخالف رائٹنگ سے جڑنے کی ترغیب دیتا تھا۔ یہ سرگرمیاں اب کتاب سے ہٹا دی گئی ہیں۔

مواد کو ہٹانے کے اس حالیہ قدم کے ساتھ ہی  پینل نے ذات پات کے وجود اور عصری معاشرے پر اس کے اثرات کو بھی کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ذات  پر مبنی پنچایتوں کے بارے میں کچھ انتہائی قابل ذکر مباحث کو پوری طرح سے ہٹا دیا گیا ہے۔

پرانی نصابی کتاب میں  ‘ڈیموکریٹائزیشن اینڈ ان اکولٹی ‘ (جمہوریت اور عدم مساوات) کے ذیلی باب کے تحت ذات  پر مبنی پنچایتوں کے بارے میں  تفصیل سے بحث کی گئی تھی۔

سال 2004 کے ایک اخباری مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے جھجر ضلع کے اسندا گاؤں میں راٹھی کھاپ پنچایت سے متعلق ایک واقعہ کو یاد کیا گیا تھا، جہاں سونیا نامی خاتون کو حکم دیا گیا تھا کہ اگر وہ گاؤں میں رہنا چاہتی ہے تو اپنی  شادی توڑ لے۔اپنے حمل کو ضائع کرے اور اپنے شوہر کو اپنے  بھائی کے طور پر قبول کرے۔ اسے اپنے ہی  گوتر میں شادی کرنے کی سزا دی گئی تھی۔

اس باب میں مسلمانوں کے درمیان بھی اس طرح کی پنچایتوں کے بارے میں بات کی گئی تھی۔ یہ حصہ بھی مکمل طور پر ہٹا دیا گیا ہے۔

بارہویں جماعت کی سماجیات کی کتاب سے پاردھی برادری کا واحد ذکر بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ برادری سب سے زیادہ پسماندہ اورغیر شناخت شدہ قبائل میں سے ایک ہے۔ اس میں ‘سوشل موومنٹ’ کے باب کے تحت سماجی تحریک کی خصوصیات پر بحث کرتے ہوئے سماجی کارکن انکش کالے کی تقریر کا ذکر تھا۔

پاردھی خاندان میں پیدا ہوئے کالے کہتے ہیں،پاردھی بہت ہنر مند شکاری  ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود معاشرہ ہمیں صرف مجرموں کے طور پر دیکھتا ہے… ہماری کمیونٹی کو چوری کےالزام میں  پولیس کی ہراسانی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ گاؤں میں جب بھی کوئی چوری ہوتی ہے تو ہمیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ پولیس ہماری خواتین کا استحصال کرتی ہے اور ہمیں ان کی تذلیل دیکھنا پڑتی ہے۔ معاشرہ ہمیں اپنے آپ سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ ہمیں  چور کہاجاتا ہے۔ لیکن کیا کبھی لوگوں نے ہمیں سمجھنے کی کوشش کی ہے؟ کیوں ہمارے لوگ چوری  کرتے ہیں؟ ہمیں چور بنانے کا ذمہ دار یہی معاشرہ ہے۔ وہ جو ہمیں  چوروں میں بدلنے کے لیے ذمہ دار ہیں۔ وہ ہمیں کبھی نوکری نہیں دیتے کیونکہ ہم پاردھی ہیں۔

کالے کی تقریر کے جذباتی  تبصرے اس صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں جس میں یہ کمیونٹی زندہ رہتی ہے۔ تاہم، نظر ثانی شدہ نصابی کتاب سےاس کمیونٹی کا واحد ذکربھی ہٹا دیا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی گجرات میں بندھوا مزدوری اور ذات پات کے نظام کے مضمرات کا ذکر بھی کتاب سے ہٹا دیا گیا ہے۔

ہندوستانی جمہوریت، تمہید اور دستور ساز اسمبلی کی بحث پرمرکوز ابواب کے کئی حصوں کو یا تو ہٹا دیا گیا ہے یا مختصر کر دیا گیا ہے۔ او بی سی ریزرویشن حاصل کرنے کی جدوجہد پر بحث کرنے والے ایک پورے حصے کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے دلیل یہ ہے کہ اسی طرح کے موضوعات دیگر جماعتوں  کی سیاسیات کی کتابوں میں موجود ہیں۔

نصاب کو نئے سرے سے منظم کرنے یا تنظیم نو کے عمل میں سریواستو کے ذریعے تشکیل کردہ پینل کے بعد،  اس سال فروری میں این سی ای آر ٹی کے نئے ڈائریکٹر دنیش پرساد سکلانی نے چارج سنبھالا تھا۔

انڈین ایکسپریس کو اپنے ردعمل میں انہوں نے کہا کہ نصابی کتب میں تبدیلی کی قواعد ان کے عہدہ سنبھالنے سے قبل مکمل ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔

دیگر مواد جو ہٹا دے گئے

سیڈیشن: کلاس 8 کی سیاسیات  کی کتاب کے باب  ‘قانون کی سمجھ’  کے تحت نوآبادیاتی قوانین کی مطلق العنانیت پر بحث کرنے کے لیےاس قانون کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس حصے کو ہٹا دیا گیا ہے۔

نکسلائٹ موومنٹ: کلاس 10 اور 12 کی کتابوں سے نکسلی تحریک کے ذکر کو تقریباً مکمل طور پر ہٹا دیا گیا ہے۔ 12ویں جماعت کی سیاسیات کی کتاب میں’کرائسس آف ڈیموکریٹک آرڈر’ کے باب کے تحت 1967 کے کسان بغاوت پر تفصیل سے بحث کی گئی تھی۔ اس کو اور اس کے ساتھ بائیں بازو کے رہنما چارو مجمدار کےتذکرہ کو بھی  اب کتاب سے ہٹا دیا گیا ہے۔

Ncert-2

گجرات فسادات: اسی طرح پینل نے 12ویں جماعت کی سیاسیات کی کتاب سے گجرات فسادات کے حوالہ جات کو ہٹا دیا ہے۔ ‘پالیٹکس ان انڈیا سنس انڈیپنڈنس’ کے عنوان سےاس  باب میں فسادات پر تفصیلی بحث کی گئی تھی۔واقعات کی تاریخ کے ساتھ اس باب میں فسادات سے نمٹنے میں ہومن رائٹس کمیشن کی طرف سے کی گئی تنقید کا حوالہ  بھی دیا گیا تھا۔

ایک حذف شدہ پیراگراف میں کہا گیا ہے، گجرات کے فسادات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومتی مشنری بھی فرقہ وارانہ جذبات کے سامنے جھک  جاتی ہے۔ گجرات جیسی مثالیں ہمیں مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے خطرات سے آگاہ کرتی ہیں۔ اس سے جمہوری سیاست کو خطرہ لاحق ہے۔

اسی طرح کی تبدیلیاں 12ویں جماعت کی سوشیالوجی کی کتاب میں کی گئی ہیں جس میں 2002 کے فسادات کا ذکر تھا۔

ایمرجنسی: صرف گجرات فسادات ہی نہیں، اندرا گاندھی کی حکومت کے تحت نافذ ایمرجنسی پر بحث کرنے والے ابواب کو بھی ڈرامائی انداز میں مختصر کر دیا گیا ہے۔ ہٹائے گئے حصے میں میڈیا کو سنبھالنے، سیاسی کارکنوں کی گرفتاری اور حکومت کی طرف سے مردوں کی جبراً نس بندی پر بات کی گئی تھی۔ یہ سب اب ہٹا دیے گئے ہیں۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔