خبریں

حجاب تنازعہ: دو مسلم طالبات نے کالج سے این او سی تو ایک نے ٹی سی لی

کرناٹک کے منگلورو واقع  کالج میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والی دو مسلم طالبات کو دوسرے کالج میں داخلہ لینے کے لیے این او سی دیا گیا ہے، جبکہ ایک کو ٹرانسفر سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا ہے۔ تین میں سے دو طالبات نے پریس کانفرنس کی تھی اور یونیورسٹی کیمپس میں یکساں اصول کو سختی سے لاگو کرنے کے فیصلے پر سوال اٹھایا تھا۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

(تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کرناٹک کے منگلورو واقع کالج میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والی دو مسلم طالبات کو دوسرے کالج میں داخلہ لینے کے لیے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) دیا گیا ہے، جبکہ ایک کو ٹرانسفر سرٹیفکیٹ (ٹی سی) جاری کیا گیا ہے۔

تین میں سے دو طالبات نے پریس کانفرنس کی تھی اور یونیورسٹی کیمپس میں یکساں اصول کو سختی سے لاگو کرنے کے فیصلے پر سوال اٹھایا تھا۔

کالج کی پرنسپل انسویا رائے نے کہا کہ پریس کانفرنس میں شامل ایک اور طالبہ نے کالج کو خط لکھ کر معافی مانگی ہے اور وہ آن لائن کلاسز میں شرکت کر رہی ہے۔

رائے نے کہا کہ کیرل سے تعلق رکھنے والے ایم ایس سی (کیمسٹری) کی ایک اور مسلمان طالبہ نے اپنی  صحت  کی خرابی کا حوالہ دیتے ہوئے ٹرانسفر سرٹیفکیٹ لیا ہے۔

این او سی سے طالبات دوسرے گریجویٹ کالجوں میں داخلہ لے سکیں گی۔ ٹی سی اس وقت جاری کیا جاتا ہے جب کسی دوسرے کالج میں داخلے کو  منظوری مل جاتی ہے۔

منگلورو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پی ایس یداپادیتیہ نے اعلان کیا تھا کہ مسلم طالبات یونیورسٹی کے یونیفارم قوانین پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں اور دوسرے کالجوں میں داخلہ لینا چاہتی ہیں،جہاں یہ پابندیاں نہیں ہیں، تو ان کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں گے۔

معلوم ہو کہ حجاب کا تنازعہ سب سے پہلے کرناٹک کے اڈپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا تھاجب دسمبر 2021 میں چھ لڑکیاں حجاب پہن کر کلاس میں آئی تھیں اور انہیں کالج میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

ان کے حجاب پہننے کے ردعمل میں ہندو طالبعلم بھگوا اسکارف  پہن کر کالج آنے لگے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ تنازعہ ریاست کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا تھا، جس سے کئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔

فروری میں کرناٹک حکومت نے اسکولوں اور کالجوں میں مساوات، سالمیت اور امن عامہ کی خلاف ورزی کرنے والے کپڑے پہننے پر پابندی لگا دی تھی، جسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

اس تنازعہ کے درمیان ان طالبات نے کرناٹک ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں انہیں کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست کی گئی تھی۔

تعلیمی اداروں میں حجاب کو لے کر تنازعہ سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے 15 مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے اور اس نے کلاسزمیں حجاب پہننے کی اجازت دینے سے متعلق مسلم طالبات کی عرضیاں خارج کردی تھیں  اور ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔

مسلم لڑکیوں نے اس حکم کو کرناٹک ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس پر ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔ تاہم اسی دن اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔

گزشتہ 24 مارچ کو سپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کی فوری سماعت کی عرضیوں کو خارج کر دیا۔ ان عرضیوں کو خارج کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے کہا تھا، اس کا امتحان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسے سنسنی خیز نہ بنائیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)