خبریں

گجرات فسادات میں نریندر مودی کے رول کی جانچ کا مطالبہ کرنے والی تیستا سیتلواڑ گرفتار  

تیستا سیتلواڑ کے این جی او نے  گجرات فسادات کے دوران گلبرگ سوسائٹی قتل عام میں مارے گئے کانگریس ایم پی احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری کی قانونی لڑائی کے دوران حمایت کی تھی۔ احمد آباد پولیس کی کرائم برانچ کی جانب سے درج معاملے میں تیستا کے علاوہ آئی پی ایس افسرسنجیو بھٹ اور آر بی سری کمار کو بھی ملزم بنایا گیا ہے۔

سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ۔  (فوٹو : تیستا سیتلواڑ فیس بک)

سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ۔  (فوٹو : تیستا سیتلواڑ فیس بک)

نئی دہلی: 2002 میں گجرات کےمسلم مخالف فسادات میں نریندر مودی کو کلین چٹ دینے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئےسپریم کورٹ کی جانب سے ذکیہ جعفری کی عرضی  کو خارج  کیے  جانے کے ایک دن سے بھی کم وقت میں اے ٹی ایس نے عرضی گزاروں میں سے ایک  سماجی  کارکن تیستا سیتلواڑ کو گرفتار کر لیا ہے۔

سیتلواڑ کی این جی او نے ذکیہ جعفری کی قانونی لڑائی کے دوران حمایت کی تھی۔ جعفری کے شوہر احسان جعفری احمد آباد گلبرگ سوسائٹی میں قتل عام میں  کے دوران مارے گئے تھے۔

ممبئی پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ سیتلواڑ کو گجرات پولیس نےان کی  سانتا کروز واقع رہائش گاہ سے حراست میں لیا۔

سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ کے اہل خانہ نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں گجرات پولیس کی اے ٹی ایس نے ممبئی میں ان کے گھر سے حراست میں لیا، اور انہیں مقامی پولیس اسٹیشن لے جایا گیا اور پھر احمد آباد لے جایا گیا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اے ٹی ایس نے انہیں کیوں حراست میں لیا، حالانکہ یہ معاملہ احمد آباد پولیس کی کرائم برانچ نے درج کیا تھا۔

ایف آئی آر میں آئی پی سی کی دفعہ 468 (دھوکہ دہی کے ارادے سے جعلسازی)، 471 (جعلی دستاویز یا الکٹرانک ریکارڈ کے طور پر استعمال کرنا)، 120بی (مجرمانہ سازش)، 194 (سنگین جرم کاقصور ثابت کرنے کے ارادےسے جھوٹے ثبوت دینا یا گڑھنا) اور 211 (زخمی کرنے کے ارادے سے کسی جرم کا جھوٹا الزام) کا ذکرہے۔

سیتلواڑ کے ساتھ گجرات کے دو آئی پی ایس افسر– سنجیو بھٹ، جو پہلے  سےہی ایک اور کیس میں جیل میں ہیں، اور آر بی سری کمار بھی ملزم ہیں۔

ان تینوں پر گجرات فسادات کی تحقیقات کرنے والی ایس آئی ٹی کو گمراہ کرنے کی سازش کرنے کا الزام ہے، جو گجرات فسادات اور وزیر اعلیٰ کے طور پر نریندر مودی کے کردار کی تحقیقات کر رہی تھی، اگران کا کوئی رول ہے۔

ان فسادات میں 1200 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔

غور طلب ہے کہ ایف آئی آر میں سپریم کورٹ کے گزشتہ جمعہ (24 جون) کے فیصلے کے ایک حصے کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں ذکیہ جعفری کی اس عرضی کو خارج کر دیا گیا تھا جس میں ایس آئی ٹی کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشدد کے پیچھے ایک بڑی سازش کوخارج کرنے کو چیلنج کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ،

آخر میں ہمیں لگتا ہے کہ ریاست گجرات کے ناراض افسروں کے ساتھ ساتھ دوسروں  لوگوں کی مشترکہ کوشش سنسنی پیدا کرنے کی تھی، جو ان کے اپنے علم کے لیےجھوٹے تھے۔ درحقیقت،  قانونی عمل کے اس طرح کے غلط استعمال میں ملوث تمام افراد کو کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہیے اور قانون کے مطابق آگے بڑھنا چاہیے۔

ایف آئی آر احمد آباد پولیس کی کرائم برانچ میں پولیس انسپکٹر درشن سنگھ بی براڈ کی شکایت پر درج کی گئی  تھی۔ ایف آئی آر میں سیتلواڑ، بھٹ اور سری کمار ‘اور دیگر’ پر جھوٹے ثبوت گڑھ  کر قانونی عمل کے غلط استعمال کی سازش کرنے کا الزام لگایا گیا ہے،تاکہ متعدد افراد کو سزائے موت کے ساتھ قابل دست اندازی جرم کے لیے مجرم ٹھہرایا جا سکے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ انہوں نے ‘چوٹ پہنچانے کے ارادے سے بے گناہ افراد کے خلاف جھوٹی اور بدنیتی پر مبنی مجرمانہ کارروائی’ بھی شروع کی تھی۔

قانونی ماہرین نے سیتلواڑ کی گرفتاری پر سوال اٹھایا ہے، کیونکہ آئی پی سی کے کسی بھی جرم میں سات سال یا اس سے زیادہ  کی قید کی سزا کا الزام نہیں لگایا گیا ہے – ایک ایسی حد جس پر سپریم کورٹ نے زوردیا ہے کہ اگر پولیس کسی ملزم کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لے جانا چاہتی ہے، تو پھر اسے اس حد کو پار کرنے کی ضرورت ہے۔

سیتلواڑ نے گجرات اے ٹی ایس کے خلاف شکایت درج کراتے ہوئےکہا کہ وہ ان کے گھر میں داخل ہوئے اور ان کے ساتھ مار پیٹ کی۔ سماجی کارکن کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے وکیل سے رابطہ کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ بھٹ اور سری کمار جو مبینہ کمیشن اور کوتاہی کے دوران پولیس افسران کے طور پر اپنی خدمات دے رہے تھے، نے ‘متعدد افراد کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے جھوٹا ریکارڈ بنایا’، جو آئی پی سی کی دفعہ 218 کے تحت جرم ہے۔

ملزمین نے ‘سازش کی، جھوٹے ریکارڈ تیار کیے’ اور بے ایمانی سے ریکارڈکااستعمال کئی  لوگوں کو چوٹ پہنچانے اور نقصان پہنچانے کے ارادے سے کیا،  جوآئی پی سی کی دفعہ 468 (جعل سازی) اور 471 (دھوکہ دہی یا جعلی دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے) کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

قابل ذکر ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے سنیچر کو نیوز ایجنسی اے این آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے سیتلواڑ کو نشانہ بنایا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ سماجی کارکن کی طرف سے چلائی جانے والی این جی او نے ‘گجرات فسادات کے بارے میں بے بنیاد معلومات فراہم کیں’ اور ان پر مقدمہ کی عرضی گزار ذکیہ جعفری کو اکسانے کا الزام لگایا، جن کی درخواست سپریم کورٹ نے جمعہ کو خارج کر دی۔

شاہ نے کہا، میں نے فیصلے کو بہت غور سے پڑھا ہے۔ فیصلے میں تیستا سیتلواڑ کے  نام  کاواضح طور پر ذکر ہے۔ ان کے ذریعے چلائی جانے والی این جی او – مجھے اس کا نام یاد نہیں ہے – نے پولیس کو فسادات کے بارے میں بے بنیاد معلومات فراہم کی تھیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ گجرات حکومت، جوایس آئی ٹی کی کلین چٹ کو چیلنج کرنے والی ذکیہ جعفری کی عرضی میں فریق تھی، نے سیتلواڑ کے عرضی میں شامل ہونے پر’شدید اعتراض’ کیا تھا۔

عدالت نے کہا کہ حکومت نے نہ صرف یہ دلیل دی تھی کہ انہیں (تیستا) معاملے میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے، بلکہ یہ بھی کہا کہ ان کی گزشتہ تاریخ (ان پر لگے الزام) کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ انتقامی جذبے کے اپنے براہ راست مقصد کے لیے ان (مودی) کو ہراساں کرنے کے لیے ذکیہ احسان جعفری کے جذبات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

تیستا سیتلواڑ، سنجیو بھٹ اور آر بی سری کمار

ایف آئی آر میں پہلی ملزم تیستا سیتلواڑ کی این جی او سٹیزنز فار جسٹس اینڈ پیس نے گجرات میں 2002 کے  مسلم مخالف نسل کشی، خصوصی طور پر گلبرگ سوسائٹی اور نرودا پاٹیا کی ہلاکتوں سے پیدا ہونے والے معاملوں کی تشہیر کی اورمقدمے بازی کی ہے۔ بعد کے معاملے میں بی جے پی رہنما اور سابق وزیر مایا کوڈنانی کو معاملے میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔

دوسرے ملزم سنجیو بھٹ – جو 2002 کے فسادات کے وقت پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل ڈی آئی جی تھے – نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کر کے تشدد میں مودی کے ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

انہیں 2018 میں حراست میں موت کے ایک معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا جو دو دہائیوں سے زیادہ پرانا تھا۔ ان کے اہل خانہ نےحلف نامہ  کے لیے ان کی گرفتاری کو ریاستی ظلم  وستم قرار دیا ہے۔

تیسرے ملزم آر بی سری کمار نے ناناوتی کمیشن کو بتایا کہ انہیں گجرات پولیس کے ڈی جی پی نے 2002 میں مطلع کیا تھا کہ مودی نے پولیس سے کہا تھا کہ وہ گودھرا ٹرین آتشزدگی میں 59 کار سیوکوں کے مبینہ منصوبہ بندقتل کے خلاف ‘ہندوؤں کو اپنا غصہ نکالنے’ دیں۔

سری کمار ڈی جی پی بننے کی صف میں تھے، لیکن انہیں ہٹا دیا گیا تھا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔