فکر و نظر

عالم بالا میں رشی کیش مکھرجی خیر منا رہے ہوں گے کہ وہ دہلی پولیس کی گرفت سے محفوظ نکل آئے !

حکومت کے کارندے  نصف صدی قبل  کی ایمرجنسی اور اس کی  زیادتیوں پر لعنت بھیجتے ہیں، لیکن اہل وطن کسی اعلانیہ ایمرجنسی کے  بغیر اس وقت سے زیادہ بدتر حالات جی  رہے ہیں۔

(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

بی جے پی حکومت نے جس طرح ایمرجنسی کی برسی منائی، شاید ہی کسی نے منائی ہوگی۔ جب مودی بیرون ملک ہندوستان کی جمہوریت کی شان میں قصیدہ خوانی کر رہے تھے،  تو اسی وقت ملک میں سرکردہ سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ اور سابق ڈی جی پی آر بی سری کمار کو گرفتار کر لیا گیا۔

الزام  ہےکہ وہ گجرات فسادات میں انصاف کے لیےکوشاں تھے۔ اورگرفتاری کی وجہ؟ سپریم کورٹ کا فیصلہ، جس میں ایس آئی ٹی  کی ‘کلین چٹ’ کو برقرار رکھا گیا۔

جس دن عدالت نے فیصلہ سنایا، اس کے اگلے دن ہی یہ گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ اس مقدمے میں یہ لوگ کہیں نہیں تھے۔ جن کے ساتھ ناانصافی ہوئی، جو فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ بنے، ذکیہ جعفری– جنہوں نے اپنے شوہر اور دیگر بے گناہوں کو وحشی  ہندوتوا وادیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوتے دیکھا، یا جو دوسرے متاثرین تھے- انہیں انصاف ملے اس کے لیے یہ کارکن برسوں سے جدوجہدکر رہے تھے۔

حکومت نے عدالت کی آڑ لے کر ان پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اگلے ہی دن سپریم کورٹ کے فیصلے کی کاپی حاصل کرنے کے بعد دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی گئی۔ ایف آئی آر میں عدالت کے فیصلے کے اقتباسات کو تفصیل سے استعمال کیا گیا اور اسی دن گجرات پولیس سری کمار کو گاندھی نگر اور تیستا  کوممبئی سے گرفتار کر کے احمد آباد لے آئی۔

ان گرفتاریوں کے ایک ہی دن بعد دہلی پولیس نے معروف صحافی محمد زبیر کو گرفتار کر لیا۔ زبیرآلٹ نیوز پورٹل چلاتے ہیں، جس نے جھوٹی خبروں – جن میں سے اکثر خبریں نفرت اور تشدد کو بھڑکانے والی رہیں –  کو بے نقاب کیا،  اور معاشرے کے سامنے اس کی سچائی کو پیش کیا۔ وہ ہندوتوا کی پنچایت کرنے والے نام نہاد سنتوں کے نشانے پر تھے۔ ان پر مقدمہ درج ہوا۔

سوموار کو دہلی پولیس نے زبیر کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا۔ پولیس ان سےصرف پوچھ گچھ کر سکتی تھی کیونکہ مقدمے میں ہائی کورٹ نے گرفتار نہ کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ تب پولیس نے ان کے ایک ٹوئٹ پر موصول ہونے والی گمنام شکایت کی بنیاد پرنئی ایف آئی آر سے ان کوگرفتار کر لیا۔ زبیر کے ساتھی پرتیک سنہا، جو ان کے ساتھ تھے، کہتے ہیں کہ اس ایف آئی آر کی کاپی وہاں دستیاب نہیں تھی۔

تو یہ ہے ملک کا حال۔ نصف صدی پہلے کی ایمرجنسی کی زیادتیوں پر لعنت بھیجتے ہیں، لیکن کسی اعلانیہ ایمرجنسی کے ایمرجنسی سے بھی بدتر حالات میں اہل وطن زندگی گزار رہے ہیں۔ نفرت اور فسادات کی سیاست کے درمیان لنچنگ، لو جہاد، گیان واپی، تیجو مہالیہ، بلڈوزر اور طرح طرح کے پروپیگنڈے کے ساتھ چن چن کر سرکردہ کارکنوں اور صحافیوں  کونشانہ بنایا جا رہا ہے۔

جمہوریت کی گمشدگی کے ساتھ ہی صحافیوں کی ایک ایسی جماعت تیار کر دی گئی  ہے جو صبح سے شام تک نوٹ بندی سے لے کر اگنی پتھ تک کی ناکامیوں کو حصولیابی سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے ممدوح کی شان میں قصیدے پڑھتی ہے۔ یہ بلا وجہ نہیں ہے کہ میڈیا کی آزادی کے معاملے میں 180 ممالک میں ہندوستان کا مقام 150 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ انسانی حقوق کے معاملے میں مختلف سرکردہ بین الاقوامی ادارے لگاتار آگاہ کرتے آ رہے ہیں۔

سیڈیشن، مذہب کی توہین، دہشت گردی، عداوت پھیلانے جیسے الزامات کے بہانے اسٹیٹ کے تشدد کا شکار ہونے والوں میں تیستا، سری کمار یا زبیر ہی نہیں ہیں۔فادر اسٹین سوامی، لاعلاج بیماری میں ایک اسٹرا کے لیے ترستے ہوئےجنہوں نے قیدمیں دم توڑ دیا، کے علاوہ آئی پی ایس سنجیو بھٹ، کارکن اور ایڈیٹنگ-کنسلٹنٹ گوتم نولکھا، وکیل سدھا بھاردواج (اب ضمانت پر)، محقق رونا ولسن، شاعر ورورا راؤ، اسکالر آنند تیلتمبڑے، اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد، صحافی صدیق کپن… فہرست بہت طویل ہے۔

کس قدرافسوس کی بات ہے کہ کمیونٹی  کے بیچ عداوت کو فروغ دینے اور مذہبی علامتوں کی توہین کرنے جیسی جن  دفعات میں صحافی زبیر کو گرفتار کیا گیا ہے، انہی دفعات میں نوپور شرما، نوین جندل، یتی نرسنہانند وغیرہ کے خلاف مقدمات درج ہیں،لیکن ان میں کوئی گرفتار نہیں ہوا۔ جے این یو میں لوہے کی راڈ لہراتے ہوئے ہنگامہ کرنے والی کومل شرما دو سال بعد بھی لاپتہ ہے۔ ظاہر ہے ان سب پر حکومت کا ہاتھ ہے۔ وہ چھٹی پر گھوم  رہے ہیں۔

اور جانتے ہیں محمد زبیر کو کس بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے؟ انہوں نے چار سال قبل رشی کیش مکھرجی کی 1983 کی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کی ایک تصویر ٹوئٹ کی تھی۔

فلم میں ایک دیسی ہوٹل کے نام کی تختی پر حروف کے پھیر بدل سے ‘ہنی مون ہوٹل’ کو ‘ہنومان ہوٹل’ دکھایا گیا تھا۔ زبیر نے اس ہوٹل کی تصویر کا استعمال کرتے ہوئے اسے ‘سنسکاری ہوٹل’ بتا کر آج کی صورتحال پر طنز کیا تھا۔ فلم میں ہوٹل کا مالک ہیرو اور ہیروئن کو بتاتا ہے کہ ان کے زمانے میں ہنی مون جیسی روایت نہیں تھی اس لیے نام بدل دیا۔

زبیر کے اس پرانے ٹوئٹ پر، ‘ہنومان بھکت’ نامی ایک عقیدت مند – پچھلے ہفتہ عشرہ میں بیدار ہوا اور اس نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے دہلی پولیس سے شکایت کی کہ اس تصویر کے ذریعے ہندوؤں کی توہین کی گئی ہے جس میں ہنی مون ہوٹل کا نام ہنومان ہوٹل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ہمارے پیارے ہنومان جی کو ہنی مون سے جوڑنا ہندوؤں کی توہین ہے کیونکہ وہ (ہنومان جی) برہمچاری تھے۔ پلیز اس شخص (زبیر) کے خلاف کارروائی کریں۔

غور کریں کہ اس شکایت گزارنے پہلے یا بعد میں کوئی ٹوئٹ نہیں کیا اور نہ ہی اس کا کوئی نام اور پتہ واضح ہے، لیکن پولیس نے اس کی ‘شکایت’  کو بنیاد بنا کر ایک معروف صحافی کو گرفتار کرنے کا قدم  ضرور اٹھا لیا۔ یہی نہیں،دیر رات مجسٹریٹ کے گھر جاکر صحافی کی لمبی حراست کی درخواست کی تاکہ وہ اس ٹوئٹ (فلم کے سین) کے پیچھے کی وجوہات جان سکیں۔ بھلا ہو مجسٹریٹ کا کہ انہوں نے صرف رات کی ہی حراست دی۔

جنت میں رشی کیش مکھرجی خیرمنا رہے ہوں گے کہ کم از کم وہ  تودہلی پولیس کی گرفت سے محفوظ  نکل آئے۔

(اوم تھانوی سینئر صحافی ہیں۔)