فکر و نظر

انصاف اور توجہ کے منتظر ہیں کشمیری بچے

رپورٹ میں بتایا گیا ہے زیر حراست نابالغ افراد کی اصل تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے اور جس طرح بچوں کے ساتھ پولیس اور نظم و نسق کے دیگر ادارے پیش آتے ہیں، اس سے ان کی ایک بڑی آبادی شدید نفسیاتی دباؤکا شکار ہو گئی ہے۔

FotoJet (1)

جنگ یا شورش کا خمیازہ سب سے زیادہ خواتین اور بچوں کو ہی اٹھانا پڑتا ہے، ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق پچھلے تین سال کے عرصے میں جموں و کشمیر میں بچوں کے دماغی اور اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔

فورم فار ہیومن رائٹس آن جموں و کشمیر، جس کے سربراہان دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس (ریٹائرڈ) اجیت پرکاش شاہ اور سابق سکریٹری داخلہ گوپال کرشنا پلئے ہیں، نے انکشاف کیا ہے کہ خطے میں نابالغوں کو  بد نام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لےکر ریاست کے باہر دور دراز جیلوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کی معلوما ت کے مطابق کم از کم نو ایسے نابالغوں جن کی عمریں 14سے 17سال کے درمیان ہیں، کوپولیس حراست میں لےکر بری طرح ٹارچر کیا گیا۔

اس فورم کے اراکین جن میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی سابق جج صاحبان کے علاوہ سابق سکریٹری خارجہ نروپما راؤ،ہندوستانی فضائیہ کے سابق نائب سربراہ کپل کاک،  جنرل ایچ ایس پناگ، میجر جنرل اشوک مہتہ، تاریخ دان رام چندر گہا اور کئی دیگر مقتدر افراد شامل ہیں، کشمیر میں نابالغ افراد، خاص طور پر بچوں کی ابتر ہوتی صورت حال پر چیخ پڑے ہیں۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خطے میں بچوں کے لیے قائم کی گئی عدالت، جس کو  جیوئنایل جسٹس بورڈ یعنی جے جے بی کا نام دیا گیا ہے، یا تو معطل ہے یا سیکورٹی اداروں کے سامنے بے بس ہے۔

ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ جب جے جے بی کی ایک ممبر صفیہ رحیم نے ایک زیر حراست بچے کی ضمانت کی عرضی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے پولیس کو نوٹس جاری کردیے تو پولیس نے ایسے کسی بھی بچے کی موجودگی سے انکار کردیا۔ مگر بعد میں خاصے لیت و لعل کے بعد  30دن کے بعد اس کو جے جے بی کے سامنے پیش کیا۔ رہا کرنے کے بجائے ضمانت کی عرضی کے بعد اس پر باضابطہ ایف آئی آر درج کی گئی۔

ان مقتدر افراد کا کہنا ہے کہ خطے میں صرف جیوئنایل جسٹس ایکٹ کی دھجیاں ہی نہیں اڑائی جاتی ہیں، بلکہ پبلک سیفٹی ایکٹ کی دفعات، جس کے مطابق کسی نابالغ کو زیر حراست نہیں رکھا جاسکتا ہے، کو بھی درکنار کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں شوپیان کے 14سالہ آفتاب (نام تبدیل کیا گیا ہے) کا ذکر کیا گیا ہے، جس کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے پہلے پولیس اسٹیشن میں کئی روز رکھا گیا اور پھر سینکڑوں میل دور اتر پردیش کے وارانسی شہر کی جیل میں بھیج دیا گیا۔

ایک دوسرے کیس میں ایک اور نابالغ سلمان کو حراست میں لیا گیا۔ گو کہ عدالت یعنی جے جے بی نے اس کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات صادر کیے، مگر رہا ہوتے ہی اس کو دوبارہ گرفتار کیا گیا۔

مقتدر افراد کے اس فورم کے مطابق انہوں نے پایا کہ کئی کیسوں میں پولیس نے ان نابالغ افراد کی عمریں غلط درج کی تھیں۔ اور ان کی عمریں ثابت کرنے کی ذمہ داری والدین اور ان بچوں پر ڈالی ہوئی تھیں۔

عموماً اگر عدالت تعظم یعنی ہڈیوں کی پیمائش سے عمر کا تعین کرنے کا حکم صادر کرتی ہے، تو اس میں میڈیکل سائنس کی رو سے دو سال کی کمی و بیشی کا مارجن ہوتا ہے۔ دیگر خطوں میں پولیس یا عدالتیں نچلے مارجن کو تسلیم کرتی ہیں۔ مگر کشمیر میں پولیس اس مارجن کے اوپر ی حد کو تسلیم کرکے ان بچوں کو بالغ مان کر ان کی حراست میں توسیع کرتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے زیر حراست نابالغ افراد کی اصل تعداد کا تعین کرنا مشکل ہے اور جس طرح بچوں کے ساتھ پولیس اور نظم و نسق کے دیگر ادارے پیش آتے ہیں، اس سے ان کی ایک بڑی آبادی شدید نفسیاتی دباؤکا شکار ہو گئی ہے۔

دسویں جماعت کے عفان کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اس کو دفعہ 370کو منسوخ کرنے کے خلاف ایک پرامن جلوس میں شرکت کرنے پر حراست میں لیا گیا۔ گو کہ 15دن کے بعد اس کے والدین اس کو رہائی دلانے میں کامیاب تو ہوئے، مگر وہ ایک نفسیاتی مریض بن چکا ہے اور اکثر بدن میں درد کی شکایت کرتا رہتا ہے۔

اسی طرح اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح بس 18ماہ سے بھی کم عمر کے دودھ پیتے بچے بھی پیلٹ گن کے چھروں کا شکار ہوگئے۔ آخر اس عمر کے بچے کیسے جلوس یا کسی پروٹسٹ کا حصہ تھے، جس کی وجہ سے ان کو یہ سبق سکھانا پڑا؟

  فورم کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ کم از کم 11ایسے بچوں کے بارے میں ان کو معلومات ہیں، جو پیلٹ گن کی وجہ سے عمر بھر کے لیے اپاہج ہوگئے ہیں۔ اگر صرف حراست میں لینا یا پیلٹ گن سے نشانہ بنانا کافی نہیں تھا تو نئی صورت حا ل میں اب بچوں کو گاؤں یا کسی لوکلٹی میں تلاشی کی مہم کے دوران آگے رکھ کر آپریشن کیا جاتا ہے، جس سے ان پر جسمانی اور نفسیاتی طور پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 5اگست2019کو دفعہ370کے خاتمہ سے قبل ہی خطے میں بچوں کے سلسلے میں تسلی بخش صورت حال نہیں تھی۔ وانی گام کے سولہ سالہ حازم کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ کھیت میں کام کر رہا تھا کہ عسکریت پسندوں اور نیم فوجی دستوں کے درمیان پاس ہی جھڑپ شروع ہوگئی۔

جب سبھی اپنی جا ن بچانے کے لیےمحفوظ جگہ چلے گئے، تو والدین کو معلوم ہوا کہ حازم ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اگلے روز کھیت میں اس کی لاش ملی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بچوں میں عسکریت جوائن کرنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے اور اس کے بعد ا ن کے لیے زندگی کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ 15سالہ کاشف،جس کو 8اپریل 2021 کو ایک معرکہ میں ہلاک کیا گیا نے 20مارچ 2021کو عسکریت جوائن کی تھی۔

اسی طرح 14سالہ گلزار کو جب ہلاک کیا گیا، وہ بس چار روز قبل اپنا گھر چھوڑ کر مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہو گیا تھا۔ گو کہ حکومتی حلقوں نے ان مقتدر افرد کو بتایا کہ عسکریت کو پاکستان سے شہہ ملتی ہے، مگر ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر اس کے اینکروں کے ذریعے چلائی جارہی شر انگیز مہم سے ان بچوں کے اذہان متاثر ہوتے ہیں اور وہ غصہ اور بے بسی کا شکار ہوکر عسکریت جوائن کرتے ہیں۔

ڈاکٹروں نے رپورٹ کے خالقوں کو بتایا کہ خطے میں 94فیصد افراد ذہنی تناؤ کا شکار ہیں۔کئی اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا حوالہ دےکر بتایا گیا کہ جنوبی کشمیر میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی سے بچوں میں ذہنی تناؤ، غصہ،  چڑچڑاپن، ڈراونے  خواب اور صدمہ کی کیفیت جیسی شکایات عام ہوگئی ہیں۔

اسی طرح انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ہیلتھ اور نیورو سائنسز کے حوالے سے بتایا گیا کہ خطے میں نشیلی ادویات کے استعمال میں 1500گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ کشمیر میں ڈراپ آؤٹ ریٹ 17فیصد تک ریکارڈ کیا گیا ہے اور کئی اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد طالبعلموں سے زیادہ ہے۔

رپورٹ نے آخر میں جے جے بی کو مزید اختیارات دینے اور ہائی کورٹ کے ذریعے وقتاً فوقتاً تفتیشی ٹیموں کو حراستی مراکز میں بھیج کر وہاں بچوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کی سفارش کی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ  2010جب کشمیر میں حالات انتہائی خراب تھے، تو کیلاش ستیارتھی، جن کو بعد میں ملالہ یوسف زئی کے ساتھ حقوق اطفال پرنوبل انعام سے نوازا گیا،کے ایک لیکچر میں، میں نے شرکت کی۔ اس کے اختتام پر جب میں نے ان کی توجہ کشمیر میں بچوں پر ہورہے ظلم کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی، تو وہ کنی کاٹ گئے۔ اور اس کو سیاسی مسئلہ قرار دیکر اپنا دامن چھڑا لیا۔

ان ہی دنوں  اخبارات میں فوٹو چھپے تھے کہ کس طرح  پولیس کے سپاہی  تیسری سے آٹھویں جماعت تک کے بچوں کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر امتحانی مراکز میں  پرچے حل کرانے  کے لیےلارہی تھی۔ ذرائع ابلاغ میں ہائے توبہ مچنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بجائے  ان بچوں کی رہائی کے پولیس نے ان فوٹو گرافروں  کی خوب خبر لی جنہوں نے یہ تصویریں لی تھیں۔

یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ حقوق اطفال کے لیے سرگرم کارکن جہاں پوری دنیا میں بچوں کو حقو  ق دلانے میں سرگرم ہیں،  وہیں کشمیر میں  ان مظالم کی پردہ پوشی میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ایک دہائی قبل ہالینڈ کے ایک نوبل انعام یافتہ عالمگیر نیٹ ورک نے دعویٰ کیا تھا کہ دنیا میں اس وقت جتنے بھی شورش زدہ اور جنگ زدہ علاقے ہیں ان میں کشمیر میں بچوں کے خلاف تشدد عورتوں کی بے حرمتی کے واقعات  کی صورت حال نہایت تشویش خیز ہے۔

ہالینڈ کے ادارے میڈیسن سانس فرنٹیرس (ایم ایس ایف) نے اپنی جائزاتی اور تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیاتھاکہ وادی میں دماغی حالت اور نفسیاتی عارضے جیسے مسائل میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔اور اس کا  شکار خصوصاً بچے ہورہے ہیں۔خیر انصاف او ر توجہ کے منتظر ہیں کشمیر کے بچے اور بچیاں۔ شایدکوئی ان مقتدر افراد کی رپورٹ اور ان کی سفارشات پر کان دھرے۔