خبریں

محمد زبیر کی ضمانت عرضی خارج ، دہلی پولیس نے نئے الزامات جوڑے

آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو پولیس نے پانچ دنوں تک حراست میں لے کر پوچھ گچھ  کرنے کی مدت پوری کرنے کے بعد سنیچر کو دہلی کی ایک عدالت میں پیش کیا اور انہیں عدالتی حراست میں بھیجنے کی گزارش کی۔ پولیس نےکہا کہ آگےبھی  پوچھ گچھ کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

محمد زبیر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

محمد زبیر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نےسنیچر کو آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کی ضمانت عرضی خارج کر دی۔ساتھ ہی، سال 2018 میں ہندو دیوتا کے بارے میں مبینہ طور پر ‘قابل اعتراض ٹوئٹ’ کرنے کے معاملے میں انہیں 14 دنوں کی عدالتی حراست میں بھیج دیا۔

چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ اسنگدھا سروریا نے پولیس کی اس عرضی  کو قبول کر لیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اس معاملے میں آگے کی جانچ جاری ہے۔

پولیس نے زبیر کو پانچ دنوں تک حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی مدت پوری کرنے کے بعد عدالت میں پیش کیا اور اسے عدالتی حراست  میں بھیجنے کی گزارش کی۔ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ زبیر  کو حراست میں لے کر مزیدپوچھ گچھ  کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

پولیس کی عرضی کے بعد زبیر نے عدالت میں ضمانت کی عرضی دی۔

پولیس کی عرضی کے بعد ایڈوکیٹ ورندا گروور نے ملزم کی طرف سے عدالت میں اس بنیاد پر ضمانت عرضی دائر کی کہ ان کے موکل سے اب پوچھ گچھ کی ضرورت نہیں ہے اور کہا کہ ،میں (زبیر) کوئی دہشت گرد نہیں ہوں  کہ انہیں میری موجودگی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

پبلک پراسیکیوٹر اتل سریواستو نے سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ پولیس نے زبیر کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 120 بی (مجرمانہ سازش) اور 201 (ثبوت کوضائع کرنا) اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی دفعہ 35 کے دفعات بھی لگائے گئے  ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملزم نے پاکستان، سیریااور دیگر ممالک سے ‘ریزر پے پیمنٹ گیٹ وے’ کے ذریعےپیسہ لیا، جس میں  مزید پوچھ گچھ کی ضرورت ہے۔

سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا،وہ اسپیشل برانچ کے دفتر میں فون لے کر آئے تھے۔ جب اسے کھنگالا گیا توپتہ چلا کہ اس سے ایک دن پہلے وہ کسی اور سم  کا استعمال کر رہے تھے۔ نوٹس ملتے ہی انہوں نے سم نکال لیا اور نئے فون میں ڈال دیا۔ پلیز  دیکھیے کہ  یہ شخص کتنا چالاک ہے۔

انہوں نے کہا کہ جانچ  ایجنسی کو ملزم کی مزیدحراست کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور وہ عرضی  دائر کر سکتی ہے کیونکہ معاملے میں  جانچ  پوری نہیں ہوئی ہے۔

گروور نے پولیس کی عدالتی حراست کی عرضی  کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ 153اے (دنگا کرنے کے ارادے سے جان بوجھ کر اکسانا) کی کہانی ختم ہوگئی  ہےتو پولیس کچھ ممالک کا نام لے کر میڈیا کو یہ بتا رہی ہے کہ زبیر پیسے لے رہا تھا۔

وکیل نے کہا،  میں (زبیر) یہ بیان دے رہا ہوں کہ میں پیسے نہیں لے رہا تھا۔ یہ کمپنی تھی۔ آلٹ نیوز دفعہ 8 کے تحت ایک کمپنی کے تحت چلتا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں صحافی ہوں، ایف سی آر اے نہیں لے سکتا۔ یہ کمپنی کے لیے ہے نہ کہ میرے لیے۔ یہ میرے اکاؤنٹ میں نہیں گیا۔

زبیر کی وکیل ورندا گروور نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے جو فون ضبط کیا ہے وہ اس وقت کا نہیں ہے جب انہوں نے ٹوئٹ کیا تھا۔ انہوں نے کہا، ٹوئٹ 2018 کا ہے اور یہ فون میں (زبیر) اس وقت استعمال کر رہا ہوں۔ میں نے ٹوئٹ کرنے سے انکار بھی نہیں کیا ہے۔

انہوں نے عدالت سے کہا، اپنا موبائل فون یا سم کارڈ تبدیل کرنا جرم ہے؟ کیا اپنے فون کو فارمیٹ کرنا جرم ہے؟ یا چالاک ہونا کوئی  جرم ہے؟ تعزیرات کے تحت ان میں سے کوئی بھی جرم نہیں ہے۔ اگر آپ کسی کو پسند نہیں کرتے ہیں تو یہ ٹھیک ہے، لیکن آپ کسی شخص کے چالاک ہونے پر تہمت  نہیں لگا سکتے۔

گروور نے اپنے مؤکل کے حوالے سے کہا، کسی نے بائیک پر میرا فون چھین لیا تھا۔ میں نے 2021 میں شکایت درج کروائی تھی۔ یہ وہی فون تھا جو میں 2018 میں استعمال کر رہا تھا۔ اس سے الگ ایک معاملے میں خاص معاملے کی جانکاری کے تحت یہ دستاویزریکارڈ پر ہے جس میں دہلی ہائی کورٹ نے مجھے تحفظ دیا ہوا  ہے۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ زبیر نے اپنے ٹوئٹ میں جو تصویر استعمال کی ہے وہ رشی کیش مکھرجی کی 1983 کی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کا ایک سین ہے۔ انہوں نے کہا، یہ ایک کامیڈی فلم ہے۔ایک  نامور ہدایت کار کے ذریعے ترتیب دیاہوا پوری طرح سے مزاحیہ سین۔ اسے یہ کہہ کر ہٹا یاگیا کہ اس سے عوامی امن وامان  میں خلل پڑے گا لیکن یہ ٹوئٹ اب بھی ٹوئٹر پر موجود ہیں۔ ٹوئٹر کو اسے ہٹانے کی ہدایت نہیں دی گئی۔ اس فلم نے 40 سال تک امن وامان  کو متاثر نہیں کیا۔

اس دوران یہ فیصلہ سنیچر کی دوپہر تقریباً ڈھائی بجے میڈیا میں شائع ہونے لگا تھا، جس کے بعد زبیر کے وکیل سوتک بنرجی نے اس کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس وقت تک جج نے یہ حکم نہیں دیا تھا۔

انہوں نے تقریباً 3.45 بجے میڈیا کو بتایا کہ جج دوپہر کے کھانے کے وقفے کے بعد واپس نہیں بیٹھے ہیں اور فیصلہ نہیں سنایا گیا ہے۔ انہوں نے اسے انتہائی قابل مذمت قرار دیا کہ کس طرح جج کے فیصلہ سنانے سے پہلے دہلی پولیس نے اسے میڈیا میں لیک کر دیا۔

مختلف خبر رساں ایجنسیوں نے بھی بعد میں وضاحت کی کہ انہیں یہ اطلاع پولیس کے ذریعے ملی تھی۔

دریں اثنا، دی وائر کی ایک تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس ٹوئٹر اکاؤنٹ نے زبیر کے خلاف شکایت درج کروائی ہے وہ ٹیک فاگ ایپ اور گجرات کے بی جے وائی ایم لیڈر سے منسلک ہے۔

غورطلب ہے کہ ایف آئی آر کے مطابق، ایک گمنام ٹوئٹر صارف نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ،ہمارے بھگوان ہنومان جی کو ہنی مون سے جوڑا جا رہا ہے جو کہ ہندوؤں کی براہ راست توہین ہے کیونکہ وہ (بھگوان ہنومان) برہمچاری ہیں۔ پلیز اس شخص کے خلاف کارروائی کریں۔

بعد میں اس ٹوئٹر ہینڈل کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔

معلوم ہو کہ جون کے مہینے میں ہی محمد زبیر کے خلاف اتر پردیش کے سیتا پور ضلع کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں بھی ایک ایف آئی آر بھی درج کی گئی تھی۔ ایف آئی آر ان کے اس ٹوئٹ کے بعد درج کی گئی تھی جس میں انہوں نے یتی نرسنہانند، مہنت بجرنگ منی اور آنند سوروپ کو ‘نفرت پھیلانے والا’ کہا تھا۔

رپورٹ کے مطابق،  خود کو راشٹریہ ہندو شیر سینا کا ضلعی سربراہ بتانے والے بھگوان شرن کی طرف سے سیتا پور کے خیرآباد پولیس اسٹیشن میں دی گئی شکایت کی بنیاد پر پولیس نے زبیر پر تعزیرات ہند کی دفعہ 295 اے (کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقیدے کی توہین کرنے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کیا گیا کام)اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67 (الکٹرانک شکل میں فحش مواد کی اشاعت یا ترسیل) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

گزشتہ 27 مئی کو ٹوئٹ کی ایک سیریز میں زبیر نے ہندوستانی نیوز ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے والے پرائم ٹائم مباحثے کو نشانہ بنایا تھا، جس میں انہوں نے گیان واپی مسجد پر جاری تنازعہ کے حوالے سے کہا تھا، یہ (ٹی وی نیوز چینل) نفرت پھیلانے والوں کے لیےدوسرے مذاہب کے بارے میں غیرمہذب  زبان بولنے کا ایک پلیٹ فارم بن گیا ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)