خبریں

جموں و کشمیر: گرفتار لشکر کمانڈر کو بی جے پی نے حال ہی میں بنایا تھا سوشل میڈیا انچارج

تین جولائی کو جموں و کشمیر پولیس نے ‘وانٹیڈدہشت گرد’ اور ‘لشکر طیبہ کا کمانڈر’ بتاتے ہوئے طالب حسین شاہ کو گرفتار کیا ہے، جنہیں گزشتہ مئی میں بی جے پی کے اقلیتی سوشل میڈیا ونگ کا انچارج بنایا گیا تھا۔ اب طالب کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ وہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔

بی جے پی کے اعلیٰ رہنماؤں کے ساتھ مبینہ طورپر طالب کی یہ تصویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ دی وائر کی طرف سے آزادانہ طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ (بہ شکریہ: ٹوئٹر)

بی جے پی کے اعلیٰ رہنماؤں کے ساتھ مبینہ طورپر طالب کی یہ تصویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ دی وائر کی طرف سے آزادانہ طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ (بہ شکریہ: ٹوئٹر)

تین  جولائی، اتوارکوجموں و کشمیر پولیس نے جس ‘وانٹیڈ دہشت گرد’ اور لشکر طیبہ کے کمانڈر طالب حسین شاہ کو گرفتار کیا ہے، اس کو اسی سال مئی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے اقلیتی سوشل میڈیا ونگ کا انچارج بنایا گیا تھا۔

طالب کی اس عہدے پر تقرری کا حکم 9 مئی کو بی جے پی کے اقلیتی مورچہ کے جموں و کشمیر صدر شیخ بشیر نے جاری کیا تھا۔

اس آرڈر، جس کی کاپیاں بی جے پی کے سینئر لیڈر اور اقلیتی مورچہ کے قومی صدر اشوک کول کو بھیجی گئی تھی، اس میں کہا گیا تھاکہ، طالب حسین شاہ، دراگ، کوٹرنکا، بودھن، ضلع راجوری، فوری اثر سے بی جے پی اقلیتی موچہ جموں صوبے کے نئے آئی ٹی اور سوشل میڈیا انچارج ہوں گے۔

اتوار کو گرفتاری کے بعد طالب کی فیس بک پروفائل کو ہٹا دیا گیا کیونکہ بی جے پی کے جموں و کشمیر کے صدر رویندر رینا، جموں لوک سبھاایم پی جگل کشور اور جموں و کشمیر کے دیگرسینئر لیڈروں اور بی جے پی عہدیداروں  کے ساتھ ان کی درجنوں تصویریں  سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھیں۔

دی وائر نے کول اور رینا سے اس معاملے پر ان کا جواب جاننے کے لیے کئی بار کال کیا اور پیغامات بھیجے، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ ان کا جواب موصول ہونے پراس خبر کو اپ ڈیٹ  کیا جائے گا۔

طالب کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بی جے پی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا تھا،اس کے ساتھ ہی پارٹی نے ان کی آن لائن رکنیت کے نظام کو مورد الزام ٹھہرایا، جو کسی بھی پس منظر کے لوگوں کو پارٹی میں شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔

این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے پارٹی کے ترجمان آر ایس پٹھانیا نے کہا، اس گرفتاری سے ایک نیا مسئلہ سامنے آیا ہے۔ میں کہوں گا کہ یہ ایک نیا ماڈل ہے –  بی جے پی میں شامل ہونا، پہنچ بنانا، ریکی کرنا… یہاں تک کہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو جان سےمارنے کا منصوبہ بنانا بھی، جسے پولیس نے ناکام کر دیا۔

راجوری کے بی جے پی کے ضلعی سربراہ راجندر گپتا نے دی ٹریبیون کو بتایا کہ کسی بھی پس منظر سے آنے والے کے لیے بی جے پی میں شامل ہونا ممکن ہے۔ انہوں نے کہا، پارٹی بڑی ہو رہی ہے اور بہت سے لوگ شامل ہو رہے ہیں۔ ہم ہر شامل ہونے والے کی ذمہ داری نہیں لے سکتے ہیں۔ حالانکہ میں اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ شاید اس نے پارٹی کے سینئر لیڈروں کے ساتھ تصویریں کھنچوائی ہوں۔

جہاں  بی جے پی نے دعویٰ کیا ہے کہ طالب نے مبینہ طور پر اپنے عہدےاستعفیٰ دے دیا ہے، وہیں  یہ معاملہ ایک  سیاسی تنازعہ میں تبدیل ہو رہا ہے، جہان اپوزیشن کانگریس نے بی جے پی پر جموں و کشمیر میں ‘دہشت گردی کی سرپرستی’  کا الزام لگایا ہے۔

کانگریس کی طرف سے جاری  ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ، بی جے پی کو ملک کو بتانا چاہیے کہ پارٹی میں اہم ذمہ داری لے کرخونخوار دہشت گرد کس طرح  اس کی سرپرستی کا  لطف اٹھا رہے ہیں۔ سنسنی خیز ادے پور قتل معاملے کے کلیدی مجرم حکمراں بی جے پی کا سرگرم رکن ہے اور اب لشکر طیبہ کی  پیر پنجال رینج کےکمانڈر طالب حسین کی گرفتاری اور بی جے پی کے ایک سینئر کارکن کے طور پر اس کی شناخت انتہائی تشویشناک ہے۔

جموں و کشمیر پولیس نےراجوری میں ہوئےدھماکوں کے  جس معاملے سےطالب کو جوڑا ہے، اس میں چار افراد زخمی ہوئے تھے۔ ذرائع کے مطابق، اس پر ایک شہری کے قتل کا بھی الزام  لگایا گیاہے، جبکہ راجوری اور آس پاس کےاضلاع میں دہشت گردی کے دیگر واقعات میں اس کے رول  کی جانچ کی جا رہی ہے۔

ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ طالب 26 مارچ اور 19 اپریل کو راجوری کے کوٹرنکا علاقے میں  ہوئے دو بم دھماکوں میں مبینہ طور پر شامل تھا، جس میں دو افراد زخمی ہوگئے تھے۔ پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 24 اپریل کو راجوری میں بڈھل کے شاہ پور علاقے میں ہوئے دھماکے کے پیچھے طالب کا ہاتھ تھا، جس میں دو اور لوگ زخمی ہوئے تھے۔

پولیس افسر کے مطابق، طالب، جسے حال ہی میں جموں و کشمیر پولیس نے ‘مطلوبہ دہشت گرد’ قرار دیا تھا، نے اس سال جنوری، مارچ اور اپریل میں راجوری میں مبینہ طور پرلائن آف کنٹرول کے ساتھ لگے نوشیرہ سیکٹرکےلمبیری کالاکوٹ میں اسلحہ سمگلروں سے ہتھیار،گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد کی تین کھیپ  اکٹھا کی تھی۔

پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ طالب، جس پر ‘وادی پیر پنجال میں عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے واقعات’ کا الزام ہے، ‘پاکستان میں مقیم لشکر طیبہ کے ایک دہشت گرد قاسم کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا۔’ حکام نے بتایا کہ اتوار کو طالب کے ساتھ گرفتار کیا گیا دوسرا مشتبہ دہشت گرد فیصل احمد ڈار’لشکر طیبہ کے ایک پاکستانی ہینڈلر سلمان کے ساتھ رابطے’ میں تھا۔

بتایا گیا ہے کہ اتوار کو ریاسی ضلع کے بالائی علاقوں میں واقع ایک گاؤں میں مقامی لوگوں کے ایک گروپ نے راجوری ضلع کے طالب اور جنوبی کشمیر کے پلوامہ کے اس کے معان  ڈار کو ان کی مشتبہ سرگرمیوں کی وجہ سے گھیر لیا۔

حکام نے بتایا کہ اس سال کی شروعات میں راجوری ضلع میں سلسلہ وار دھماکوں کی تحقیقات میں مبینہ طور پر نام آنے کے بعد طالب نےچرواہے کے طور پر اس علاقے میں پناہ لی تھی۔ پولیس نے بتایا کہ ، ان کے پاس سے دو اے کے رائفل، سات گرینیڈ، ایک پستول اور گولہ بارود کا ایک بڑا ذخیرہ برآمد کیا گیا ہے۔

جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ریاسی کے ٹکسن ڈھوک کے لوگوں کو’دو انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو پکڑنے میں ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کرنے’ کے لیے 5 لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے۔

راج بھون کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گاؤں والوں نے غیرمعمولی  ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو مطلوبہ دہشت گردوں کو گرفتار کرایا ہے، جس کے لیے ریاست کی انتظامیہ انہیں پانچ لاکھ روپے کا نقد انعام دیتی ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر ان لوگوں  کی بہادری کو سلام پیش کرتے ہیں۔ عام لوگوں کا یہ حوصلہ  بتاتا ہے کہ اب دہشت گردی کا جلد خاتمہ ہو گا۔

(اس رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)