خبریں

بہار: مذہبی شدت پسندی کے اس دور میں نالندہ کی مسجد کو آباد رکھنے والے ہندو انسانیت کا سبق پڑھا رہے ہیں

بہار کے نالندہ  ضلع کے  ماڑی گاؤں میں تقریباً 200 سال پرانی مسجد کی دیکھ بھال پچھلے کئی سالوں سے ہندو آبادی کر رہی ہے۔ملک کے موجودہ سیاسی ماحول  اور مذہبی شدت پسندی کے اس دور میں ایک دوسرے کے عقیدے کوقائم رکھنے والے ان ہندوؤں میں صوفی اور بھکتی روایات کاعکس نظر آتا ہے۔

ماڑی گاؤں میں واقع مسجد: فوٹو: دی وائر

ماڑی گاؤں میں واقع مسجد: فوٹو: دی وائر

نالندہ/ماڑی:  ‘اللہ اکبر، اللہ اکبر…’

 لاؤڈ اسپیکرسے بڑی دلنشیں آواز میں ظہر کی اذان ہو رہی ہے۔ حالاں کہ، مسجد میں کوئی امام ہے نہ  مؤذن ، اور نمازیوں  کے  آنے کی امید بھی  نہیں ہے کہ گاؤں میں دور دور  تک کوئی مسلم آبادی نہیں بچی  ہے۔

البتہ، کسی وقت یہاں باقاعدگی سے نماز پڑھنے والوں کی یادیں کچھ مقامی ہندوؤں کے حافظےمیں رہ گئی ہیں۔

یوں نمازیوں کے وجود سے محروم اور کئی معنوں میں ‘ویران’ پڑی اس مسجد میں اس کے باوجود بڑی رونق  ہے۔ دراصل ہندو عورتیں، بچے، بزرگ  اور کئی نوجوان  اس وقت شدت کی گرمی میں  بھی مسجد کے اندر کسی مذہبی مقام پر آنے والے زائرین جیسی عقیدت لیے موجود  ہیں۔

ایسے میں پین ڈرائیو کے ذریعے گاؤں میں اذان کی پھیلتی  ہوئی آواز کوسنتے ہوئے ذوق کا مشہور زمانہ شعر یاد آجانا لازمی ہے کہ ؛

مؤذن مرحبا بروقت بولا

تری آواز مکے اور مدینے

ذوق نے مؤذن کی بروقت پکار پر مرحبا کہتے ہوئے دور دور تک اس آواز کی شہرت کی تمنا کی تھی۔

ٹھیک اسی طرح بہار کے نالندہ ضلع کے بین بلاک کے تحت کانٹ پنچایت میں آنے والے  ماڑی گاؤں میں تقریباً 200 سال سے قائم اس  مسجد اور اس کے احاطے میں واقع مزار کے لیے مقامی ہندوؤں کی تعظیم و تکریم اور بے پناہ عقیدت کو دیکھ کر شاید ہی کوئی خود کو ایسی تمنا  کرنے سے روک پائے۔

مذہبی جنون، نفرت  کی سیاست اور تفرقہ انگیزی کے اس دور میں  جہاں مزاروں کے انہدام ، اس کی بے حرمتی،  مذہبی مقامات پر بھگوا جھنڈا لہرانے اور آئے دن ملک بھر کی مسجدوں کو لے کر سامنے آنے والے تنازعات کی خبروں کےبیچ کسی مسجد کے لیے ہندوؤں کےاس بے مثال جذبے اور عقیدت کو  امن و ہم آہنگی کی مثال کے  طور پر ہی  دیکھا جانا چاہیے۔

حالاں کہ ، بعض  لوگ اس کو ان کی  ناخواندگی اور پسماندگی کا نام بھی دے سکتے ہیں، جبکہ کچھ اس میں صوفی اور بھکتی روایات کی تصویریں بھی تلاش کر سکتے ہیں۔

‘مسجد سے ہندوؤں  کی  عقیدت پرانی ہے’

باہری دیواروں پر پرانےوقتوں کا ستم زدہ  چہرےلیے یہ مسجد اندر سے بھی ہندوؤں کی تعظیم  و تکریم اورتازہ رنگ و روغن کے باوجود کہیں کہیں سے اپنے اکھڑے ہوئے درودیوار کے ساتھ ماضی کی کہانیاں سنا رہی ہے۔

منبر کے ٹھیک اوپر کلام پاک کی کچھ آیتیں دیوار گھڑی کے ٹھیک بغل میں ایک فریم کے ساتھ آویزاں ہیں۔ جہاں وہ آیت بھی درج ہے جس میں کہا گیا ہے کہ، ‘تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔’

لیکن،یہاں دین دھرم کئی معنوں میں بھکتی  اور روحانیت کی فضامیں ایک ایسی عقیدت کاچہرہ لیے نظر آتے ہیں جو کسی بھی مذہب کی حدوں سے کہیں زیادہ اعلیٰ وارفع اورشایدافضل بھی ہیں۔

اس فریم سے ذرا اوپر  کی طرف ایک بڑی سی خالی جگہ کےنقش،  گویاکسی گمشدہ عقیدے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ خالی جگہ پر پل بھر کو جمی  ہماری نظریں ابھی کچھ پوچھنا  ہی چاہتی ہیں کہ ایک سن رسیدہ شخص کی آواز آتی ہے ، ‘یہاں بھی ایسی ہی آیت تھی…’

کسی زمانے میں امام کے خطبے کے لیےمنبر کے طور پر استعمال کیے جانے والے لکڑی کے سیڑھی نما میز پر ہندی میں قرآن کا قدرے نیا نسخہ اور کچھ دوسری کتابوں کے ساتھ ‘سچی نماز’  کی ایک کاپی بھی نظر آ رہی ہے۔

ماڑی کے ہندوؤں نے مسجد کی دیکھ بھال اور صاف صفائی کے ساتھ ساتھ ان مقدس کتابوں کو بھی سنبھال رکھا ہے۔ حالاں کہ تازہ رنگ وروغن  کی وجہ سے یہ چیزیں فی الحال اپنی جگہ  پر بے ترتیبی سےرکھی  ہوئی ہیں۔

فوٹو: دی وائر

فوٹو: دی وائر

بہار کے نالندہ شہر سے  13-14 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس مسجد تک پیمار ندی کے باندھ پر بنی تنگ، خستہ حال اور کئی جگہوں پرکچی مٹی والی پیچ دار سڑکوں سے اپنی سواری سےجیسے تیسے پہنچا جا سکتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی تھکن اوڑھ کر  گاؤں میں اترتے ہی یہاں کی پسماندگی اور ناخواندگی کے بیچ رہنے والی ہندو آبادی نظروں میں سمانے لگتی ہے۔

زیادہ تر پختہ مکانات والے اس گاؤں میں کچھ لوگ سڑک سے مسجد تک ساتھ چلتے ہوئے یہاں کی  پسماندگی  اور اپنی ناخواندگی کی بات کر رہے ہیں، اور  بتاتے جا رہے ہیں  کہ یہاں کھیتی کے علاوہ زیادہ کچھ نہیں ہے۔

وہیں  پنچایت کے مکھیا کارو تانتی جو اصل میں  ہماری رہنمائی کر رہے ہیں،وہ بتاتے  ہیں کہ اس گاؤں میں اور ان کی پنچایت میں بھی کوئی مسلم آبادی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں،’زمینداری کے خاتمے کے بعد ہی مسلمانوں کی نقل مکانی  شروع ہو گئی تھی۔’

انہوں نے بتایا،’اب سالوں سے ہندو ہی اس مسجد کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور پورے دن میں پانچ بار پین ڈرائیو سے اذان  ‘بجاتے ‘  ہیں۔ ان کے مطابق، اس مسجد سے ہندوؤں کی عقیدت پرانی ہے اور اب یہ ان کے لیے ایک ورثہ بھی ہے۔

رام نریش اس مسجد اور مزار سے ہندوؤں کی عقیدت کواس گاؤں کی روایت کے طور پرپیش کرتے ہوئے کہتے ہیں،’جب بھی یہاں سے ہندوؤں کی بارات نکلتی ہے تو  لڑکا (دولہا) سب سے پہلے یہیں آکر ‘گور’ لگتا ہے۔’ ان کا ماننا ہے کہ اگر اس کی خلاف ورزی ہوگی تو کچھ برا ہوجائے  گا۔

وہ کہتے ہیں، ‘مسلمانوں کے جانے کے بعد جب مسجد ویران ہو گئی تو ہم نے ہی یہاں چراغ بتی  کی  اور اس کی دیکھ بھال شروع کی۔

مسجد کو اس گاؤں کی روح بتاتے ہوئے رام نریش کہتے ہیں، ‘ہم اپنے آباؤ اجداد کی طرح  یہاں خدمت کر رہے ہیں۔ مسجد کا کوئی نام تو نہیں ہے، لیکن ہم اس کو ‘درگاہ’  بلاتے  ہیں۔ مسجد کے احاطہ میں آپ جو ‘بابا حضرت’ کا مزار دیکھ رہے ہیں ، ان کی وجہ سے ہم اس کو درگاہ کہتے ہیں۔

اپنی بات چیت کے دوران رام نریش مسجد کے مین گیٹ کے قریب دیوار سے متصل طاق میں رکھے  ہوئےایک خاص  طرح کے مربع نما اور ‘پراسرار’ پتھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ‘ہم اسے ‘زر مہر’ کے نام سے جانتے  ہیں اور جب بھی  گاؤں میں کسی کا گال پھول جاتا ہے تو اس میں سٹانے سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔’

رام نریش کی کئی  باتوں سے ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی لوک ادب کا کوئی مذہبی قصہ سن رہے ہوں۔ اس دوران وہ کہتے ہیں، ‘بس ہماری آستھا ہے  اور ہم کو  یہ سب کرنے سے سکون ملتا ہے۔’

ان کی باتوں کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک بزرگ خاتون راجمنتی دیوی بھی مسجد اور درگاہ سے گاؤں میں برکت،منت مرادوں کے پورے ہونے اور اس پتھر سے صحتیابی کی بات کو دہراتی ہیں اور کہتی ہیں’یہ مسجد ہمارے لیے دیوتا کی طرح ہے۔’

حالاں کہ یہ پتھر جسے بعض لوگ  ‘کالا پتھر’ بھی کہتے ہیں، کہاں سے آیا اور یہاں کب سے  موجود ہے، اس طرح کے کئی سوالوں کا جواب یہاں نہیں ملتا۔

راجمنتی بڑے پر اسرار انداز میں یہاں کسی  بزرگ اور صوفی کےہونے کی بات بھی کرتی ہیں۔ ان کی باتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ ان بزرگ کی وجہ سے  ہی اس گاؤں میں خیروبرکت ہے اور وہ ہر طرح  کے قدرتی آفات سے محفوظ ہیں۔

راجمنتی کی کی طرح گیتو دیوی بھی اپنی آستھاکی بات کرتی ہیں اور کہتی ہیں، ‘ابھی کچھ لوگ ذمہ داری کے ساتھ یہاں خدمت کر رہے ہیں، ان سے پہلے مفت لال جی سیواکرتے تھے۔’

راجمنتی اور گیتو دیوی

راجمنتی اور گیتو دیوی

وہ مزید کہتی ہیں، ‘ہم کسی بھی موقع پرسب سے  پہلےیہیں آتے ہیں، اس کے بعد ہی ماتا رانی کے مندر اور دیگر مقامات پر جاتے ہیں۔’

ان کی مانیں تویہاں ہندو اپنے دھرم کی پیروی کر رہے ہیں اور یہاں سے ان کی مرادیں پوری ہو رہی ہیں۔ رام نریش کی طرح  ہی گیتو دیوی کہتی ہیں، ‘اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمارے ساتھ کچھ برا ضرور ہوگا۔’

ایک سوال کے جواب میں گیتو کہتی ہیں، ‘دیکھیے کوئی  ذات برادری نہیں ہوتا، سب  کو ساتھ  مل کررہنا ضروری ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ مسجد ہےیا مندر۔

وہ پوری عقیدت کے ساتھ کہتی ہیں، ‘ہمارے لیے تو یہ بھگوان کا ہی  روپ ہے، اس لیے جیسےہم ماتا رانی کی سیوا کرتے ہیں ویسے ہی ان کی سیوا کرتے ہیں۔’

گیتو یہ جانکاری بھی دیتی ہیں کہ ایسے تو ہندو ہی اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں، مگر ‘بھٹو میاں’ بھی کبھی کبھی اپنے خاندان کے ساتھ یہاں آتے ہیں، پچھلی  بار  لاک ڈاؤن میں آئے تھے۔

گاؤں میں بھٹو میاں کے نام سے مشہور اور اس وقت بہار شریف کے کاغذی محلہ میں مقیم خالد عالم کی جڑیں اسی گاؤں میں ہیں، مسجد کے ٹھیک بغل میں آج بھی ان کی جائیدادموجود ہے۔ اپنے آباؤ اجداد کے بعد وہ مسلمانوں کی اس آخری نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نےیہاں سے نقل مکانی کی تھی۔

خالد عالم عرف بھٹو میاں اور ان کے اہل خانہ، فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ

خالد عالم عرف بھٹو میاں اور ان کے اہل خانہ، فوٹو: اسپیشل ارینجمنٹ

بہار شریف میں دی  وائر کے ساتھ بات چیت میں خالد بتاتے ہیں کہ ‘ماڑی سے ہمارا بہت گہرا رشتہ ہے، جب بھی موقع ہوتا ہے ہم وہاں جاتے ہیں۔’

اس دوران وہ  کچھ تصویریں بھی شیئر کرتے ہیں۔ ان تصویروں  اور ماڑی کے ہندوؤں کی بات چیت سے اندازہ  ہوتا ہے کہ آج بھی ان کے درمیان بھائی چارے کا گہرا رشتہ ہے اور وہ اسے کئی طریقوں سے نباہ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ گاؤں میں مسلمانوں کی پراپرٹی کی دیکھ بھال بھی ہندو آبادی کر رہی ہے۔

پنچایت کے مکھیا کارو تانتی بھی لوگوں کے یہاں آنے،  گور لگنے، منت مرادیں  مانگنےکے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک طرح سے خالد عالم کی باتوں کی تصدیق ان لفظوں  میں کرتے ہیں، ‘یہاں مسلمان نہیں ہیں، لیکن ان سےہمارے تعلقات خوشگوار  ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے تہواروں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔

‘ہندو مسلمان سب کا خون ایک ہے’

ماڑی کی اس مسجد اور مزار کے لیے ہندوؤں کے پاس ان کی آستھا اورعقیدت کی اتنی باتیں  ہیں اور ہندو مسلم بھائی چارے کی کچھ ایسی کہانیاں ہیں جن کو نفرت اور خوف کے اس سیاسی ماحول میں کسی ناقابل یقین  قصے کی طرح  سننا محبت اور اپسی بھائی چارے کو بھی محسوس کرنا ہے۔

حالاں کہ، مسجد میں موجود  ادھیڑ عمر کی کچھ عورتیں آپس میں باتیں کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنے گاؤں سےتعلق رکھنے والے مسلمانوں سے ان کے اچھے تعلقات کی یاد دلا رہی ہیں اور یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ ‘ہندو تو آج بھی اچھے ہیں، مگر مسلمان  ملک میں کیا کر رہا ہے؟ ‘

شاید وہ ملک کے ان نادیدہ مسلمانوں کی بات کر رہی ہیں، جنہیں آج کی سیاست اور میڈیا کے ایک حصے نے ولن بنا دیا ہے۔

اس دوران گاؤں کے ایک بزرگ انل پاسوان اپناقصہ سناتے ہوئے اس مسجد میں چار پانچ ماہ تک سونے کی بات کرتے ہیں۔

ان کے مطابق، پراسرار طور پر انہیں یہاں کسی ‘شکتی’  کا احساس ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ‘ان کا حکم ہوا کہ  مسجد کا دروازہ چھوڑ کر سوؤ۔ انہوں نے کہا تم لوگ نیک اعمال کرتے رہو، ہم تمہارے ساتھ نیکی کرتے رہیں گے۔

ان کی باتیں عقل اور منطق کے خلاف لگتی ہیں، لیکن ان کی بے پناہ عقیدت کو دیکھ کر ایک بار اس پریقین کرنے کو جی  چاہتا ہے۔

اس گاؤں کے ایک نوجوان اونیش کمار کے مطابق، سو دو سو سال سےاس  مسجد میں ہندوؤں کی عقیدت ہے۔ اس دوران تقریباً  85 سالہ بزرگ جدو پاسوان ان کی  باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں، ‘ہاں، ہاں، یہ مسجد برٹش  راج سے ہی ہے۔’

فوٹو: دی وائر

فوٹو: دی وائر

پھر اونیش اپنی بات  کوجاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں،’اس وقت اجے پاسوان، گوتم مہتو اور بکھوری جمعدار جی  یہاں سیوا ستکار  کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔’

اونیش اس کی دیکھ بھال کے اخراجات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ سب کچھ اپنے گھر سے ہی کیا جاتا ہے۔ کئی  لوگوں کی طرح وہ بھی کہتے ہیں،’اب یہ ہماری روایت کا حصہ ہے، اس لیے ہم سب سے پہلے یہیں ‘گور’ لگتے ہیں، اس کے  بعد ماتا رانی کے مندر اور شیواستھان جاتے ہیں۔’

مزید کہتے ہیں ‘ہمارے دل میں کبھی نہیں آیا کہ یہ مسلمانوں کی مسجد ہے، اور ہم یہاں نہیں آسکتے’۔

وہ اس جگہ کے ساتھ اپنے اٹوٹ بھروسے کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ بھی بتاتے ہیں،’جس پتھر سے صحتیابی  کی بات کہی گئی ،اس کو ایک بار کسی نے چوری کر لیا تھا، لیکن چوری کر نے والے کے ساتھ  کچھ تو برا ہوا، اس لیے وہ اسے یہاں  واپس یہاں رکھ گیا۔

اس بیچ مسجد کی خدمت کے لیے پوری طرح سے وقف لوگوں میں سے ایک اجے پاسوان،  جو پیشے سے راج  مستری ہیں، اپنے دو بچوں کے ساتھ یہاں آتے ہیں۔ ان کے  قدم رکھتے ہی کئی لوگ  کہتے ہیں، ‘یہی ہیں، یہی  دیکھتے ہیں یہاں کا سب کچھ۔’

اس کے بعد اجے خاص طرح سے مسلمانوں کے انداز میں سلام کرتے ہیں اور کئی بار چائے –پانی کے لیے اصرار کرتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں، ‘پہلےسے لوگ سیوا سنسکار کر رہے ہیں، ہم بھی وہی کر رہے ہیں۔ جب تک بدن میں جان ہے ہم خدمت کرتے رہیں گے۔

اجے بھی کئی  لوگوں کی طرح پین ڈرائیو سے اذان دینے کی بات کرتےہوئے کہتے ہیں، ‘ہم یہاں لوبان جلاتے ہیں، اگربتیاں جلاتے ہیں، صاف صفائی کرتے ہیں، درگاہ کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ‘چادرپوشی’ کرتے ہیں۔ سب ان کا کرم ہے اور کیا کہیں۔

اس دوران ایک سوال کے جواب میں اجے کہتے ہیں،’یہاں اذان سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، کوئی منع بھی نہیں کرتا۔ یہ جہاں  ہوتا ہے وہاں  ہوتا ہے۔ یہ سب نیتا گیری ہے، سیاست ہے، اپنی اپنی کرسی  کے لیے لوگ یہ کرتے ہیں۔ ذات تو دو ہی ہے مرد اور عورت، ہندو مسلمان سب کا خون ایک ہے۔

ملک میں پیغمبر  پر تبصرہ  اور اس پر حالیہ تنازعہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ‘سب سیاست ہے، سب کا یکساں احترام  ہونا چاہیے، اور دیکھیے، ہم تین لوگ جو اس مسجد کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں، نیتا فیتا سے مطلب نہیں رکھتے ۔ حکومت  ہی یہ سب کرواتی ہے۔ جھارکھنڈ میں دیکھیے کیا ہوا مسلمان بھائی  مارے گئے۔ نیتا لوگوں  کی ایسی  سیاست سے ہندو مسلم بھائی چارے پر بہت اثر پڑتا ہے۔

مزید کہتے ہیں، ‘ہمارا کہنا ہے کہ ہندو ہو یا مسلمان، دونوں ایک ہی ہے۔ لوگ کیوں پڑتے ہیں نیتا کے چکر میں!’

اپنے گاؤں کی مثال دیتے ہوئے اجے کہتے ہیں، ‘میرے گاؤں میں دیکھ لیجیے، سب ایک مزاج کے ہیں، مسجد کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔ اذان کا ایک نظام ہے اور اس میں ہماری آستھا ہے۔

فوٹو: دی وائر

فوٹو: دی وائر

‘نقل مکانی کی وجہ  فرقہ واریت نہیں ‘

قابل ذکر ہے کہ کچھ مقامی خبروں میں مسلمانوں کی نقل مکانی کے حوالے سے 1942، 1946 اور 1981 کے فرقہ وارانہ فسادات کی بات کہی گئی  ہے۔ اس بارے میں پوچھے جانے پر تانتی نے بتایا، ‘نہیں، وہ  فسادات کی وجہ سے نہیں گئے، وہ  اچھی زندگی اور بہتر روزگار کے لیےآہستہ آہستہ چلے گئے۔’

غورطلب  ہے کہ کسی زمانے میں یہاں مسلمانوں کی اچھی آبادی تھی، لیکن اب صرف ہندو رہ گئے ہیں جن میں کرمی، پاسوان اور دیگر ہندو برادریاں  ہیں۔

اس بیچ  1960کے آس پاس پیدا ہوئے رام نریش پرساد  اپنے بچپن  کویاد کرتے ہوئے بتانے لگتے ہیں کہ ہمارے لڑکپن میں یہاں نماز ہوتی تھی۔

مسلمانوں کی ہجرت اور فسادات کی بات پر اجے کہتے ہیں،’یہ دیہی علاقہ ہے، یہاں کوئی کاروبار نہیں ہے۔ اس لیے مسلمان بھائی روزی روٹی کے لیے بہار شریف، دہلی اور کلکتہ چلے گئے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی دنگا ہوا اور اس کی وجہ سے لوگ چلے گئے۔ کچھ مسلمانوں کی زمین اب بھی یہاں موجود ہے اور یہیں کے لوگ بٹائی کرتے ہیں اور ان کو  بانٹ کر دیتے ہیں۔

اجے کہتے ہیں، ‘ایک زمانے میں یہاں آدھا گاؤں مسلمان تھا، لیکن ایسا نہیں ہے کہ کوئی ان کو مارتا تھا یا تنگ کرتا تھا۔ سب اپنی اپنی سہولت کے لیےیہاں سے چلے گئے۔ باقی سب سیاست ہے، اس میں زیادہ نہیں پڑنا چاہیے۔

اجے کی طرح ہی کئی لوگ اور پنچایت کے مکھیا بھی فسادات کی وجہ سے مسلمانوں کی ہجرت کی بات سے انکار کرتے ہیں، حالانکہ بہار شریف میں خالد عالم عرف بھٹو میاں  1942، 1946 اور 1981 کے فرقہ وارانہ فسادات کی تصدیق  کرتے ہیں۔

لیکن وہ بھی اسے ہندوؤں کی طرح فساد نہیں مانتے اور کہتے ہیں،  دیکھیے  ہندو مسلم آمنے سامنے ضرور ہوئے، لڑائی کی صورت بھی پیدا ہوئی، لیکن کسی کو  کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

اپنے آباؤ اجداد کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ‘جب پہلا فساد ہوا تو مسلمانوں کی طرف سے صرف  10-15 نوجوان تھے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا کہ کسی کو نقصان پہنچا ہو، یہی کچھ دوسرے فسادات میں بھی ہوا۔ اور ایک وقت میں  جب حالات زیادہ  خراب ہو سکتے تھے، تب کانگریس لیڈر مدریکا سنگھ جی نے گاؤں میں کیمپ کیا اور لوگوں کی بڑی مدد کی۔ اس لیے جب بھی فسادات ہوئے، وہ اس طرح  کے فسادات نہیں تھے جس کوہم  آج کے کسی بڑے فسادات یا فرقہ وارانہ تشدد کی طرح یادکریں۔

ان کے مطابق چونکہ ان فسادات میں جان و مال کا کوئی نقصان نہیں ہوا ، اس لیےیہاں کے ہندو بھی اسے فساد کے طور پر نہیں دیکھتے۔

خالد عالم بھی زمینداری کے خاتمے کے بعد سے مسلمانوں کی ہجرت کی بات  کرتے ہیں اور کہتے ہیں’یہاں سے آخری ہجرت 1981 کے فسادات کے بعد ہوئی تھی۔’

ماڑی واقع  اس مسجد کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ‘جو مسجد آپ دیکھ کر آ رہے ہیں وہ ہمارے اجداد  ‘کبیر عالم’ نے بنوائی تھی۔اس سے  پہلے لوگ نماز پڑھنے کے لیے بڈگاؤں جاتے تھے، آج  وہ مسجد بھی ویران ہے۔ ان دنوں کئی بار  لوگوں کی نماز چھوٹ جایا  کرتی تھیں اور وہ زمینداری کا زمانہ تھا، تو  ان لوگوں نے سوچا  کہ اپنے  گاؤں میں مسجد بنائی جائے۔

وہ بتاتے ہیں   کہ ان کے اندازے کے مطابق یہ مسجد کم از کم دو سو سال پرانی ہے۔

گاؤں کی تاریخ

اس دوران وہ اس گاؤں کی تاریخ کے بارے میں بھی بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہ گاؤں نالندہ کی منڈی ہوا کرتا تھا، بعد میں منڈی کو ہی لوگ دھیرے دھیرے  ماڑی کہنے لگے۔

انہوں نے بتایا،ایسا  کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں یہ گاؤں کم از کم چار بار سیلاب کی زد میں آکر  بہہ گیا اور کئی بار گاؤں میں آگ بھی لگی۔ اس لیے اس گاؤں کا نام بدلتا رہا۔ یہ گاؤں مختلف اوقات میں ‘نیم ماڑی’، ‘مشارکت ماڑی’ اور ‘پاؤ ماڑی’ کے نام سے جاناگیا، اور اب اس کا موجودہ نام ‘اسماعیل پور ماڑی’ ہے۔

ان کی جانکاری کے مطابق،  ان تمام ناموں سے لینڈ کا ریکارڈ بھی موجود ہیں۔

فوٹو: دی وائر

فوٹو: دی وائر

عالم نے یہ بھی بتایا کہ مسجد کے احاطے میں جو بزرگ لیٹے ہوئے ہیں ان کا نام ‘حضرت اسماعیل’ ہے۔ زیادہ تفصیل تو ہمیں بھی نہیں معلوم ، شاید کچھ کتابوں میں ان کا ذکر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی آمد سے پہلے جو گاؤں جل جایا کرتا تھا یا پانی میں بہہ جایا کرتا تھا،ان کے تشریف لانے کے بعدسے اس گاؤں کے اندر نہ کبھی سیلاب کا پانی آیا اور نہ ہی آگ لگی۔

ان کےمطابق، ان کی برکت سے ہی  ماڑی گاؤں آباد ہوا۔

عالم کی طرح ماڑی کے کئی  ہندو حضرت اسماعیل کو ‘بابا حضرت’ اور ‘مخدوم صاحب’ کے نام سے مخاطب کرتے ہوئےکہتے ہیں، ان کی وجہ سے ہی گاؤں سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے محفوظ ہے۔

عالم جہاں مسلمانوں کی ہجرت کے لیےفسادات کی بات سے انکار نہیں کرتے، وہیں  اس گاؤں کی پسماندگی کو اس کی سب سے بڑی وجہ بتاتے ہیں۔ ان کے مطابق پہلے پیمار ندی کی وجہ سے سیلاب کا خوف رہتا تھا، کوئی ڈھنگ کا راستہ  تک نہیں تھا، وہ کہتے ہیں،’اب نتیش کمار کی حکومت میں ایک راستہ تو بہر حال  بن گیا ہے، جس کی وجہ سے آنا جانا قدرے آسان ہو ا ہے۔

مجموعی طور پر نالندہ، بہار شریف اور راجگیر واقع صوفی سنتوں کے مقبرے، کنڈ، گوتم بدھ کی عالمی امن کی تعلیمات اور ان کے نقش قدم کے ساتھ ساتھ تاریخ کے کئی داستانوں کی  گواہی دیتی اس سرزمین سے چند کیلومیٹر کے فاصلے پرواقع اس مسجد اور مزار کے لیے  مقامی ہندوؤں کےاپنے روایتی عقائدتو ہیں ہی، لیکن نئی نسل کے ہندوؤں کی کھلی  سوچ کے ساتھ دوسرے مذہب کے عقیدے کو زندہ رکھنے کی چاہت اور بہت حد تک مذہبی رسومات کو نبھانے کی رواداری  سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ  وہ آج کے  ہندوستان میں بھائی چارے کی کیسی  عمدہ مثال پیش  کر رہے ہیں، اور ملک و دنیا کو کس طرح  کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔