خبریں

غیر ضروری گرفتاریاں اور ’پولیس راج‘ کو روکنے کے لیے قانون بنائے مرکزی حکومت: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ بے تحاشہ گرفتاریاں نوآبادیاتی ذہنیت کی علامت ہیں۔ ملک کی جیلیں زیرسماعت قیدیوں سے بھری پڑی ہیں۔ غیر ضروری گرفتاریاں سی آر پی سی کی دفعہ 41 اور 41 (اے) کی خلاف ورزی ہیں۔ عدالت نے ضمانت کی عرضیوں کو نمٹانے کے سلسلے میں نچلی عدالتوں کی سرزنش بھی کی۔

سپریم کورٹ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جانچ  ایجنسیوں کو  ملزمین  کو  ‘غیر ضروری طور پر’ گرفتار کرنے سے روکنے کے لیے مرکزی حکومت کو ایک قانون بنانے کی ‘ ضرورت’ ہے۔

ٹائمس آف انڈیا کی خبر کے مطابق، عدالت نے یہ بھی کہا کہ بے تحاشہ گرفتاریاں نوآبادیاتی ذہنیت کی علامت ہیں اور یہ ‘ایک پولیس راج’ کے ہونے کی طرف اشارہ کرتی  ہیں۔

ستیندر کمار انتل بنام سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کیس میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم ایم سندریش نے 11 جولائی کو افسوس کا اظہار کیا کہ ،ہندوستان کی جیلیں زیر سماعت قیدیوں سے بھری پڑی ہیں۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ضمانت ایک اصول ہے اور جیل ایک استثنیٰ، ججوں نے کہا کہ حکومت ضمانت دینے کے عمل کو آسان بنانے کے لیے’بیل ایکٹ’ جیسا کچھ بنانے پر غور کر سکتی ہے۔

لائیو لاء نے عدالت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ، ہندوستانی جیلیں زیر سماعت قیدیوں سے بھری پڑی ہیں۔ ہمارے سامنے رکھے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جیلوں میں دو تہائی سے زیادہ قیدی زیر سماعت ہیں۔ اس زمرے کے زیادہ تر قیدیوں کو قابلِ دست اندازی  جرائم، جن کی سزا سات سال یا اس سے کم ہے، گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ  صرف غریب اور ان پڑھ ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں خواتین بھی شامل ہوں گی۔ اس طرح، ‘ان میں سے بہت سے لوگوں کو جرم  کرنے کی عادت ورثے میں ملی ہے۔’

عدالت نے کہا کہ  زیادہ تر یہ  مسئلہ غیر ضروری گرفتاریوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، جو سی آر پی سی کی دفعہ 41 اور 41 (اے) اور ارنیش کمار کے فیصلے میں جاری کردہ رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا جاتا ہے۔

بتادیں کہ دفعہ 41 کے تحت ان حالات کا ذکر کیا گیا ہے جب پولیس کسی شخص کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کر سکتی ہے، جبکہ دفعہ 41 (اے) میں کسی شخص کو گرفتار کرنے کے بجائے نوٹس دینے کا اہتمام ہے۔

عدالت نے کہا کہ یہ یقینی طور پر تفتیشی ایجنسیوں کی جانب سے نوآبادیاتی ہندوستان کی ذہنیت کا اظہار اور اشارہ ہے، جو اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ گرفتاری ایک سخت قدم ہے جو آزادی کا گلا گھونٹتی ہے اور اس لیے اس سے گریز کیا جانا چاہیے۔

عدالت نے کہا کہ جمہوریت میں اس خیال کی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی کہ یہ پولیس راج ہے کیونکہ دونوں نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔

عدالت نے ضمانت کو آئین کے آرٹیکل 21 (زندگی اور آزادی کا حق) کا معیار قرار دیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ قابل دست اندازی  جرائم کے معاملے میں بھی گرفتاری لازمی نہیں ہے۔

عدالت نے کہا،اگر افسر مطمئن ہے کہ کسی شخص نے قابل ِدست اندازی جرم کیا ہے جس میں  سات سال سے کم کی سزا  ہے اور جو جرمانے کے بغیر مذکورہ مدت تک بڑھ سکتی ہے ، تو اس صورت میں گرفتاری تبھی ہوسکتی ہے جب اس افسر کو یقین ہو  کہ مذکورہ شخص نے جرم کیا ہے اور اسے گرفتار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مزید کوئی جرم نہ کرسکے یا اس کی گرفتاری تفتیش کے لیے ضروری ہے یا اس کے غائب ہونے یا شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑکرنے اور گواہوں کو دھمکانے سے روکا جاسکے۔

سزا کی انتہائی کم شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے ضمانت کی درخواستوں کو نمٹانے کے سلسلے میں نچلی عدالتوں کی بھی سخت سرزنش کی۔

ججوں نے اس بات پر زور دیا کہ ضمانت کی باقاعدہ عرضیوں  کو دو ہفتوں کے اندر اور عبوری ضمانت کی عرضیوں کو چھ ہفتوں میں نمٹا دیا جانا چاہیے۔

ساتھ ہی، انہوں نے کہا کہ تمام ریاستوں اور یونین ٹریٹری کو سی آر پی سی کی دفعہ 41 اور 41اے پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی حکومتوں سے کہا کہ وہ چار ماہ میں اس سلسلے میں اسٹیٹس رپورٹ داخل کریں۔

عدالت نے تمام ہائی کورٹس سے ان زیر سماعت قیدیوں کا  پتہ لگانے کو بھی کہا جو ضمانت کی شرائط پوری کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ عدالت نے ایسے قیدیوں کی رہائی میں مدد کے لیے مناسب اقدامات کرنے کی بھی ہدایت دی ہے۔