خبریں

بہار: 10 سالوں میں 20 آر ٹی آئی کارکنوں کا قتل، کارروائی کے نام پر محض خانہ پری

پٹنہ میں 12 جولائی کو مختلف اداروں کے زیر اہتمام  منعقد ایک ‘جن شنوائی ‘  میں ریاست میں بدعنوانی کو بے نقاب کرتے ہوئے اپنی جان گنوانے والے آر ٹی آئی کارکنوں کے اہل خانہ نے شرکت کی۔ اس دوران ایک قرار داد منظور کی گئی جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان معاملوں  کی مناسب تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے  ایک جوڈیشل کمیشن بنائے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو تحقیقات کو مقررہ مدت میں مکمل کرنے کی ہدایت دے۔

جن شنوائی  کے دوران لی گئی تصویر۔ (تصویر: ٹوئٹر/@rajnishtalk)

جن شنوائی  کے دوران لی گئی تصویر۔ (تصویر: ٹوئٹر/@rajnishtalk)

گزشتہ 10 سالوں بہار میں میں مارے گئے  20 رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کارکنوں میں سے کئی کے قاتل ابھی تک قانون کی گرفت سے دور ہیں۔ اس سلسلے میں منگل، 12 جولائی کو پٹنہ میں منعقد ایک’ جن شنوائی’ (عوامی سماعت) میں ریاستی حکومت سے اپیل کی گئی  کہ وہ ان معاملوں میں مناسب تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کرے اور قانون نافذ کرنے والی  ایجنسیوں  کو مقررہ وقت میں تحقیقات مکمل کرنے کی ہدایت دے۔

جن شنوائی  کا اہتمام سوشل اکاؤنٹیبلٹی فورم فار ایکشن اینڈ ریسرچ (سفر)، نیشنل کمپین فار پروٹیکشن آف رائٹ ٹو انفارمیشن (این سی پی آر آئی)، جن جاگرن شکتی سنگٹھن (جے جے ایس ایس)، رائٹ ٹو فوڈ کمپین (آر ٹی ایف) اور نیشنل الائنس آف پیپلز موومنٹس (این اے پی ایم) بہار نے کیا تھا۔ پروگرام میں ریاست میں بڑی تعداد میں مارے گئے آر ٹی آئی کارکنوں کے اہل خانہ نے اپنی بات رکھی۔

اجلاس میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ ان کارکنوں کو عوامی مسائل اٹھانے اور نظام میں شفافیت لانے کے لیے قتل کیا گیا تھا۔ ہلاکتوں کو ‘انتہائی تشویشناک’ بتاتے ہوئے قرارداد میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح یہ کارکن پی ڈی ایس، منریگا اور آنگن واڑی مراکز سے بدعنوانی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور غیر قانونی طور پر چلائے جانے والے کلینک اور اسی طرح کی دوسری سرگرمیوں کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔

قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ،آر ٹی آئی کارکنوں کو دھمکانا اور ہراساں کرنا فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔

‘حکومت آر ٹی آئی کارکنوں کے تحفظ کے لیے وہسل بلورز پروٹیکشن ایکٹ نافذ کرے’

جن شنوائی  میں این سی پی آر آئی کی انجلی بھاردواج نے مرکزی حکومت سے اپیل کی کہ وہ اقتدار کو سچ کا آئینہ دکھانے والوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیےوہسل بلورز پروٹیکشن ایکٹ کو فوری طور پر نافذ کرے ۔

انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت کی جانب سے 2014 میں منظور کیے گئے قانون کو نافذ کرنے میں ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ پارلیامنٹ سے قانون پاس ہونے کے باوجود لوگوں کو تحفظ نہیں مل سکا۔

پروگرام میں شامل مقررین نے بہار حکومت سےبھی اپیل کی کہ وہ عبوری طور پر بدعنوانی کو بے نقاب کرنے والوں کے تحفظ کے لیے ایک سسٹم  بنائے۔ یہ ایک ریاستی سطح کے وہسل بلورز پروٹیکشن ایکٹ کی شکل میں ہو سکتا ہے۔

ایس آئی سی کا مطالبہ – مقتول آر ٹی آئی کارکنوں کے ذریعے دائر تمام مقدمات کو پبلک کیا جانا چاہیے

پروگرام میں منظور کردہ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ آر ٹی آئی کارکنوں کو دھمکی، ان پر حملہ اور ان کےقتل کے تمام معاملات میں ریاستی انفارمیشن کمیشن کو فوری طور پر متعلقہ سرکاری حکام کو ہدایت دینی چاہیے کہ وہ ان کے ذریعے دائر کردہ آر ٹی آئی اور مانگے گئے جوابات کو عام کریں۔

قرار داد میں ایسا کرنے کے لیے اس لیے کہا گیا ہے کہ تاکہ آر ٹی آئی کارکنان کو نشانہ بنانے والے مجرموں تک یہ پیغام جائے کہ اگر ہم اس معاملے کو دبانے کے لیے آر ٹی آئی کارکن پر حملہ کرتے ہیں تو ہم مزید پریشانی میں پڑ جائیں گے کیونکہ اس کے ذریعے دائر کردہ آر ٹی آئی سے متعلق معلومات کو  پبلک کر دیا جائے گا۔

اس کے علاوہ، قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مارے گئے  لوگوں  کی طرف سے مانگی گئی زیادہ تر معلومات ایسی تھیں جس کو  آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 4 کے تحت فراہم کیا جانا چاہیے تھا۔

قرارداد میں کہا گیا کہ نتیش کمار حکومت کو راجستھان حکومت کے ذریعے تیار کردہ پبلک انفارمیشن پورٹل اور کرناٹک حکومت کے ذریعے قائم کردہ مہتی کنجا پورٹل کی طرح آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 4 کے تحت جانکاری کے لیے سنگل ونڈو پورٹل تیار کرنا چاہیے۔

اجلاس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ جن  کارکنوں نے اپنی جان گنوائی ہے، انہیں  انسانی حقوق کے محافظ کا درجہ دیا جائے۔ اس کے علاوہ جن محکموں سے وہ جانکاری مانگ رہے تھے ان کا سوشل آڈٹ کیا جائے۔

جن شنوائی میں مارے گئے کئی آر ٹی آئی کارکنوں کے اہل خانہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کیسے بعض معاملوں  میں کئی سال گزرنے کے بعد بھی ملزمین آزاد گھوم رہے ہیں جبکہ انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔

قتل کے 12 سال بعد بھی آر ٹی آئی کارکنوں کے رشتہ دار انصاف کے منتظر

ترقیاتی کاموں کی تعمیر میں بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کی وجہ سے فروری 2020 میں بیگوسرائے میں مارے گئےششی دھرمشرا کے بیٹے نے بتایا کہ ان کے والد آر ٹی آئی ایکٹ کے آنے سے پہلے  سےبدعنوانی کو بے نقاب کرنے کا کام کر رہے تھے۔  14 فروری 2020 کو ان کے آر ٹی آئی سے متعلق کاموں کی وجہ سے ان کوگولی مار دی گئی۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ملزم کو ابھی تک سزا نہیں ملی ہے اور گھر والے اب بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

نومبر 2021 میں مدھوبنی ضلع میں بدھی ناتھ کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے بڑے بھائی نے بتایا کہ وہ آر ٹی آئی کے ذریعے پرائیویٹ نرسنگ ہوم کے آپریشن میں بے قاعدگیوں کو بے نقاب کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کلیدی  ملزم تاحال مفرور ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بدھی ناتھ 18 سال کی عمر سے ہی  جھولا چھاپ ڈاکٹروں کے ذریعے چلائے جا رہے نرسنگ ہوم کے کام کاج کو بے نقاب کر رہے تھے۔ان کی شکایت پر نرسنگ ہوم پر لاکھوں روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا، جس کے بعد انہیں 9 نومبر 2021 کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ 10 میں سے صرف 3 ملزم پکڑے گئے ہیں۔

کئی کارکنوں کا قتل سرکاری اسکیموں میں بدعنوانی کو بے نقاب کرنےکی وجہ سے ہوا

پروین کمار جھا بانکا کے بھرکو گاؤں کے مکھیاتھے۔ ان کے بارے میں آر ٹی آئی کارکن نکھل ڈے نے بتایا کہ انہوں نےجانکاری حاصل کرنے کے بعد پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے مقامی ڈیلروں کے خلاف کارروائی کی اور ان کے لائسنس ردکر دیے۔ نتیجے کے طور پر، ستمبر 2021 میں، جھا کو مبینہ طور پر ڈیلروں نے ایک گاڑی سے کچلوا کر ہلاک کر دیا۔

ان کے بھتیجے کو مسلسل دھمکیاں ملتی  رہتی ہیں اور گھر والوں کو چپ رہنے کے لیے دھمکی  اور پیسےکا لالچ دیا جاتا ہے۔

میٹنگ میں اس بات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا کہ کس طرح 2018  میں مغربی چمپارن میں آر ٹی آئی ایکٹ کا استعمال کرتے ہوئے اراضی پر قبضے اور تعمیراتی کاموں میں گھپلوں کو بے نقاب کرنے پر راجندر سنگھ کا قتل کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، جولائی 2018 میں جموئی میں منریگا میں بدعنوانی اور آنگن واڑی مراکز میں تقرریوں میں بے ضابطگیوں کو بے نقاب کرنے پر والمیکی اور دھرمیندر یادو کا قتل کر دیا گیا تھا۔

اسی طرح بھولا شاہ کو بانکا میں اس لیے  مار دیا گیا کیونکہ وہ آر ٹی آئی کے ذریعے آنگن واڑی مراکز، عوامی کاموں اور منریگا کی تعمیر میں بدعنوانی کے مسائل اٹھا رہے تھے۔

سال 2013 میں مظفر پور میں رام کمار ٹھاکر کاقتل کر دیا گیا تھا۔ وہ منریگا، اندرا آواس یوجنا اور پنچایتی کاموں میں بدعنوانی کو بے نقاب کر رہے تھے۔

 ایک مارے گئے  آر ٹی آئی کارکن کے بیٹے کو خودکشی کے لیے کیسے اکسایا گیا

مغربی چمپارن میں بپن اگروال کا قتل سب سے زیادہ دردناک ہے۔ انہوں نے پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم اور سرکاری کاموں میں بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کے لیے آر ٹی آئی کا استعمال کیا۔

بپن کے والد وجے اگروال نے بتایا کہ کس طرح لینڈ مافیا نے 16 فروری 2020 کو ان کے گھر پر حملہ کیا اور لوٹ مار کی۔ ملزم بپن کی بیوی کو بھی باہر گھسیٹ لائے۔ بپن نے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرائی، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ بپن کو 24 ستمبر 2021 کو قتل کر دیا گیا۔

انہوں نے بتایا،اس کے بعد بپن کے 14 سالہ بیٹے روہت نے بار بار پولیس کے پاس جاکر انصاف کی درخواست کی۔ 24 مارچ 2022 کو وہ انصاف کے لیے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے دفتر گیا۔ وہاں اس کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ وہ غصے اور مایوسی سے گھر لوٹ آیا۔ اس کے بعد اس نے قریبی عمارت پر چڑھ کر اپنے اوپر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگا لی اور اوپر سے چھلانگ لگا دی۔

خاندان کے دو افراد کو کھونے والے سوگوار وجے اگروال کا کہنا ہے کہ بپن کے قتل کے کلیدی ملزم ابھی تک نہیں پکڑے گئے ہیں۔

‘آر ٹی آئی کارکنوں کا قتل  سچ کی تلاش کا قتل ہے’

راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر اور راجیہ سبھا ممبر منوج جھا نے بھی میٹنگ میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ آر ٹی آئی کارکنوں کا قتل کوئی عام جرم نہیں ہے۔ یہ ‘سچ کی تلاش’ کا قتل بھی ہے کیونکہ ایک آر ٹی آئی درخواست سچ کی تلاش  ہوتی ہے۔

جھا نے میٹنگ میں کہا کہ چاہے وہ حکمراں پارٹی ہو یا اپوزیشن، آر ٹی آئی کارکنوں  اور تنظیموں کو ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنی چاہیے جو ان مسائل کی حمایت کرتے رہتے ہیں۔

جھا نے مزید کہا کہ انہوں نے راجیہ سبھا میں اپنے چار سال سے زیادہ کے دور میں کئی بار آر ٹی آئی کارکنوں کا مسئلہ اٹھایا ہے، لیکن چونکہ وہ ایک چھوٹی پارٹی سے ہیں، اس لیے اکثر یہ خبرنہیں بن پاتی۔

(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)