خبریں

اترپردیش: لکھنؤ کے لولو مال میں مبینہ طور پر نماز کی ادائیگی پر تنازعہ، ہندو مہاسبھا نے دیا دھرنا

اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا نے لکھنؤ میں گزشتہ ہفتے کھلے لولو مال میں نماز پڑھنے کے مبینہ واقعہ کے حوالے سے شکایت درج کرائی ہے۔ مال انتظامیہ نے بھی نماز ادا کرنے والے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر ائی ہے۔ مہاسبھا کا الزام ہے کہ مال میں 70 فیصد مرد ملازمین مسلمان ہیں اور 30 فیصد خواتین ملازمین ہندو کمیونٹی سے ہیں۔ ایسا کرکے انتظامیہ لو جہاد کو فروغ دے رہی ہے۔

لکھنؤ میں لولو مال۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

لکھنؤ میں لولو مال۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ کے سشانت گالف سٹی علاقے میں پچھلے دنوں کھلے لولو مال مبینہ طور پر اپنے احاطے کے اندر نماز کی اجازت دینے اور صرف مسلمانوں کو نوکریاں دینے پر تنازعات کے دائرے میں آگیا ہے۔

یہ تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب کچھ لوگوں کے ذریعےمبینہ طور پر لولو مال کے اندر نماز پڑھنے کا ویڈیو وائرل ہوا۔

دائیں بازو کی تنظیم اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کے کچھ ارکان نے جمعرات کو لولو مال کے گیٹ پر دھرنا دیا۔

خود کو مہاسبھا کا قومی ترجمان بتانے والے ششیر چترویدی نے الزام لگایا کہ ایک خاص برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مال کے اندر نماز پڑھنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ پھر مال انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ہندوؤں اور دیگر مذہبی لوگوں کو بھی مال کے اندر پوجا کرنے کی اجازت دیں۔

چترویدی نے دعویٰ کیا کہ انہیں اور مہاسبھا کے دیگر ارکان کو مال کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اس دوران لولو مال کے جنرل منیجر سمیر ورما نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا، لولو مال تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے۔ مال کے اندر کسی بھی طرح کےمذہبی کام یا عبادت کی اجازت نہیں ہے۔ ہم اپنے عملے اور سیکورٹی اہلکاروں کو ایسی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی تربیت دیتے ہیں۔

دھرنا مظاہرے کے دوران سشانت گالف سٹی تھانے کے کچھ پولیس اہلکار امن و امان برقرار رکھنے کے لیے لولو مال کے باہر پہنچے۔ اس کے بعد ششیر چترویدی اور تنظیم کے دیگر لوگ پولیس اسٹیشن پہنچے اور شکایت درج کرائی۔

شکایت میں کہا گیا ہے کہ مال کے اندر نماز ادا کی گئی جو کہ عوامی مقامات پر نماز کی اجازت نہ دینے کی پالیسی کے خلاف ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں کے مطابق لولو مال کے 70 فیصد مرد ملازمین مسلمان ہیں اور 30 فیصد خواتین ملازمین کا تعلق ہندو برادری سے ہے۔ ایسا کرکے لولو مال کی انتظامیہ لو جہاد کو فروغ دے رہی ہے۔

مہاسبھا کے ارکان نے جمعہ کو لولو مال کے باہر ہنومان چالیسہ پڑھنے کے لیے پولیس سے اجازت بھی مانگی ہے۔

دریں اثنا، ڈپٹی کمشنر آف پولیس (جنوبی) گوپال کرشن چودھری نے بتایا کہ مہاسبھا کے ارکان کی طرف سے پولیس کو دی گئی شکایت پرغور کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک اجازت کا سوال ہے، تو اس کا فیصلہ طے شدہ پروٹوکول کے مطابق متعلقہ محکموں کی مشاورت سے کیا جائے گا۔

امر اجالا کی رپورٹ کے مطابق،  مال کے تعلقات عامہ کے افسر نے جمعرات کی رات سشانت گالف سٹی تھانے میں مقدمہ درج کرایا ہے۔ نماز کی ادائیگی کا ویڈیو بدھ کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا۔ لولو مال میں نماز ادا کرنے کے دو ویڈیو وائرل ہوئے تھے۔ ایک بدھ کو اور دوسرا جمعرات کو۔ اس کے بعد تعلقات عامہ کے افسر نے مقدمہ درج کرایا ہے۔

اے ڈی سی پی ساؤتھ راجیش کمار سریواستو کے مطابق،  لولو مال کے پبلک ریلیشن آفیسر سبطین حسین نے جمعرات کی شام کوسشانت گالف سٹی پولیس اسٹیشن میں تحریردی۔ اس میں الزام  لگایا گیا ہے کہ کچھ لوگوں نے مال کے احاطے میں بغیر اجازت نماز پڑھی، جس کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ ویڈیو کی جانچ کی گئی جو کہ دارالحکومت میں نئے بنائے گئے لولو مال کا نکلا۔

تعلقات عامہ کے افسر حسین نے پولیس کو بتایا کہ نماز پڑھنے والوں میں مال کا کوئی ملازم یا اہلکار نہیں ہے۔ ان کی تحریر کی بنیاد پر نماز پڑھنے والے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ کیس کی تفتیش کی جا رہی ہے۔

غور طلب ہے کہ اتر پردیش کے سب سے بڑے  مال کہے جا رہے لولو مال  کا افتتاح 10 جولائی کو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کیا تھا۔ اس دوران ریاستی حکومت کے کئی وزرا اور لولو گروپ کے صدر یوسف علی بھی موجود تھے۔ کوچی، ترواننت پورم اور بنگلور کے بعد ابوظہبی واقع لولو گروپ نے لکھنؤ کے سشانت گالف سٹی میں یہ مال کھولا ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)