فکر و نظر

مہابھارت کی دروپدی ناانصافی کے خلاف سینہ سپر تھیں – صدر جمہوریہ کے طور پر ملک کو ایسی ہی دروپدی چاہیے

مہابھارت کی دروپدی ایک وفادار بیوی اور بیٹی تھیں، لیکن جب ناانصافی کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے سب سے سوال پوچھنے کی ہمت کی۔ امید کرنی چاہیے کہ آر ایس ایس کی ایک وفادار بیٹی ہونے  کے باوجود  دروپدی مرمو  وقت آنے پر انصاف کے لیے کھڑی ہوں گی۔

دروپدی مرمو وزیر اعظم نریندر مودی کے ہمراہ۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

دروپدی مرمو وزیر اعظم نریندر مودی کے ہمراہ۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

دروپدی مہابھارت میں پانڈووں کی طرف سے سب سے طاقتور کردار ہے۔ وہ یدہشٹرکے ذریعے انہیں داؤ پر لگانے کے سلسلے میں ان سے اس کا اختیار حاصل ہونے کے بارے میں سوال کرتی ہیں۔ بہ ظاہر اس اجلاس (سبھا) میں انہیں کرشن نے ‘بچایا’ تھا، لیکن مردوں کے اس اجتماع میں ان کا غرور اور جرأت مندی ساتھ اپنی بات کو رکھنا دکھاتا ہے  کہ وہاں  جس کو بچائے جانے کی ضرورت تھی ، وہ دروپدی نہیں بلکہ وہ مرد حضرات تھے، جو ان کی  ہتک کر رہے تھے۔

اسی طرح، مہاشویتا دیوی کی کہانی دروپدی کی دوپدی مہجن ایک سنتھالی خاتون ہے، جس کے ساتھ سیکورٹی فورسز نے ریپ کیا ہے۔ اس تشدد کا سامنا کر چکی  زخمی دوپدی کمانڈر کے سامنےنہتی  اور برہنہ حالت میں کھڑی ہے اور پوچھتی ہے کہ اسے کیوں شرم آنی چاہیے جب ‘اس کمرے میں کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جس سے اسے  شرمانا چاہیے۔’ اور پہلی بار کمانڈر ‘بے حد ڈر’ جاتا ہے۔

یہ وہی دروپدیاں ہیں جنہیں بی جے پی اور آر ایس ایس مٹا دینا چاہتے ہیں – اگست 2021 میں دہلی یونیورسٹی کے انگلش آنرس کے نصاب سے مہاشویتا دیوی کی اس کہانی کو ہٹا کر، 2016 میں ہریانہ سینٹرل یونیورسٹی میں اس پر ہونے والے ڈرامے کے خلاف احتجاج کر کے۔ تو ایسے میں  جب وہ یہ کہتے ہیں کہ دروپدی مرمو– جو ملک کی پہلی آدی واسی  خاتون صدر بن سکتی ہیں –  کا انتخاب کرنا آدی واسیوں  کو بااختیار بنانے کے ان کے عزائم  کو ظاہر کرتا ہے، تو اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔

آدی واسیوں  کے لیے بی جے پی کے ‘سب کا ساتھ سب کا وکاس’ نعرے کی سچائی یہ ہے کہ انہیں اپنی زمینیں، اپنے وسائل اور عوام کی ترقی کے لیے قربان کردینا چاہیے۔ آدی واسیوں  کے لیے رہائشی اسکولوں کو انہوں نے ایک آدی واسی  ایکلویہ کا نام دیا، جسے ایک چھتری –ارجن کے لیے اپنا انگوٹھا قربان کرنا پڑا تھا، اس کا ایسا کرنا ہی دکھاتا ہے کہ سنگھ کی نظروں میں آدی واسیوں (جن کو وہ ون واسی کہتے ہیں) کی کیا جگہ ہے۔

غورطلب ہے کہ 2003-18 میں چھتیس گڑھ کی بی جے پی حکومت کے تحت سلوا جڈم اور اس کے بعد کی مہموں میں گاؤں کے گاؤں جلا دیے گئے اور ہزاروں لوگ مارے گئے۔ جنگلات سے بے دخلی کی پہلی لہر، جس کی وجہ سے 2006 کے فارسٹ رائٹس ایکٹ کو نافذ کرنے کی جدوجہد شروع ہوئی،  وہ اٹل بہاری واجپائی کے دور میں اٹھی تھی۔ اب مودی حکومت نے جنگلات کے تحفظ کے ایکٹ کے تحت نئے قواعد، جو جنگلات کو صنعتوں کے حوالے کرنے کے لیےایس سی ایس ٹی کی رضامندی  کوسب سے نچلے پائیدان پر رکھتے ہیں ، جاری کرکے پچھلے ایکٹ کو بے معنی بنادیا ہے۔

اس سے پہلے سال 2017 میں قوانین کو کمزور کر نے سے کان کنی کو فائدہ ہوا تھا۔ بھلے ہی مودی حکومت حصول اراضی، بازآبادی اور بازآبادکاری ایکٹ 2013 کے سماجی اثرات کی تشخیص اور رضامندی کی شق کو تبدیل نہیں کر سکی، لیکن  بی جے پی مقتدرہ ریاستوں کے ساتھ مل کر اسے کمزور کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

آر ایس ایس آدی واسی  مذہب کو علیحدہ اور قابل احترام تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے؛ اور عیسائی آدی واسیوں  کو ان کی  عبادت گاہوں پر حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ درست ہے کہ جن آدی واسی علاقوں میں ریاستی انتظامات پورے نہیں پڑتے ہیں،وہاں سنگھ ون واسی کلیان آشرم اور ودیا بھارتی اسکولوں اور ہاسٹلوں کی ایک سیریز چلاتا  ہے، لیکن اس عمل میں آدی واسی  بچے ہندوتوا کے پیروکار بن جاتے ہیں اور ‘اس’ ‘سماجی خدمت’ کی واضح انتخابی اہمیت ہے۔

آر ایس ایس-بی جے پی کو آدی واسیوں کی بہت کم پرواہ ہے، سوائے اس کے کہ جب انہیں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف اتارنے کے لیے پیادے چاہیے ہوتے ہیں تب ان کا  خیال آتا ہے- جیسا کہ 2002 میں گجرات، 2008 میں کندھمال، اڑیسہ میں ہوا تھا۔ جیلوں میں آدی واسیوں کی تعداد – مجرم اور زیر سماعت قیدیوں کے طور پر – آبادی میں ان کی فیصد سے بہت زیادہ ہے۔

مرمو کے صدارتی امیدوار کے طور پر انتخاب کو ‘ہندوؤں’ کو مضبوط کرنے اور الیکشن جیتنے کے لیےآدی واسیوں  تک بی جے پی کےپہنچ بنانے کے نظریے سے دیکھا جانا چاہیے۔ بی جے پی کے ذہن میں ایک واضح انتخابی حکمت عملی ہے – اڑیسہ اور چھتیس گڑھ میں جلد ہی انتخابات ہونے والے ہیں اور 2024 کے عام انتخابات کے لحاظ سے بھی آدی واسی ووٹ معنی رکھتا ہے۔

لیکن کم از کم بی جے پی آدی واسی انتخابی  حلقے کی اہمیت کو تو سمجھتی ہے۔ جہاں  صدرتیزی سے ربڑ اسٹامپ میں بدلتے جا رہے ہیں، وہاں ایک آدی واسی ربڑ اسٹامپ کا انتخاب معنی تو رکھتا  ہی ہے، خواہ یہ  صرف علامتی طور پر ہی ہو۔ یہ این ڈی اے ہی تھی جس نے پرنب مکھرجی کے خلاف اپنے صدارتی امیدوار کے طور پر پی اے سنگما کی حمایت کی تھی۔ ایسے میں یہ دوسرا موقع ہے کہ انہوں نے کسی آدی واسی  امیدوار کا نام تجویز کیا ہے۔ دروپدی مرمو کی سی وی پرتبھا پاٹل یا اس عہدے کے لیے منتخب کیے گئے زیادہ تر مردوں سے بہتر یا بدتر نہیں ہے۔جن صدور نے درحقیقت آئین کی حمایت کی تھی، وہ الگ ہی نظر آتے  ہیں کیونکہ ان کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جا سکتی ہے۔

گزشتہ اتنےبرسوں میں جب کانگریس اپنی پسند کا صدر منتخب کرنے میں کامیاب رہی، اس نے کبھی بھی اس کے لیے شیڈولڈ ٹرائب کے فرد کو نامزد کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی ۔ ایسا نہیں ہے کہ کانگریس کے پاس انتخاب  کے لیے کوئی امیدوار نہیں تھا – مثلاً آدی واسی مہاسبھا کے رہنما جے پال سنگھ، جنہیں کانگریس میں شامل کیا گیا تھا، منی پور کے سابق وزیر اعلیٰ آنجہانی رشانگ کیشنگ،آدی واسی معاملوں کے سابق وزیر کشور چندر یا اندرا گاندھی اور نرسمہا راؤ کابینہ میں سابق وزیر مملکت رہے اروند نیتام۔

یشونت سنہا کا یہ کہنا درست ہے کہ وہ اور مرمو مختلف نظریات کی نمائندگی کرتے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ مرمو کی آدی واسی  شناخت معنی نہیں رکھتی ہے اور واجپائی حکومت میں وزیر خزانہ کے طور پر انہوں نے آدی واسیوں کے لیے مرمو سے زیادہ کام  کیا ہے، یہ ایک بہت ہی سطحی نظریہ ہے۔ ان کے پاس کم از کم یہ تسلیم کرنے کی انکساری ہوسکتی تھی کہ اس کی کامیابی کا ان کے ‘اعلیٰ ذات’ کے مرد ہونے کے پس منظر سے بہت کچھ لینا دینا تھا۔ ایک مثالی دنیا میں، اگر تعلیم، صحت اور وسائل برابر ہوں تو، ایک آدی واسی  صدر کو کسی بھی دوسرے امیدوار کی طرح دیکھا جاتا، جس کے لیے دائیں بازویا بائیں بازو کی  طرف سے کوئی ٹوکن ازم کی ضرورت نہیں ہوتی۔

افسوس کی بات ہے کہ جب آدی واسیوں کے لیے کچھ کرنے کی بات آتی ہے تو بائیں بازو کو چھوڑ کر کانگریس اور دیگر پارٹیوں کی شاید ہی کوئی  بہتر کارکردگی ہو۔ قومی سلامتی اور ‘ترقی’ کے نام پر کانگریس شمال مشرقی اور وسطی ہندوستان دونوں میں آدی واسی آبادی کے خلاف بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ذمہ دار رہی ہے۔ یو پی اے کے دور میں زیادہ تر ترقی پسند قوانین بائیں بازو کے دباؤ کی وجہ سے بنائے گئے تھے۔

درج فہرست قبائل ملک کی آبادی کا 8.6 فیصد ہیں اور یہ واحد طبقہ ہے جس کے لیے صدر کا کام براہ راست ان کی شناخت کے لیے اہمیت رکھتا ہے – کیوں کہ 5 ویں شیڈول صدر کو گورنروں کے ذریعے درج فہرست علاقوں کی دیکھ بھال کرنے کی ہدایت دیتی ہے۔

جھارکھنڈ کے گورنر کے طور پر مرمو کاآدی واسی  حقوق کے دفاع کا ملا جلا ریکارڈ ہے۔ انہوں نے بی جے پی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ ان بلوں کو واپس کر دیا تھا، جن  کا مقصد زمین کی مدت کے قوانین – سی این ٹی اے (چھوٹا ناگپور ٹیننسی ایکٹ) اور ایس پی ٹی اے (سنتھال پرگنہ ٹیننسی ایکٹ) کو تبدیل کرنا تھا، جس سے باہر کے لوگوں کے لیےآدی واسی  زمین کو لینا آسان ہو جاتا، لیکن اس کے بعد  انہوں نے جلد ہی حصول اراضی ایکٹ میں تبدیلی کی، ساتھ ہی آزادی مذہب بل 2017 میں بھی آدی واسی مخالف تبدیلیاں کیں، جس میں  تبدیلی  مذہب کو جرم قرار دیا گیا تھا۔

ہوسکتا ہے اس کا کوئی مطلب نہ ہو، لیکن بس  امید کی جا سکتی ہے کہ آر ایس ایس کی  ایک وفادار بیٹی ہونے کے باوجود مرمو موقع آنے پر اٹھ کھڑی  ہوں گی۔ مہابھارت کی دروپدی بھی ایک وفادار بیوی اور بیٹی تھیں، لیکن جب ناانصافی کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے سب سے مشکل سوال پوچھنےنے کی ہمت کی۔

(نندنی سندر سماجیات کی ماہر ہیں، ‘برننگ فاریسٹ: انڈیاز وار ان بستر’ ان کی تصنیف ہے۔)

(اس مضمون  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)