خبریں

ماؤ نوازوں سے تعلق کے الزام میں جھارکھنڈ پولیس نے آزاد صحافی کو گرفتار کیا

جھارکھنڈ کے رام گڑھ میں رہنے والے فری لانس صحافی روپیش کمار سنگھ کو سال 2021 میں سرائےکیلا کھرساواں ضلع میں درج ایک کیس میں گرفتار کیا گیا ہے، جس میں سی پی آئی (ماؤسٹ) لیڈر پرشانت بوس عرف کشندا  ملزم ہیں۔ جون  2019 میں بھی بہار کی گیا پولیس نے انہیں نکسلائٹ بتا کرگرفتار کیا تھا۔ تاہم، اسی سال دسمبر میں انہیں ضمانت مل گئی تھی کیونکہ پولیس چارج شیٹ داخل نہیں کر سکی تھی۔

روپیش کمار سنگھ(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

روپیش کمار سنگھ(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: جھارکھنڈ پولیس نے اتوار (17 جولائی) کو آزاد صحافی روپیش کمار سنگھ کو گرفتار کر لیا۔ سال 2021 میں سرائےکیلا ضلع میں درج ایک کیس کے سلسلے میں ان کی گرفتاری ہوئی  ہے، جس میں سی پی آئی (ماؤسٹ) کے لیڈر پرشانت بوس عرف کشندا ملزم ہیں۔

پولیس کا الزام ہے کہ روپیش ماؤنوازوں کے لیے فنڈکا بندوبست کرتے تھے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جھارکھنڈ پولیس کے ترجمان امول وی ہومکر نے تصدیق کی ہے کہ روپیش کو رام گڑھ ضلع میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا، انہیں (روپیش کو) پرشانت بوس کے خلاف درج مقدمے کے سلسلے میں ماؤنواز لیڈروں کے ساتھ ان کے روابط کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ان کے خلاف کوئی تازہ ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔

پرشانت بوس کو ایک سینئر ماؤنواز لیڈر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ جھارکھنڈ کے سارنڈا جنگلوں سے کام کر رہا تھا۔ انہیں تقریباً 15 سال قبل ایم پی سنیل مہتو اور رمیش سنگھ منڈا کے قتل کا ملزم بنایا گیا تھا۔

روپیش کے اہل خانہ کے مطابق، ریاست کے سرائےکیلا کھرساواں ضلع کی پولیس نے انہیں گرفتار کرنے سے پہلے تقریباً نو گھنٹے تک رام گڑھ میں ان  کے گھر کی تلاشی لی تھی۔

ان کی اہلیہ سماجی کارکن اپسا شتاکشی نے دی وائر کو بتایا، پولیس نے اتوار کی صبح 5:25 بجے ہمارے دروازے پر دستک دی اور ہمیں سرچ  وارنٹ دکھایا۔ ہم نے ان کے ساتھ تعاون کیا۔

روپیش پر یو اے پی اے اور آئی پی سی کے تحت الزام عائد کیے گئے ہیں۔ یو اے پی اے سمیت تمام دفعات،جو ان کے خلاف لگائی گئی ہیں، ویسی ہی دفعات پرشانت بوس اور کیس کے دیگر ملزمان کے خلاف لگائی  گئی ہیں۔

پولیس نے ان کے گھر سے ایک چادر، نو صفحات پر مشتمل ایک نوٹ بک، ایک موٹر سائیکل  کاٹیکس چالان، دو موبائل فون، ایک ہارڈ ڈسک، ایک کار ریٹیل چالان اور دو لیپ ٹاپ ضبط کیے ہیں۔

دی وائر نے سرائےکیلا کھرساواں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) اور ایس پی (ایچ کیو) سے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں دیا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے گزشتہ سال 12 نومبر کو سی پی آئی (ماؤسٹ) کی مرکزی کمیٹی کے رکن پرشانت بوس کو گرفتار کیا تھا۔ سرائےکیلا کے کاندرا تھانہ حلقہ میں درج مقدمے میں بوس کے سر پر ایک کروڑ روپے کا انعام تھا۔ ایف آئی آر 420 (دھوکہ دہی)، 467 (جعل سازی) اور (یو اے پی اے) سمیت آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت درج کی گئی تھی۔

سرائےکیلا-کھرساواں ضلع عدالت کے ذریعہ روپیش کے خلاف جاری کیے گئے سرچ رارنٹ  کے ساتھ گرفتاری وارنٹ ایف آئی آر نمبر 67/2021 کا ذکر ہے، جو پرشانت بوس کے خلاف کاندرا پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی تھی۔

پولیس روپیش کو پہلے بھی نکسلی بتاکر گرفتار کر چکی ہے

معلوم ہو کہ جون 2019 میں بہار کی گیا پولیس نے ایک پریس کانفرنس میں تین لوگوں کو نکسلائٹ بتا کر جلیٹن کی راڈ اور الکٹرانک ڈیٹونیٹر کے ساتھ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

ان تین لوگوں میں روپیش کمار سنگھ بھی شامل تھے۔ ان تینوں پر آئی پی سی کی دفعہ 414/120بی، آرمس ایکٹ کی دفعہ 3 اور 4 اور یو اے پی اے کی دفعہ 10/13/18/20/38 اور 39 لگائی  گئی تھی۔

اس معاملے میں گیا پولیس ان کے خلاف چارج شیٹ داخل کرنے میں ناکام رہی تھی، اس لیے دسمبر 2019 میں انہیں ضمانت مل گئی تھی۔ تب سے یہ معاملہ زیر التوا ہے۔

بتادیں کہ37 سالہ روپیش 2012 سے فری لانس صحافی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ مختلف میڈیا پلیٹ فارم پر آدی واسیوں کے مسائل پر لکھتے رہے ہیں۔ بھاگلپور میں اپنے کالج کے دنوں میں وہ سی پی آئی (لیننسٹ) کے طلبہ ونگ سے وابستہ تھے۔ 2014 میں انہوں نے اپسا شتاکشی سے شادی کی اور رام گڑھ میں رہ رہے ہیں۔

روپیش اصل میں بھاگلپور کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے تلکا مانجھی یونیورسٹی سے پڑھائی  کی ہے۔ وہ 2003 سے 2007 تک آئیسا اور اس کے بعد دو تین سال تک مالے سے وابستہ رہے۔ انہوں نے ایونٹ مینجمنٹ کی ایک کمپنی بھی کھولی تھی، جو صرف ایک سال تک  ہی چلا پائے۔ سال 2014 سے انہوں نے کل وقتی فری لانس صحافت کا آغاز کیا تھا۔

پیگاسس جاسوسی کی ممکنہ فہرست میں بھی آیا تھا نام

اتفاق سے روپیش کمار سنگھ کا نام ان صحافیوں کی فہرست میں شامل تھا جنہیں پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نشانہ بنایا گیاتھا۔ روپیش اور ان کی اہلیہ اپسا شتاکشی کے فون نمبر پیگاسس اسپائی ویئرکی ممکنہ فہرست میں  شامل ہیں۔

جولائی 2021 میں دی وائر سمیت ایک بین الاقوامی میڈیا کنسورٹیم نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھاکہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے سیاست دانوں، صحافیوں، کارکنوں، سپریم کورٹ کے اہلکاروں کے فون مبینہ طور پر ہیک کیے گئے اور ان کی نگرانی کی گئی یا پھر وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔

اگست 2021 میں صحافیوں پرنجوئے گوہا ٹھاکرتا، ایس این ایم عابدی، پریم شنکر جھا، روپیش کمار سنگھ اور سماجی کارکن اپسا شتاکشی نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی کہ فرانزک تحقیقات میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ ان کے فون پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے ہیک کیے گئے تھے۔