فکر و نظر

پیگاسس پروجیکٹ: سال بھر میں کہاں تک پہنچی حکومت ہند کے ذریعے اسپائی ویئر کے استعمال کے دعوے کی تحقیقات

قابل ذکر ہے کہ 18 جولائی 2021 سے  پیگاسس پروجیکٹ کے تحت ایک بین الاقوامی میڈیا کنسورٹیم، جس میں دی وائر سمیت دنیا بھر کے 17 میڈیا ادارے شامل تھے، نے ایسے موبائل نمبروں کی اطلاع دی تھی، جن کی نگرانی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے کی گئی تھی یا وہ ممکنہ نگرانی کے دائرے میں تھے۔ اس میں بہت سے ہندوستانی بھی تھے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اس کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی طرف سے حتمی رپورٹ ابھی دی جانی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)

Pegasus:  With SC Committee Set to Submit Report Soon, Here’s What We Know About the Work It’s Done
The expert committee is yet to submit a final report detailing its findings. The report will likely be handed over to the apex court before the end of this month

نئی دہلی:قانون نافذ کرنے والے  ہندوستانی اداروں کی جانب سے ملٹری گریڈ  کے اسپائی ویئر پیگاسس کی خریداری اور اس کے استعمال کی جانچ  کے لیےسپریم کورٹ کی جانب سے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کے آٹھ ماہ بعد بھی کمیٹی نے ابھی تک اپنے نتائج پیش نہیں کیے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 2021 میں ایک بین الاقوامی میڈیا کنسورٹیم، جس میں دی وائر بھی شامل تھا، نے پیگاسس پروجیکٹ کے تحت یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی این ایس او گروپ کمپنی کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے دنیا بھر میں رہنماؤں، صحافیوں، کارکنوں، سپریم کورٹ کے اہلکاروں کے فون مبینہ پر ہیک کرکے ان نگرانی کی گئی یا وہ ممکنہ نشانے پر تھے۔

اس کڑی  میں 18 جولائی 2021 سے دی وائر سمیت دنیا بھر کے 17 میڈیا اداروں نے  50000  سے زیادہ لیک ہوئےایسے موبائل نمبروں کے ڈیٹا بیس کی جانکاریاں شائع کرنا شروع کی تھیں، جن کی پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی کی جا رہی تھی یا وہ  ممکنہ نگرانی کے دائرے میں تھے۔

اس تفتیش  کے مطابق، اسرائیل کی ایک سرولانس تکنیکی کمپنی این ایس او گروپ کے متعدد حکومتوں کے گراہکوں کی دلچسپی والے ایسے لوگوں کے ہزاروں ٹیلی فون نمبروں کی لیک ہوئی  فہرست میں 300 تصدیق شدہ ہندوستانی نمبر پائے گئے تھے، جنہیں وزیروں، اپوزیشن لیڈروں، صحافیوں، عدلیہ سے وابستہ افراد، تاجروں، سرکاری افسران، کارکنان وغیرہ کے ذریعے استعمال کیا جاتا رہا  ہے۔

ہندوستان میں اس کے ممکنہ اہداف میں کانگریس کے رہنما راہل گاندھی، سیاسی حکمت عملی ساز پرشانت کشور، اس وقت کے الیکشن کمشنر اشوک لواسا، اب انفارمیشن اینڈ ٹکنالوجی کے وزیر اشونی ویشنو (وہ اس وقت وزیر نہیں تھے) کے ساتھ کئی اہم رہنما شامل تھے۔

تکنیکی تحقیقات میں دی وائر کے دو بانی مدیران  سدھارتھ وردراجن اور ایم کے وینو کے ساتھ دیگر صحافیوں جیسے سشانت سنگھ، پرنجوئے گہا ٹھاکرتا اور ایس این ایم عابدی، ڈی یو کے مرحوم پروفیسر ایس اے آر گیلانی، کشمیری علیحدگی پسند رہنما بلال لون اور وکیل الجو پی جوزف کے فون میں  پیگاسس اسپائی ویئر کے ہونے کی بھی تصدیق کی گئی تھی۔

پیگاسس پروجیکٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ملک اور دنیا بھر میں اس پر بڑا سیاسی تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔ہندوستان میں بھی مودی حکومت کی جانب سے مبینہ جاسوسی کے الزامات پر درجن بھر عرضیاں  دائر ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے 27 اکتوبر 2021 کو ریٹائرڈ جسٹس آر وی رویندرن کی سربراہی میں ایک آزادانہ  تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

اس وقت کیس کی سماعت کرتے ہوئے سی جے آئی این وی رمنا نے کہا تھا کہ حکومت ہر وقت قومی سلامتی کا حوالہ دے کربچ نہیں سکتی۔ تین رکنی تکنیکی کمیٹی میں گاندھی نگر میں نیشنل فارنسک سائنسز یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر نوین کمار چودھری، کیرل کی امرتا وشو ودیا پیٹھ کے پروفیسرڈاکٹر پربھارن پی اور آئی آئی ٹی بمبئی کے پروفیسر اشونی انل گمستے شامل ہیں۔

بتادیں کہ این ایس او گروپ کا کہنا ہے کہ وہ اس ملٹری گریڈ کے اسپائی ویئر کو صرف حکومتوں کو ہی فروخت کرتا ہے۔ ہندوستانی حکومت نے پیگاسس کی خریداری کی نہ تو تردید کی ہے اور نہ ہی تصدیق کی ہے۔

مئی 2022 میں ایک سماعت میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس آر وی رویندرن کی سربراہی والی  تحقیقاتی کمیٹی نے عدالت میں ایک عبوری رپورٹ پیش کی تھی۔ اس وقت عدالت نے 20 جون تک تحقیقات مکمل کرنے کو کہا تھا۔

دی وائر کو ملی جانکاری کے مطابق، کمیٹی ممکنہ طور پر رواں ماہ کے آخر تک اپنی حتمی رپورٹ پیش کرسکتی  ہے۔ جس بنچ نے اس جانچ کا حکم دیا تھا، اس کی سربراہی سی جے آئی این وی رمنا کر رہے تھے، جو 26 اگست کو ریٹائر ہونے والے ہیں۔

کمیٹی کو کیا ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں

اکتوبر 2021 میں سپریم کورٹ نے اسرائیلی اسپائی ویئر کے مبینہ استعمال کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے کہا تھاکہ قومی سلامتی کی آڑ میں پرائیویسی  کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔ عدالت نے اس معاملے میں مرکزی حکومت کی جانب سے مناسب حلف نامہ داخل نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہونے کا دعویٰ کرنا کافی نہیں ہے، اسے ثابت بھی کرنا ہوتا ہے۔

مجموعی طورپر، کمیٹی کو تین اہم  کام کرنے تھے۔ سب سے پہلے یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا پیگاسس ہندوستانی شہریوں کے فون پر استعمال ہوا تھا اور اگر ایسا ہے تو ان لوگوں کی تفصیلات جن کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

دوسرا، اس بات کی تصدیق کہ کیا پیگاسس کو کسی مرکزی یا ریاستی ایجنسی نے خریدا تھا اور اسے ملک کے شہریوں کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔

اور تیسرا، اگر یہ پتہ چلتا  ہے کہ کسی ہندوستانی ایجنسی نے واقعی پیگاسس کا استعمال کیا ہے تواس بات کی تفتیش کرنا کہ کیا پیگاسس کا استعمال قانونی اور سرکاری اجازت کے ساتھ کیا گیا تھا۔

کمیٹی نے اب تک کیا کیا

پچھلے آٹھ مہینوں میں پیگاسس کی تحقیقاتی کمیٹی نے تین مختلف سمتوں میں کام کیا ہے۔ یہ ہیں:

ڈیجیٹل فارنسک: تکنیکی کمیٹی نے تجزیے کے لیے 29 اسمارٹ فون جمع کیے ہیں۔یہ ڈیوائس زیادہ تر ان لوگوں کے ہیں جنہیں ممکنہ طور پرپیگاسس کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔ کمیٹی نے پیگاسس کا نشانہ بنے یا پیگاسس سے متاثر ہونے والے فون کی ممکنہ فارنسنک جانچ کروائی  ہے۔

بیان درج کرنا: پینل نے متعدد ماہر گواہوں، رکن پارلیامنٹ اور پیگاسس کےنشانہ پر رہے لوگوں  کا انٹرویو کیا ہے۔ کمیٹی کی ویب سائٹ کے مطابق، تکنیکی ماہرین آنند وی اور سندیپ شکلا سمیت 13 افراد نے گواہی دی ہے۔ جن دیگر افراد نے بیان درج  کروائے ہیں ان میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور پروفیسر ڈیوڈ کائے شامل ہیں۔ ڈیوڈ 2020 تک اظہار رائے کی آزادی کے فروغ اور تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی تھے۔

ریاستی حکومتوں سے رابطہ: میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ پینل نے مختلف ریاستی حکومتوں سے بھی رابطہ کیا تھا۔ مثال کے طور پر، اپریل 2022 میں کمیٹی نے تمام ریاستوں کے ‘ڈائریکٹر جنرل آف پولیس’ سے پوچھا تھاکہ کیا انہوں نے این ایس او گروپ سے اسپائی ویئر خریدا تھا۔

سپریم کورٹ کے سکریٹری جنرل نے تکنیکی کمیٹی کے سوالات کا حوالہ دیتے ہوئے تمام ڈی جی پی سے پوچھا، ‘کیا کسی ریاست، ریاستی پولیس، ریاستی انٹلی جنس یا کسی  ریاست/یونین ٹریٹری  کی ایجنسی، جس کے پاس پیگاسس اسپائی ویئر تھا، نے ہندوستان کے کسی بھی شہری پر اس کا استعمال کیا ہےَ؟ اگر ہاں تو، کیا اس طرح کے استعمال کے لیے کوئی اجازت یا منظوری لی گئی تھی۔ اگر ہاں تو کس سے؟

کمیٹی کا وہ کام جو آج بھی معلوم نہیں ہے

پیگاسس انکوائری کمیٹی کی ویب سائٹ پر کچھ شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کو انتہائی  شفاف طریقے سے درج کیا گیا ہے، حالانکہ عوام  کوکچھ دیگر پہلوؤں کے بارے میں  کم جانکاری ملتی ہے، خاص طور پر نریندر مودی حکومت کے ساتھ کمیٹی کی بات چیت کے سلسلے میں۔

مثال کے طور پر، یہ واضح نہیں ہے کہ وزارت داخلہ، انٹلی جنس ایجنسیوں اور قومی سلامتی کے مشیر کے دفتر کے ساتھ کام کرنے والے بیوروکریٹس کو گواہی کے لیے بلایا گیا یا بیان دینے کے لیے کہا گیا ہے۔ اگر ایسا ہوا،  تو اسے کمیٹی کی ویب سائٹ پر کیوں درج نہیں کیا گیا، جبکہ یہاں سول سوسائٹی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے بیانات واضح طور پرنظر آرہے ہیں۔

نیز یہ بھی واضح نہیں ہے کہ این ایس او گروپ یا سٹیزن لیب (جس نے 2018 میں ہندوستان میں پیگاسس کی سرگرمی کا پہلا تجزیہ شائع کیا تھا) جیسی تنظیموں سے انٹرویو لیا گیا ہے یا انہوں نے ثبوت  کی فراہمی میں تعاون کیا۔ یہ نکتہ خاص طور پر اہم ہے کیونکہ ہم اس طریقہ کار کے بارے میں نہیں جانتے ہیں جس کا استعمال ٹیکنیکل کمیٹی کے ذریعے جمع کیے گئے فون کے فارنسک تجزیہ کے لیے کیا جار ہا ہے۔

کمیٹی کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایم وی ٹی ٹول کٹ  کااستعمال کر سکتی ہے، لیکن پھر بھی یہ اس بات کی جانکاری نہیں دیتی ہے کہ وہ کیسے  طےکریں گے کہ کسی ڈیوائس کو اسپائی ویئر کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا یا اس میں  پیگاسس ڈالا گیا ہے۔

آخر کار، 2021 میں سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے نشاندہی کی تھی کہ قومی سلامتی کے خدشات کی وجہ سے مودی حکومت عوامی طور پر یہ نہیں بتا سکتی کہ اس نے پیگاسس خریدا ہے یا نہیں۔ تاہم انہوں نے کہا تھاکہ حکومت تمام تفصیلات کمیٹی کے ساتھ شیئر کرے گی۔

جنوری 2022 میں نیویارک ٹائمز نے سال بھر کی تحقیقات کے بعد ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ہندوستانی حکومت نے 2017 میں ہتھیاروں کی خریداری کے لیے اسرائیل کے ساتھ ہوئے 2 ارب  ڈالر کے دفاعی معاہدے کے تحت پیگاسس کو خریدا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا  تھاکہ اسرائیلی وزارت دفاع نے نئے سودوں کے تحت پولینڈ، ہنگری، ہندوستان سمیت کئی ممالک کو پیگاسس فروخت کیا تھا۔

یہ واضح نہیں ہے کہ اگر مرکزی حکومت  سوالات کا جواب نہیں دیتی ہے تو کمیٹی کیا کرے گی، کیونکہ اس بارے میں صاف جانکاری نہیں ہے کہ کیاجانچ کمیٹی کے پاس  دستاویز یا ریکارڈسمن کرنے کے لیے خصوصی اختیارات ہیں یا نہیں۔

(اس رپورٹ  کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)