خبریں

ہماری ترقی کے باوجود لوگ بھوک سے مر رہے ہیں: سپریم کورٹ

زیادہ سے زیادہ مہاجرمزدوروں کو راشن کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ریاستی حکومتوں کوطریقہ کار وضع کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ حتمی مقصد یہ ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی شہری بھوک سے نہ مرے۔ عدالت نے کہا کہ مہاجرمزدور نیشن بلڈنگ میں اہم رول  ادا کرتے ہیں اور کسی بھی طور پران کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

سپریم کورٹ /فوٹو : پی ٹی آئی

سپریم کورٹ /فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کویہ کہتے ہوئے کہ ہماری ترقی کے باوجود لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ زیادہ سے زیادہ مہاجرمزدوروں کو راشن کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار وضع کریں۔

جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بی وی ناگرتنا کی بنچ نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ 2020 کے مئی مہینے میں سپریم کورٹ نے مہاجر مزدوروں کے مسائل اور ان کےحالات کا نوٹس لیا تھا۔

عدالت نے کہا کہ مہاجرمزدور نیشن بلڈنگ میں اہم رول  ادا کرتے ہیں اور کسی بھی طور پران کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے مرکز سے کہا کہ وہ ایک ایسا نظام بنائے جس سے مہاجرمزدوروں کو راشن کارڈ کے بغیر اناج مل سکے۔

عدالت نے کہا کہ،ہماری ترقی کے باوجود لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ مہاجرمزدوروں کو راشن کی فراہمی  کو یقینی بنانے کے  لیے طور طریقوں پر کام کیا جانا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ مرکز کی طرف سے شروع کی گئی فلاحی اسکیموں کو زیادہ سے زیادہ مزدوروں تک پہنچنا چاہیے اور ریاستی حکومتوں کو مرکزی حکومت کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔

بنچ نے کہا،جہاں تک ہمارے ملک کی بات ہے، دو لوگ بہت اہم ہیں۔ پہلے، کسان ہیں جو کاشتکار ہیں اور دوسرے مہاجر مزدور ہیں۔ ملک کی تعمیر میں یہ بہت اہم  رول ادا کرتے ہیں۔ ان کے حقوق کو کہیں سےبھی  نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

بنچ نے کہا، اس لیے آپ کو ان تک پہنچنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ناخواندہ ہوں اور یہ نہ جانتے ہوں کہ سرکاری اسکیموں سے فائدہ کیسے اٹھاناہے۔ متعلقہ ریاستوں کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اسکیم کے فائدے  ان تک پہنچیں۔

بنچ نے کہا، ہر ریاست میں خوراک اور شہری فراہمی کے محکمے کو یہ ہدف طے کرنا چاہیے کہ وہ کتنی تعداد میں  راشن کارڈ  رجسٹر کرنے جا رہے ہیں۔ اس پر مقامی سطح پر کام کرنا پڑے گا، کیونکہ ہر ریاست کی اپنی ضرورت  ہوتی ہے۔

جسٹس ناگرتنا نے کہا، حتمی مقصد یہ ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی شہری بھوک سے نہ مرے۔ بدقسمتی سے یہ (بھوک سے اموات) ہماری ترقی کے باوجود ہو رہی ہیں۔

جج نے کہا، لوگ بھوک اور خوراک کی کمی سے مر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دیہاتوں میں لوگ بھوک سے سمجھوتہ کر چکے ہیں۔

جسٹس بی وی ناگرتنا نے کہا، گاؤں میں وہ اپنے پیٹ کو مضبوطی سے باندھتے ہیں تاکہ انہیں بھوک نہ لگے۔ میں جانتا ہوں۔ وہ اپنے پیٹ کو ساڑی یا کسی اور کپڑے سے باندھتے ہیں اور پانی پیتے ہیں، سوتے ہیں۔ بچے اور بڑے لوگ ایسا کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کھانا نہیں  ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ اس معاملے میں بعض احکامات جاری کرے گی اور دو ہفتے بعد اس معاملے کی سماعت کرے گی۔

مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایشوریہ بھاٹی نے بنچ کو بتایا کہ ان آرگنائزڈ سیکٹر کے تقریباً 27.95 کروڑ ورکرس یا مہاجر مزدوروں نے نیشنل انفارمیٹکس سینٹر (این آئی سی) کی مشاورت سے تیار کردہ پورٹل پر11 جولائی کی تاریخ تک رجسٹریشن کرایاتھا۔

مرکز کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں بتاتے ہوئے بھاٹی نے کہا کہ مہاجر مزدوروں، تعمیراتی مزدوروں وغیرہ جیسے لوگوں کی مدد کے لیے ای-شرم پورٹل شروع کیا گیا ہے۔

انہوں نے دلیل دی کہ ریاستوں کی مانگ کے مطابق اناج کی اضافی تقسیم پر غور کیا جا رہا ہے اور پردھان منتری غریب کلیان یوجنا کو ستمبر تک بڑھا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومتیں فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (ایف سی آئی) سے اناج خرید سکتی ہیں۔

اس معاملے کو لے کر شہری حقوق کے کارکنوں انجلی بھاردواج، ہرش مندر اور جگدیپ چھوکر نے عدالت میں ایک عرضی دائر کی تھی جس میں مرکز اور ریاستوں کویہ  یقینی بنانے کی ہدایت دینے کی درخواست کی گئی تھی کہ مہاجر مزدوروں کے لیے فوڈ سکیورٹی ، نقد رقم کی منتقلی اور دیگر فلاحی اقدامات کیے جائیں۔

عرضی میں ان مزدوروں کا ذکر کیا گیا ہے،جنہوں نے کووڈ کی دوسری لہر کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں کرفیو اور لاک ڈاؤن کے دوران پریشانیوں کا سامنا کیا۔

تینوں کی طرف سے پیش ہوئےسینئر وکیل پرشانت بھوشن نے الزام لگایا کہ مرکز ریاستوں سے بازاری نرخوں پر راشن خریدنے کو کہہ رہا ہے۔

بھوشن نے کہا کہ زیادہ تر مزدور راشن سے محروم ہیں،جبکہ انہوں نے پورٹل پر رجسٹریشن کرا رکھا ہے، لیکن ان کے پاس راشن کارڈ نہیں ہیں۔

بھوشن نے کہا کہ 2011 کی مردم شماری کے بعد راشن کارڈ کے لیے اہل آبادی کی تعداد میں 15 فیصد اضافہ ہوا ہے اور وہ محروم ہیں۔

سپریم کورٹ نے دلیل کو  نوٹس  میں لیا اور سوال کیا کہ کیا غریبوں کو راشن دینے سے صرف اس لیے انکار کیا جا سکتا ہے کیونکہ نئی مردم شماری نہیں ہوئی ہے۔

بنچ نے کہا، آپ (مرکز) 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کی پیروی کر رہے ہیں اور یہ ضرورت مند لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہوسکتی ہے اور آپ کو اس پر غور کرنا چاہیے۔آپ کو ان کے ساتھ اپنے بھائی بہنوں جیسا سلوک کرنا چاہیے۔ آپ ان کو راشن دیں گے جن کے پاس راشن کارڈ ہیں، ان کا کیا ہوگا جن کے پاس رجسٹریشن ہے لیکن  راشن کارڈ نہیں ہے۔

عدالت نے کہا، آپ کو اس پر غور کرنا ہوگا اور کوئی حل نکالنا ہوگا تاکہ زیادہ سے زیادہ مزدوروں کو فائدہ ہو۔ ریاستی حکومت کو تمام کوششیں کرنی چاہیے تاکہ مہاجرین کے پاس راشن کارڈ ہوں۔ ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔

عدالت نے گزشتہ اپریل میں اس بارے میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے تعمیلی رپورٹ طلب کی تھی کہ اس کے جون 2021 کے حکم کی تعمیل کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ یہ حکم مہاجر مزدوروں کو خوراک اور سماجی تحفظ فراہم کرنے کے سلسلے میں جاری کیے  گئے تھے۔

معلوم ہو کہ گزشتہ سال دسمبر میں سپریم کورٹ نے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے کہا تھا کہ وہ ایک ملک ایک راشن کارڈ سسٹم کو لاگو کریں، کیونکہ اس سے مہاجرمزدور ان ریاستوں میں بھی راشن لے سکیں گے جہاں وہ کام کرتے ہیں اور جہاں ان کا راشن کارڈ رجسٹرڈ نہیں ہے۔

اس سے قبل 24 مئی 2021 کو کہا تھا کہ غیر منظم مزدورو ں کا رجسٹریشن جلد از جلد مکمل کیا جانا چاہیےاور ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ قومی ڈیٹا بیس بنایا جانا چاہیے۔

اس دوران سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مہاجرمزدوروں کے رجسٹریشن کا عمل بہت سست ہے اور اس میں تیزی لائی جانی چاہیے تاکہ انہیں کووڈ-19 کی وبا کے درمیان اسکیموں کا فائدہ دیا جاسکے۔

بنچ نے کہا تھا، ہم مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ منظم کارکنوں کے رجسٹریشن کے عمل کو جلد از جلد مکمل کریں، تاکہ غیر منظم کارکن مرکز اور ریاستوں کی مختلف اسکیموں کا فائدہ اٹھا سکیں، جو مناسب رجسٹریشن  کے بغیر اور شناختی کارڈ کے بنا زمین پر لاگو کرنامشکل لگتا ہے۔

بتادیں کہ13 مئی 2021 کو عدالت نے دہلی، اتر پردیش اور ہریانہ کو ہدایت دی تھی کہ وہ کووڈ کی موجودہ لہر کے درمیان پھنسے ہوئے مہاجرمزدوروں کے لیے قومی دارالحکومت کے علاقے میں کمیونٹی کچن کھولیں اور ان مزدوروں کے لیے نقل و حمل کی سہولیات فراہم کریں، جو گھر واپس جانا چاہتے ہیں۔

مئی 2020 میں سپریم کورٹ نے وبائی امراض کے درمیان شہروں میں پھنسے ہوئے مہاجرمزدوروں کے مسائل اور پریشانیوں  کا از خود نوٹس لیا تھا اور ریاستوں کو مہاجر مزدوروں سے کرایہ وصول نہ کرنے اور انہیں ان کے گھروں کے بس یا ٹرین میں سوار ہونے تک مفت کھانا فراہم کرنے سمیت متعدد ہدایات دیے تھے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)