فکر و نظر

کیا ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی ختم ہو چکی ہے …

گزشتہ دنوں یوپی میں عمل میں آئی دو گرفتاریوں سے واضح  ہے کہ اظہار رائے کی آزادی اب باقی نہیں رہی۔ یا پھر جیسا کہ عیدی امین نے ایک بار کہا تھا کہ ، بولنے کی آزادی  توہے، لیکن ہم بولنے کے بعد کی  آزادی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔

نریندر مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فائل فوٹو/السٹریشن: دی وائر)

نریندر مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ۔ (فائل فوٹو/السٹریشن: دی وائر)

کیا وزیر اعظم نریندر مودی اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کی تنقید کرنا جرم ہے؟ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، جو ‘معقول پابندیوں’سے مشروط ہے، حالانکہ ان کا اطلاق تنقید یا طنز پر نہیں ہوتا ۔ اس کے باوجود یوپی میں دو حالیہ گرفتاریوں سے واضح  ہے کہ یہ آزادی اب باقی نہیں رہی۔ یا جیسا کہ عیدی امین نے ایک بار کہا تھا کہ، بولنے کی آزادی  توہے، لیکن ہم بولنے کے بعد کی  آزادی کی ضمانت نہیں دے سکتے۔

الہ آباد کے کرنل گنج تھانے کے پولیس اہلکاروں نے گزشتہ دنوں ایک ہورڈنگ لگانے کے الزام میں پانچ لوگوں کو گرفتار کیا۔ ہورڈنگ میں وزیر اعظم مودی کو گھریلو گیس سلنڈر کے ساتھ دکھاتے ہوئے 1105 روپے لکھا تھا، جوگزشتہ دنوں  ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ایک سلنڈر کی قیمت ہے۔ پوسٹر میں ہیش ٹیگ بائے بائے مودی  لکھتے ہوئے مرکزی حکومت کی اگنی پتھ اسکیم کو  بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بی جے پی کے مقامی رہنماؤں نے پوسٹر کو دیکھا اور پولیس میں شکایت درج کروائی، جس کے بعدآئی پی سی کی دفعہ 153 بی (قومی یکجہتی کے خلاف الزامات یا دعوے) اور 505 (2) (طبقوں کے درمیان دشمنی، نفرت یا تعصب پیدا کرنے والا بیان دینا) کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔

یہاں استعمال ہونے والی آئی پی سی کی پہلی دفعہ کو کسی گروہ کو ان کے مذہب، زبان، ذات وغیرہ کی بنیاد پر نشانہ بنانے کے جرم کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے اور اسے کسی شخص –بھلے ہی وہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہوں،کی تنقید کے تناظر میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔دوسر ی دفعہ دو یا دو سے زیادہ ‘طبقوں’ کی بات کرتی ہے، جن کے درمیان دشمنی کو فروغ دیا جا رہا ہو۔ یہ سمجھنے کے لیے کسی قانون کی ڈگری یا تربیت کی ضرورت نہیں ہے کہ ان دفعات  کا اطلاق ممکنہ طور پر یہاں کیے گئے ‘جرم’ پر نہیں ہو سکتا۔

اورگویا پولیس کا کیس درج کرناکافی نہیں  تھا، اس لیے میڈیا کے بڑے فورمز نے اس مضحکہ خیز دعوے کو برقرار رکھنے میں مدد کی کہ کوئی  بہت ہی بڑاحقیقی جرم کیا گیا ہے۔ ٹائمس آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں لکھا، ‘ایک اہم پیش رفت میں کرنل گنج پولیس کی ٹیم نےسوموار کی شام کو بیلی روڈ پر ریزرو پولیس لائن کے قریب ‘بائے بائے مودی’  لکھا متنازعہ ہورڈنگ لگانے کے الزام میں ایک پرنٹنگ پریس کے مالک اورایک  ایونٹ آرگنائزر سمیت پانچ افراد کو گرفتار کیا۔

اس کے بعد یوپی کا دوسرا معاملہ بھی اتنا ہی مضحکہ خیز تھا۔ قنوج کے ایک 18 سالہ اسکولی  طالبعلم آشیش یادو کو پولیس نے سوشل میڈیا پر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ‘قابل اعتراض’ تصویر پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا۔ تصویر میں آدتیہ ناتھ کے  منہ میں دودھ کی بوتل اور سر پر جوتا دکھایا گیا تھا۔ کنارےپر بہت سے ہنسنے والے ‘ایموجی’ بنے تھے۔

آشیش یادو کے ذریعے بنائی گئی آدتیہ ناتھ کی ‘توہین آمیز’ تصویر کا موازنہ 1953 میں شنکر کے ذریعے اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کےاقوام متحدہ میں ناکام اپیل کرتے ہوئے عریاں کارٹون سے کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ ایک مزاحیہ، غیر روادار سیاست دان یا پولیس والے ہیں، تو آپ کو نہرو کی تصویر کشی اس سکولی  بچے کی کسی حد تک شوقیہ کوششوں سے کہیں زیادہ ‘توہین آمیز’ لگے گی۔ تاہم، نہرو نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنا  تو بہت دور، انہوں نے کہا تھا کہ ‘شنکر، انہیں بھی نہ بخشیں!’ ریتا گیرولا کھنڈوری اپنی کتاب ‘کیریکیچرنگ کلچر ان انڈیا‘ میں بتاتی ہیں کہ درحقیقت 1955 میں نہرو انہیں ( کارٹونسٹ شنکر)اپنے ساتھ یو ایس ایس آر کے دورے پر لے کر گئے تھے۔

آشیش یادو کی طرف  پاس واپس آتے ہیں، قنوج پولیس نے ان کے ‘جرم’ کو کرنل گنج پولیس اسٹیشن میں درج  ہوئےجرم سے بھی کہیں زیادہ مانااور یادو پر آئی پی سی کی دفعہ 153بی  اور 505(2) کے ساتھ ساتھ 153اے، 295 اےاور آئی ٹی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا۔ یہاں بھی ان دفعات  کا ‘جرم’سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ اس کے باوجود حکام کی طرف سے بیچارے لڑکے کے ‘جرم’ کو کتنی  سنجیدگی سے لیا جارہا ہے ، اس  کا اندازہ افسران کے اس بیان سے ہوتا ہے، جہاں پی ٹی آئی کے مطابق، انہوں نے بتایا تھا کہ ،ضلع مجسٹریٹ راکیش کمار مشرا اور پولیس سپرنٹنڈنٹ راجیش کمار’ سریواستو تال گرام تھانے پہنچے اور طالبعلم سے بند کمرے میں پوچھ گچھ کی۔

اتر پردیش اور دیگر جگہوں سے اس طرح کی شاندار ‘کامیابیوں’اور اعلیٰ سطحی پوچھ گچھ کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں، جو اظہار رائے کی آزادی کی موت کی گواہی دیتی ہیں۔ اور یہ تعفن  سیاست دانوں کی ان کی تنقید  کے سلسلے میں عدم برداشت اور  پولیس کے آئین کے لیےبرتے جارہے کم از کم احترام سے کہیں  زیادہ ہے۔ اس طرح کی ہر گرفتاری کو ہمیشہ ان مجسٹریٹ کی حمایت حاصل ہوتی ہے جن کے سامنے یہ بے بس ‘مجرم’ پیش کیے جاتے ہیں۔پہلی بار میں ضمانت سے انکار  کرنا کم و بیش معمول بنتا جا رہا ہے، نئی دہلی میں بھی یہی حال ہے۔ جیسا کہ ہم نے محمد زبیر کے معاملے میں  ہی دیکھا تھا، جہاں پہلے ڈیوٹی مجسٹریٹ اور پھر چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ نے اصرار کیا کہ انہیں ایک ٹوئٹ کے لیےحراست  میں بھیجا جائے۔

زبیر کے کیس میں جب تک سیشن کورٹ کے جج نےضمانت دی، حکومت تب تک ان کے خلاف نصف درجن اسی طرح کے فرضی مقدمات درج کر چکی تھی اور ان کی حراست کو یقینی بنانے کے لیے ایک ایس آئی ٹی بھی بنائی جا چکی تھی۔

اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی جج عدالتی فوقی تدارج میں کس سطح پر ہے ایگزیکٹو اختیارات کے غلط استعمال سے شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری انہی کی ہے۔ انہیں  ہٹا دیجیے تو جو باقی رہ جاتا ہے وہ پروسیس سے ملنے والی سزا ہے۔ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے وقت عدالتی ذمہ داری سے روگردانی کی وجہ سے  ہی ہندوستانی  جمہوریت زوال کی راہ پر گامزن ہے۔

(اس  مضمون  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)