خبریں

دیگر کاروباری مفادات والے میڈیا گھرانے بیرونی دباؤ میں آ جاتے ہیں: سی جے آئی رمنا

چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب کسی میڈیا ادارے کے دوسرے کاروباری مفادات ہوتے ہیں تو وہ بیرونی دباؤ کے تئیں حساس  ہو جاتے ہیں۔ کاروباری مفادات اکثر آزاد صحافت کے جذبے پر حاوی ہو جاتے  ہیں۔ نتیجے کے طور پر جمہوریت سےسمجھوتہ ہوتا ہے۔

چیف جسٹس این وی رمنا۔ (فوٹو بہ شکریہ: یوٹیوب/سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن)

چیف جسٹس این وی رمنا۔ (فوٹو بہ شکریہ: یوٹیوب/سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن)

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) این وی رمنا نے منگل کے روز کہا کہ میڈیا کو خود کو ایماندارانہ صحافت تک ہی محدود رکھنا چاہیے اور صحافت کو اپنے اثر و رسوخ اور کاروباری مفادات کو بڑھانے کے لیے ایک آلہ کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

جسٹس رمنا نےکہا کہ، دیگر کاروباری مفادات والا میڈیا ہاؤس بیرونی دباؤ کے تئیں حساس  ہو جاتا ہے اور اکثر کاروبای مفادات آزاد صحافت کے جذبے پر حاوی ہو جاتے  ہیں، جس کی وجہ سے جمہوریت سے سمجھوتہ ہوجاتا ہے۔

سی جے آئی  گلاب چند کوٹھاری کی کتاب ‘دی گیتا وگیان اپنشد’ کے رسم اجرا کے موقع پر بول  رہے تھے۔ پروگرام کی صدارت لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے کی۔

گزشتہ ہفتے بھی سی جے آئی  نے اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ میڈیا کے ذریعے ‘ایجنڈا پر مبنی مباحثے’  اور ‘کنگارو کورٹ’ چلائے جا رہے ہیں، جو جمہوریت کے لیے مضر ہیں۔

جسٹس رمنا نے منگل کو کہا، جب  کسی میڈیا ہاؤس کے دوسرے کاروباری  مفادات ہوتے ہیں، تو وہ بیرونی دباؤکے تئیں حساس  ہوجاتا ہے۔ اکثر تجارتی مفادات آزاد صحافت کے جذبے پر حاوی ہو جاتے  ہیں۔ نتیجے کے طور پر جمہوریت سے سمجھوتہ ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا، صحافی عوام کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں۔ حقائق کو پیش کرنا میڈیا گھرانوں  کی ذمہ داری ہے۔ خاص طور پر ہندوستانی سماجی منظر نامے میں لوگ اب بھی مانتے ہیں کہ جو کچھ بھی چھپتا ہے وہ سچ ہے۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میڈیا اپنے اثر و رسوخ اور تجارتی مفادات کو بڑھانے کے لیے صحافت کو بطور ہتھیار استعمال کیے بغیر خود کو ایماندارانہ صحافت تک ہی  محدود رکھنا چاہیے۔

انہوں نے یادکیاکہ تجارتی مفادات کے بغیر بھی میڈیا ہاؤس ایمرجنسی کے سیاہ دنوں میں جمہوریت کے لیے لڑنے کے قابل تھے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، انہوں نے کہا مجھے یقین ہے کہ آج کے میڈیا میں ایسے صحافی موجود ہیں جو اتنے ہی پرجوش ہیں۔ لیکن جوکھم مول لینے اور بہت محنت اور توانائی صرف کرنے کے بعد  ایک صحافی کی فائل کی گئی شاندار رپورٹ کو ڈیسک پر کنارے لگا دیا جاتاہے۔ یہ ایک سچے صحافی کی حوصلہ شکنی ہے۔ آپ اس پر الزام نہیں لگا سکتے۔ اگر انہیں بار بار ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اس پیشے سے اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔

سی جے آئی  نے کہا کہ ،جب ہندوستان میں صحافیوں کے لیےمنظم حمایت  کی بات آتی ہے تو اس معاملے میں ابھی بھی ایک بڑی کمی نظر آتی ہے۔

اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ہندوستان میں ابھی تک پولٹزر ایوارڈ  کے برابر کوئی ایوارڈنہیں ہے اور نہ ہی  ہم زیادہ پولٹزر جیتنے والے صحافی پیداکرتے ہیں، انہوں نے اپیل کی کہ اسٹیک ہولڈرز کو اپنا جائزہ لینا چاہیےکہ ہمارے معیارات بین الاقوامی شناخت اور تعریف کے لیے کیوں کافی  نہیں مانے  جاتے ہیں۔

سی جے آئی نے یہ بھی کہا، اپنی  زبانوں کو وہ عزت دے کر جس کی وہ مستحق ہیں اور نوجوانوں کو ایسی زبانوں میں سیکھنے اور سوچنے کی ترغیب دے کر قوم کو نئی بلندیوں تک لے جانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستانی زبانوں کو فروغ دینا ان کے دل کے بے حد قریب ہے۔

سی جے آئی نے کہا، ہندوستانی زبانوں کو فروغ دینا میرے دل کے بہت قریب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اپنی زبانوں کو وہ عزت دے کر جس کی وہ مستحق ہیں اور نوجوانوں کو ایسی زبانیں سیکھنے اور سوچنے کی ترغیب دے کر ہم قوم کو نئی بلندیوں تک لے جانے میں مدد کر سکتے ہیں۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)