فکر و نظر

مہنگائی پر بحث: اپوزیشن اور وزیر خزانہ سیب کا موازنہ سنترے سے کر رہے ہیں

آرگنائزڈ سیکٹر کی کارکردگی کی بنیاد پر معیشت کی ہمہ گیر اور جامع بحالی کا دعویٰ انتہائی گمراہ کن ہے۔

(علامتی تصویر: رائٹرس)

(علامتی تصویر: رائٹرس)

پچھلے ہفتے پارلیامنٹ میں معیشت پر ایک بحث  کواپوزیشن نے کمر توڑ مہنگائی،روزافزوں بے روزگاری اور حقیقی آمدنی میں گراوٹ پر مرکوز رکھا، جبکہ وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن کا کہنا تھا کہ جی ڈی پی گروتھ  پٹری پر واپس آ رہی ہے۔ اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر انہوں نے جی ایس ٹی کے ریونیو میں 28 فیصد اضافے کا حوالہ دیا۔ یہ دعویٰ کرنے کے لیے کہ معیشت کسی بھی طرح سے کساد بازاری میں نہیں جا رہی ہے  سیتا رمن نے مینوفیکچرنگ کے لیے پرچز مینیجرز انڈیکس میں اضافے کا بھی حوالہ دیا۔

صاف ہے کہ اپوزیشن پارٹی اور وزیر خزانہ معیشت کو دو بالکل مختلف نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کو اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی (افراط زر)اور کئی دہائیوں میں روزگار کی بدترین صورتحال (نمو)  کی دوہری مار کا سامنا ہے۔ بہر حال، معیشت کا آرگنائزڈسیکٹر کسی حد تک ترقی کی بحالی کےآثار دکھا رہا ہے، جسے جی ایس ٹی میں زیادہ ترقی اور مثبت پی ایم آئی انڈیکس کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک طرح سے دیکھیں تووزیرکے بیان اور اپوزیشن کے دعوے میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ آخرجاب لیس گروتھ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ہندوستان جاب لیس گروتھ اور لگاتار بنی ہوئی مہنگائی (افراط زر) سے دوچار ہے – جس کے نتیجے میں گھرانوں کی اکثریت کی حقیقی آمدنی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کئی مستند سروے اس بات کو ظاہر کر چکے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی معیشت کی حالت ہندوستان کے بالکل برعکس نظر آرہی ہے۔ نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ (این بی ای آر) — جس کی شہرت ایک انتہائی باوقار غیر منافع بخش تحقیقی ادارے کے طور پر ہے اور جس کا ڈیٹا تمام اقتصادی شراکت داروں کے نزدیک تسلیم شدہ بنچ مارک ہے — بہت وسیع پیمانے پر کساد بازاری کا اندازہ لگاتا ہے۔

اگرچہ،امریکہ میں دو حالیہ  سہ ماہی (جنوری اور جون) کی اقتصادی ترقی منفی رہی ہے، لیکن این بی ای آرکا کہنا ہے کہ روزگار میں اضافے کے مضبوط اعداد و شمار اور گھریلو حقیقی آمدنی کے مضبوط اعداد و شمار کے لحاظ سے دیکھیں تو امریکہ کساد بازاری کا شکار نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اس وقت ان ممالک میں شامل ہے جہاں بے روزگاری کی شرح سب سے کم ہے، بھلے ہی  اس کی جی ڈی پی کی شرح نمو منفی ہے۔

این بی ای آر کساد بازاری کی پیمائش کے طور پر مسلسل دو سہ ماہی کے لیے منفی جی ڈی پی نمو کی یک جہتی تعریف پر عمل نہیں کرتا ہے۔

دی اکانومسٹ نے حال ہی میں لکھا ہے کہ این بی ای آر نے 2000 کی دہائی کے اوائل میں بے روزگاری کی بلند شرح اور حقیقی آمدنی میں گراوٹ  کی بنیاد پرامریکہ میں  کساد بازاری کا اعلان کیا تھا، جبکہ اس وقت حقیقی جی ڈی پی کی شرح  نمو مثبت تھی۔

یعنی اگر ہم روزگار میں اضافے اور حقیقی آمدنی کے این بی ای آر کے وسیع پیمانے پر دیکھیں تو اپوزیشن جماعتوں کا معیشت کے خاتمے کا دعویٰ زیادہ مضبوط نظر آتا ہے۔ کئی معتبر تحقیقی اداروں کے مطابق عالمی وبا کے بعد سب سے نچلے 70 فیصد لوگوں کی حقیقی آمدنی میں اضافہ رک گیا ہے۔ یہ اصل کساد بازاری ہے۔

حکمراں جماعت نے بھی نوجوانوں کی بے روزگاری کو سب سے زیادہ تشویشناک مسئلہ تسلیم کیا ہے۔ اگنی پتھ تنازعہ نے ہندوستان میں نوجوانوں کی بے روزگاری کے حل نہ ہونے والے مسئلے کو انتہائی خوفناک انداز میں سامنے لانے کا کام کیا ہے۔

وزیر خزانہ کا پارلیامنٹ میں کیا گیا یہ دعویٰ درست ہو سکتا ہے کہ ہندوستان کی جی ڈی پی کی ترقی کے مسلسل مثبت رہنے کے لیے آرگنائزڈ سیکٹر بنیادی طور پر ذمہ دار ہے۔ لیکن اس بات سے مطمئن ہو جانا بہت بڑی غلطی ہو گی۔ امریکہ اپنی معیشت اور اپنے لوگوں کی حالت کا اندازہ جس این بی ای آر فریم ورک کے حساب سے کرتا ہے، اگر ہندوستان کی وزارت خزانہ اس کا مطالعہ کرتی تو اچھا ہوتا۔

اگر نریندر مودی حکومت اس قواعد کے بارے میں سنجیدہ ہے تو اسے سب سے پہلے اس حقیقت کو تسلیم کرنا شروع کر دینا چاہیے کہ ہندوستان  کے ان آرگنائزڈ سیکٹراورانفارمل سیکٹر 2016 میں کی گئی  نوٹ بندی سے شروع ہوکر یکے بعد دیگرےکئی حملوں سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

ناقص طریقے سے تیار کیے گئے  اور نافذ کیے گئے  جی ایس ٹی نے ان آرگنائزڈ سیکٹر کو اس طرح سے اپنی زد میں لیا  کہ ان کے بازار پر اسٹاک ایکسچینج میں درج آرگنائزڈ سیکٹرکی بڑی کمپنیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ یہ فٹ ویئر(جوتے–چیل)، فوڈ پروسیسنگ اور ٹیکسٹائل جیسے کئی  صارفی شعبوں میں ہوا۔ تعمیرات ان آرگنائزڈ سیکٹر کے تمام غیر منظم کھلاڑی  ناپید ہو چکے ہیں۔ اس نے روزگار کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے، کیونکہ رہائشی تعمیر سب سے بڑے آجروں میں سے ایک ہے۔

کووڈ-19 لاک ڈاؤن کے دوران ان آرگنائزڈ سیکٹر کو اور زیادہ نقصان پہنچا، جس کے نتیجے میں ریورس  مائیگریشن کے ذریعے گاؤں کی طرف لوگوں کی مستقل واپسی ہوئی۔ اس کی تصدیق مانگ پر مبنی منریگا روزگارمیں زبردست اضافے سے ہوتا ہے۔

اس دوران  سیلف امپلائمنٹ میں بھی بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ کل روزگار میں لگے افرادی قوت کا تقریباً 53 فیصد ہو گیا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس 53 فیصد میں سے تقریباً 30 فیصد گھریلو انٹرپرائز میں بلا معاوضہ کارکن ہیں۔

یہ اسٹرکچرل مسائل ہیں، اور اگر کسی کو روزگار اور حقیقی آمدنی کی عینک سے روزگار کی صحت کے بارے میں سچ مچ جاننا ہے، جیسا کہ این بی ای آر امریکہ میں کرتا ہے، تو ان کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک نقطہ کے بعد صرف آرگنائزڈ سیکٹر کی کارکردگی کی بنیاد پر معیشت کے تمام شعبوں میں بہتری کا دعویٰ انتہائی گمراہ کن ہے۔

آرگنائزڈ سیکٹر کی ویلیو ایڈ میں ایک نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے، لیکن ٹھیک اسی وقت معیشت کا اندرونی حصہ کساد بازاری کی زد میں ہوسکتا ہے، جس کی نمائندگی ان آرگنائزڈ سیکٹر کرتے ہیں۔

جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ لگانے کے ہمارے طریقہ کار میں سب سے سنگین غلطی یہ ہے کہ ہم آرگنائزڈ سیکٹر کی ترقی کو ان آرگنائزڈ سیکٹر کی ترقی بھی سمجھ لیتے  ہیں، جو کہ  90 فیصد افرادی قوت کو ملازمت دیتا ہے۔ اس پر توجہ نہ دینا مسئلہ سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔

(اس مضمون  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)