فکر و نظر

کیا نیو انڈیا میں ہونے والے آزادی کے جشن میں جواہر لعل نہرو کی کوئی جگہ نہیں ہے

ہندوستان کی آزادی کے 75 سال کا جشن منانے کے لیے جاری ‘آزادی کے امرت مہوتسو’ کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں ملک کے موجودہ اور واحد ‘محبوب لیڈر’ کا ہی تذکرہ کیا جا رہا ہے اور ان ہی کی تصویریں نظر آ رہی ہیں۔

نیشنل ہیرالڈ بلڈنگ میں ای ڈی کے ذریعے سیل کیے گئے 'ینگ انڈیا' کے دفتر میں جواہر لعل نہرو کی تصویر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نیشنل ہیرالڈ بلڈنگ میں ای ڈی کے ذریعے سیل کیے گئے ‘ینگ انڈیا’ کے دفتر میں جواہر لعل نہرو کی تصویر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

چودہ  اگست 1947 کی آدھی رات کو ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہرلعل نہرو نے پارلیامنٹ میں کھڑے ہو کر ایک تقریرکی تھی، جو بذات خود  مثال بن گئی۔ ایک ایسی تقریر جو آج بھی پڑھنے –سننے والے ہر شخص کا رُواں کھڑے کرنے کی   صلاحیت رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ،بہت سال پہلے ہم نے تقدیر سے معاہدہ کیا تھا اور آج وہ وقت آگیا ہے جب ہم اپنے عزم  کی تکمیل کریں، بالکلیہ نہیں بہت  حد تک ۔ جب گھڑی آدھی رات کا اشارہ کرے گی، جب پوری دنیا سو رہی ہوگی، ہندوستان جاگے گااپنی زندگی کے لیے، آزادی کے لیے۔

آج 75 سال کے بعدپورے ملک میں  حکومت کی طرف سےلازمی’آزادی کے امرت مہوتسو’ کا پروگرام پورے جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے اور لوگ اپنی کھڑکیوں سے ترنگا (پولیسٹر کا) لہرا رہے ہیں، نہرو اپنی غیر موجودگی کے درمیان بھی الگ سے دکھائی دے رہے ہیں۔ نہ صرف ان کے نام اور تصویرکوتمام سرکاری ذرائع ابلاغ سے ہٹا دیا گیا ہے، بلکہ ہمیں نیشنل ہیرالڈ، جو اخبار انھوں نے شروع کیا تھا، جس کے دفاتر کو ای ڈی نے عارضی طور پر سیل کر دیا ہے، میں ان کی تصویر کو زنجیروں کے پیچھے دکھائی دیتی ہے۔

اس شخصیت کو مزید اہم بناتے ہوئے ای ڈی نے گھنٹوں تک ان کے وارثین سے پوچھ گچھ کی، ان کو دہلی پولیس نے احتجاجی مظاہروں  سے زبردستی اٹھایا اور سونیا گاندھی کے گھر کے باہر پولیس والوں کی ایک بڑی نفری تعینات کی گئی۔

اگر نریندر مودی حکومت یہ کہنا چاہتی تھی کہ نہرو-گاندھی خاندان کے لوگوں کی اب کوئی اہمیت نہیں ہے اور جواہر لعل نہرو  بذات خود اس سے بھی کم اہمیت رکھتے ہیں، تو جہاں تک سنگھ کے علمبرداروں  کی بات ہے، وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہیرالڈ کی سیلنگ اور راہل اور پرینکا گاندھی کے ساتھ غیر مہذب سلوک سنگھی ذہن کے سب سے زیادہ مسخ شدہ تصور کو پورا کرتے ہیں، جہاں نہرو سے لے کر اب تک کی نسل کے ساتھ دھوکہ دہی کا افسانہ مضبوطی سے درج کیا گیاہے، باقی اس کے بارے میں تاریخ کیا کہتی ہے، اس سے  ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اور ان پر حملہ کرنے کا اس سے بہتر  طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ مودی حکومت کے برہماسترا–ای ڈی کو استعمال کیا جائے۔ اس ایجنسی کا استعمال سرکار اور بی جے پی کے سیاسی دشمنوں کے خلاف آزادانہ طور پر کیا گیا–مہاراشٹر میں سنجے راوت کے خلاف ، جو ان دونوں کے شدید نکتہ چیں ہیں، مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کے ایک وزیر اور بھتیجے کے خلاف اور قومی سطح پر گاندھی خاندان  کے خلاف، جو ذاتی طور پر مودی اور ان کی حکومت پر حملہ کرتے ر ہے ہیں۔ سی بی آئی پنجرے میں بند طوطا ہو سکتی ہے، لیکن ای ڈی، کم از کم فی الحال  تو ایک گائیڈیڈمیزائل ہے جس کو  بار بار حکومت کو تکلیف میں مبتلا کرنے یا پریشان کرنے والوں کے پیچھے بھیجا جا رہا ہے۔

مایاوتی کو تین سال قبل اس وقت خاموش کرا دیا گیا تھا جب ای ڈی نے ‘میموریل گھوٹالے’ کی تحقیقات شروع کی تھی، لیکن گاندھی خاندان سخت جان لگتے  ہیں اور مودی کے خلاف بول رہے ہیں۔ پولیس والوں سے گھری ہوئی پرینکا گاندھی نعرہ لگاتی ہیں – جب جب  مودی ڈرتا ہے، پولیس کو آگے کرتا ہے۔ اس سےٹھیس تو لگتی  ہوگی۔ اب یہ بات یقینی ہے کہ وہ آزادی کے 75ویں سال کے موقع پر ہونے والی کسی تقریب میں انہیں مدعو کیے جانےکی امید بھی نہیں کر سکتے۔

یہ ‘اہمیت’ اب صرف دو چیزوں تک سمٹ کر رہ گئی ہے، ملک کے ‘محبوب رہنما’ اور ان کے نام نہاد عظیم کارناموں کی جئے جئے کار  اور جھنڈہ پھہرانا۔ اوپر سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ ہر گھر کے سامنے ترنگا لگا ہونا چاہیےتاکہ ملک ایک رہے اور جو لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، وہ اپنی ڈسپلے پکچر (ڈی پی )میں ترنگا لگائیں۔ ترنگے کی یہ تصویر اور مودی کے اقوال کو ایک خصوصی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کیے جا سکتے  ہیں، جس کے لیے مقام اور رابطہ نمبر جیسی ذاتی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے مطابق ایسا کرنے کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔

لیکن آزادی کے امرت مہوتسو کے نام پر اور اپنی حب الوطنی دکھانے کے لیے کیا اپنا ڈیٹا کسی اور سرکاری ادارے کو نہیں دیا جا سکتا! یہ بات تو کب  کی ختم ہوچکی ہے؟

اس سے قطع نظر المیہ یہ ہےکہ مودی جس تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے  آتے ہیں، اس   نےآزادی کی جدوجہد میں حصہ نہیں لیا اور اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس نے اب تک ترنگے کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ آج  مودی اپنے ہم وطنوں کو جوش و خروش کے ساتھ ترنگا لہرانے کو کہہ رہے ہیں، جبکہ آر ایس ایس نے 52 سال تک یہ ترنگا نہیں لہرایا۔ سنگھ کے آباؤ اجداد کو ترنگے کے رنگوں پر ہی اعتراض تھا کیونکہ یہ ملک کے تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔ آر ایس ایس کے مطابق، قومی پرچم میں صرف زعفرانی (بھگوا) رنگ  ہونا چاہیے نہ کہ سبز رنگ جس کو  وہ ناپسند کرتے ہیں۔

مودی کی کئی  تصویروں کے علاوہ امرت مہوتسو کی ویب سائٹ پر بہت سی سرگرمیاں درج  کی گئی  ہیں – رنگولی مقابلہ، ‘ان سنگ  ہیروز’ کی کہانیاں اور مودی کی بہت سی تصویریں  اور اقوال۔ اسی طرح ‘ہر گھر ترنگا’ والا نیا گیت 75 سالوں میں ہندوستان کی حصولیابیوں کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ اس میں حکومت کے پسندیدہ موضوعات – یوگا، بڑے مجسمے نصب کرنے(شیوا اور ولبھ بھائی پٹیل کے)، سوچھ بھارت اور موجودہ وزیر اعظم کی تصویروں کو شامل کیا گیا ہے۔اس کی طرز ‘ملے سر میرا تمہارا‘ والی ہی  ہے – جو ظاہر کرتی ہے کہ ماضی سے چھٹکارا پانا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔

لیکن اس حب الوطنی کے جوش میں ویب سائٹ پر نہرو کے بارے میں کچھ بھی تلاش کرپانا مشکل ہے۔ انہیں غائب کر دیا گیا ہے، بالکل اسی طرح جیسے پرانے سوویت یونین میں ناپسندیدہ رہنماؤں کو تصویروں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ جہاں تک نریندر مودی اور ان کی حکومت کا تعلق ہے، تو ان کے لیے جواہر لعل نہرو کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔

ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے، نہرو کا ‘زنجیروں کے پیچھے جانا’، گاندھی  بھائی–بہن کے خلاف پولیس کی کارروائی  اور سونیا گاندھی کی علامتی نظربندی کے حقیقی معنی سمجھ میں آتے ہیں۔ گاندھی خاندان کی موجودگی موجودہ وزیر اعظم کے لیے تکلیف دہ ہے۔ لیکن وہ انہیں ہٹا نہیں سکتے۔ اور جہاں تک نہرو کا تعلق ہے، ان کی شاندار ‘ٹرسٹ وی ڈیسٹنی’ تقریر اس امرت مہوتسو سے کہیں اور آگے آنے والے کئی سالوں تک ہندوستانیوں کو متاثر کرتی رہے گی۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)