فکر و نظر

بلقیس کے مجرموں کی رہائی ساورکر کے نظریے کی پیروی ہے

ساورکر نے اپنی کتاب ‘6 گورو شالی ادھیائے ‘ میں ریپ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر جائز ٹھہرایا تھا۔ آزاد ہونے کے بعد ایک مجرم نے کہابھی کہ ان کو ان کے سیاسی نظریے کی وجہ سے سزا دی گئی۔ وہ  شاید یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ انھوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، صرف ساورکر کے سیاسی نظریے کی پیروی کی تھی ۔

بلقیس اپنی بیٹی کے ساتھ۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

بلقیس اپنی بیٹی کے ساتھ۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

یہ ٹھیک ہی تھا کہ گجرات حکومت نے ہندوستان کی آزادی کی 75 ویں سالگرہ  ان 11 مجرموں کو جیل سے آزاد کرکےمنائی جنہوں نے 2002 میں بلقیس بانو اور دیگر خواتین کے ساتھ گینگ ریپ کیا تھا اور بلقیس کی 3 سالہ بچی  صالحہ کو مارڈالا تھا۔

یہ سب آزاد ہونے کے ہی مستحق تھے، کیونکہ آخر کار انہوں نے مسلمان عورتوں کے ساتھ ریپ کیا تھااور مسلمانوں کو قتل کیا تھا، جیسا کہ ویر ساورکرکی خواہش تھی۔ اس کو جرم کیسے کہا جا سکتا ہے؟ یہ ساورکر کے مطابق ایک سیاسی یا نظریاتی کارروائی تھی۔

حکومتوں نے اس سال کسی بھی دوسرے سال سےزیادہ ساورکر کو ہندوستان کی آزادی کے ایک بڑے ہیرو کے طور پر پیش کیا تھا۔ ان کا نظریہ آج کے ہندوستان کا سرکاری نظریہ ہے۔ ویر ساورکر نے اپنی کتاب ‘6 گورو شالی ادھیائے ‘ میں ریپ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر جائز ٹھہرایا تھا۔

آزاد ہونے کے بعد ایک مجرم نے کہا بھی کہ ان کو ان کے سیاسی نظریے کی وجہ سے سزا دی گئی۔ وہ  شاید یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہوں کہ انھوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا، صرف ساورکر کے سیاسی نظریے کی پیروی کی تھی ۔

اخبار کے مطابق، ریپ اور قتل کے وقت وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن تھے، ساورکر جس پارٹی کےنظریاتی گرووں میں سے ایک ہیں۔ ان کے نظریہ کے مطابق مسلمانوں کا قتل اور مسلمان عورتوں کا ریپ جائز ہے اور ایسا کیا جانا چاہیے تاکہ وہ ہندوؤں کے ساتھ ایسا نہ کرپائیں۔

مسلمانوں کے قاتلوں اور ریپ  کرنے والوں کی جیل سے رہائی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومتوں کے ذریعے منائے جارہے امرت مہوتسو کا مطلب واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے۔ یہ امرت کس کے لیے ہے اور کس کے لیےزہرہے؟

یہ کوئی المیہ نہیں  ہےکہ ان مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی جو وجوہات بتائی گئی ہیں ان میں ایک  جرم کی نوعیت بھی ہے! جس جرم کو آپ گھناؤنا، ناقابل معافی کہیں گے، اس کوگجرات کے حکام اور پھر گجرات حکومت نے ان مجرموں کو آزادی کا امرت دان دینے لائق مانا۔

خبرہے کہ سزا میں یہ غیر معمولی چھوٹ پنچ محل کی جیل ایڈوائزری کمیٹی کے متفقہ فیصلے کے بعد ریاستی حکومت کی منظوری سے دی گئی۔ ضلع کلکٹر کی سربراہی والی اس کمیٹی میں 8 ارکان تھے۔ اس کمیٹی میں جیل، پولیس، مقامی عدلیہ، محکمہ سماجی بہبود کے افسران کے علاوہ دو عوامی نمائندے بھی شامل تھے۔ ان دونوں کا تعلق بی جے پی سے ہے اس لیے ان کے نظریے کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن باقی 6 افسران بھی 15 اگست کے موقع پر اس رہائی کے حق میں تھے۔

اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ساورکر کا نظریہ کس قدر غیر مرئی  اور فطری ہو گیا ہے۔ ہم اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان میں سے اکثریت ریپسٹ کو پھانسی دینے کا نعرہ بلند کرے گی۔ ہمارے ملک میں قتل کو اتنا بڑا جرم نہیں سمجھا جاتا جتنا ریپ کو۔ پھر کیوں  اس کمیٹی کے ارکان نے آزادی کے 75ویں سال پر ان کےساتھ  اس فیاضی کا مظاہرہ کیا ہوگا؟

یہ 11 ریپسٹ اور قاتل اس گینگ کا حصہ تھے جس نے 3 مارچ 2002 کو 17 مسلمانوں کو گھیر کر ان پر حملہ کیا۔ بلقیس اور اس کے خاندان کے یہ17 لوگ گجرات کے داہود ضلع میں اپنے گاؤں رادھیکاپور سے جان بچانے کو بھاگے تھے۔ وہ ان پرتشدد کے خوف سے بھاگے کیونکہ ایک دن پہلے گودھرا اسٹیشن کے قریب سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبےمیں آگ لگنے اور 56 افراد کے جل کر مر جانے کے بعد مسلمانوں پر حملےشروع ہوگئے تھے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ گجرات میں مسلمانوں کے خلاف تشدد گودھرا کا ردعمل تھا وہ نہیں جانتے کہ بلقیس اور اس کے خاندان کے خوف کی ٹھوس وجہ تھی۔ گزشتہ بقرعیدمیں  ان کے گاؤں میں مسلمانوں پر حملے ہوئے تھے۔ انہیں بجا طور پر خدشہ تھا کہ ان پر دوبارہ حملہ کیا جائے گا۔

بھاگتے ہوئے 3 مارچ کو وہ چھپرواڑ گاؤں پہنچے جہاں انہیں لاٹھی، درانتی، کلہاڑی اور تلوار لیے ہوئے ایک گروہ نے گھیر لیا۔ اس گروہ نے بلقیس اور تین خواتین کے ساتھ گینگ ریپ کیا۔ بلقیس کی 3 سالہ بیٹی صالحہ کا سر پٹک کر کے اس کو مارڈالا اور خاندان کے 14 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ ان میں سے 6 کی لاشیں بھی نہیں مل سکیں۔

بے ہوش بلقیس بچ گئی۔ ایک آدی واسی  عورت نے اسے اپنا جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑا دیا۔ ایک ہوم گارڈ کی مدد سے وہ لمکھیڑا پولیس اسٹیشن پہنچی۔ اس نے رپورٹ لکھوانے کی کوشش کی۔ لیکن جیسا کہ بعد میں سی بی آئی نے لکھا – ہیڈ کانسٹبل سوم بھائی گوری نے حقائق کو دبایا، انہیں توڑ مروڑ کر درج کیا اور آدھی ادھوری رپورٹ لکھی۔

جب بلقیس گودھرا ریلیف کیمپ پہنچی اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے اس کے معاملے کو ہاتھ میں لیا تو انصاف کے لیے وہ  لڑائی شروع ہوئی،  جس میں گجرات پولیس نے ہر ممکن رکاوٹ پیدا کی اور بار بار تحقیقات  بند کرنے کے لیے رپورٹ داخل کی ۔

وہ وقت دوسرا تھا۔ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن میں انسان اور حقوق دونوں کے احساس زندہ تھے۔ گجرات کی سرکاری مشینری نے بلقیس کے مجرموں کو بچانے کی پوری کوشش کی۔ لیکن پھر سپریم کورٹ میں بھی انصاف کی بالادستی اور اس کو یقینی بنانے کی اپنی ذمہ داری کا احساس تھا، اس لیے دیگر کئی مقدمات کی طرح اسے بھی گجرات سے مہاراشٹر منتقل کرنے کا حکم دیا گیا۔ ملزم بلقیس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔

چھ سال کی سخت جدوجہد کے بعد بلقیس کو انصاف ملا۔ ان 6 سالوں میں اسے اور اس کے شوہر کو بار بار شہر بدلنا پڑا۔ رو پوش ہو کر زندگی گزارنی پڑی۔ ملک بھر میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسےانصاف ملنے تک زندہ رکھنے کے لیے چھپا کر رکھا۔

یہ کہانی خوفناک  ہے اور اس ملک کے لیے شرمناک بھی۔ 2008 میں سی بی آئی کی عدالت نے 11 ملزمین کو گینگ  ریپ اور قتل کے جرم کے لیے عمر قید کی سزا سنائی۔ بعد میں بامبے ہائی کورٹ نے اس سزا کو برقرار رکھا۔

اس جرم کے 17 سال بعد سپریم کورٹ نے بلقیس کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی تلافی کے لیے گجرات حکومت کو 50 لاکھ روپے، مکان اور نوکری کا معاوضہ دینے کا حکم دیا۔ یہ جرم کی سنگینی کے مدنظر کیا گیا۔ پھر یہ سنجیدگی کا احساس غائب کیوں ہو گیا؟ گجرات کے حکام اور حکومت یہ کیوں نہیں جان سکے کہ بلقیس اور اس کا خاندان ان کی رہائی سے کتنا غیر محفوظ ہو جائے گا؟

کیوں ریاست بلقیس کی طرف سے  نہ سوچ سکی۔ کچھ اخبارات اس بات پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں کہ گجرات حکومت نے خواتین کو عزت دینے کے وزیر اعظم کے مشورے کے خلاف کام کیا ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ جو آج وزیر اعظم ہیں ، وہ بلقیس کی انصاف کی جدوجہد کے دوران گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کی پولیس بلقیس کے ساتھ ہوئےجرم کی تفتیش بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔

ان کےوزیر اعلیٰ رہتے ہوئےگجرات میں بلقیس محفوظ نہیں تھی۔ اس لیے اسے بار بار ریاست اور جگہ بدلنی پڑی۔ انصاف کے لیے لڑنے والی بلقیس نامی خاتون کے لیے گجرات محفوظ نہیں تھا۔ کیس کو ریاست سے باہر لے جانا پڑا۔ اخبارات یہ سوال نہیں کر سکے  کہ آج کے مبلغ نے تمام وسائل ہونے کے باوجود بلقیس کو اس کی جدوجہد میں تنہا کیوں چھوڑ دیا تھا؟

کیوں، کیوں، کیوں؟ کیوں اس وزیر اعلیٰ کی قیادت میں بلقیس بانو غیر محفوظ تھی؟ کیا یہ سوال صرف ذکیہ جعفری کو کرنا ہے؟ اور کیوں 20 سال تک یہ سوال کر پانے کے لیے ذکیہ کے ساتھ کھڑے ہونے کی وجہ سے تیستا کو جیل میں رہنا ہے؟

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)