فکر و نظر

مسلمان وزیر جو کبھی میڈیا کے ڈارلنگ ہوا کرتے تھے اب صرف ان کی یادیں رہ گئی ہیں …

آزادی کے بعد پہلی بار وزیر اعظم نریندر مودی کی 77  رکنی کابینہ میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔

(علامتی تصویر،فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر،فوٹو: پی ٹی آئی)

آزادی کے بعد سے ہندوستان  میں ہمیشہ سے ہی مرکزی کابینہ میں ایک یا دو اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ مسلمان وزیر ہوتے تھے۔لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

چونکہ میں نے دارالحکومت میں ایک دہائی سے زائد عرصہ سے سیاسی گلیاروں کو بطور صحافی کور کیا ہے، اندر کی بات بتاؤں کہ چاہے کوئی بھی حکومت ہو، یہ مسلم وزیر میڈیا کے ڈارلنگ ہوتے تھے۔ کیونکہ دیگر وزراءکے برعکس وہ صحافیوں کا کچھ زیادہ ہی خیال رکھتے تھے اور اکثر اوقات کابینہ کی خبریں وغیرہ کےلیے سورس کا بھی کام کرتے تھے۔

ایک وجہ ان کی میڈیا کے ساتھ دوستی کی شاید یہ بھی تھی کہ عوامی لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے ان کا صحافیوں کے ساتھ مراسم رکھنا اور ان کے ذریعے خبروں میں رہنا ضروری ہوتا تھا۔ ان کی مقبولیت کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ چاہے بھارتیہ جنتا پارٹی کے شاہنواز حسین، سکندر بخت، مختار عباس نقوی ہوں یا کانگریس کے سلمان خورشید، جعفر شریف، سی ایم ابراہیم، عبدالرحمان انتولے یا دیگر مسلم وزراء  ان کی میزبانی کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔

 عید کے موقعوں پر شاہنواز حسین کی پرتکلف بریانی اور سلمان خورشید کے بنگلہ پر ہر سال بہرائچ سے آئے آموں کی دعوت کا تو نہ صرف صحافیوں کو بلکہ دہلی کے سوشل سرکلز کو انتظار رہتا تھا۔اسی طرح جعفر شریف جب ریلوے کے وزیر تھے، ان کی افطار پارٹیاں تو مثالی ہوتی تھیں۔ بس مسلمان وزراء میں جو خاص طور پر کشمیر سے آتے تھے، چاہے غلام نبی آزاد، سیف الدین سوز، ڈاکٹر فاروق عبداللہ یا ان کے فرزند عمر عبداللہ کے ساتھ شکایت تھی کہ ان کا ہاتھ تنگ رہتا تھا اور وہ دیگر مسلم وزراء کی طرح فیاضی کا مظاہر ہ نہیں کرتے تھے اور ایک خول میں رہتے تھے۔ جس طرح دیگر مسلم وزراء سخاوت میں مشہور تھے، کشمیر کے ان وزراء نے دہلی میں  کنجوسی میں نام کمایا تھا۔ بس مفتی محمد سعید ہر سال کشمیر وازوان چند چنندہ صحافیوں کو کھلاتے تھے۔ عام میڈیا سے وہ بھی دور ہی رہتے تھے۔

مگر اب یہ پارٹیاں اور مسلم وزراءکے ساتھ ملاقاتیں دہلی کے سوشل سرکل میں یادگار اور خواب ہی رہ گئی ہیں۔آزادی کے بعد پہلی بار وزیر اعظم نریندر مودی کی 77  رکنی کابینہ میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔


یہ بھی پڑھیں:  ہندوستانی وزارتوں اور اداروں میں ختم ہو رہی مسلم نمائندگی


بی جے پی کے آخری مسلم چہرے مختار عباس نقوی کی بطور ممبر پارلیامنٹ مدت ختم ہونے کے بعد ان کو وزرات سے حال ہی میں استعفیٰ دینا پڑا۔ گو کہ ملک میں ایک اندازے کے مطابق مسلمانوں کی آبادی دوسو ملین سے زائد ہے، وزارت میں ان کی نمائندگی نہ ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ ہندوستان آجکل کس صورت حال سے دوچار ہے۔ مسلمانوں کو اس حد تک کنارے لگایا جاچکا ہے کہ ان کی نمائندگی کی کوئی ضروت ہی محسوس نہیں ہوتی ہے۔

آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہونے کے باوجود پارلیامنٹ میں ان کی نمائندگی مَحض 5 فیصد ہی ہے۔

جب نقوی کی میعاد ختم ہو رہی تھی، سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ شاید وہ دوبارہ راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہو جائیں گے۔ جب ان کو راجیہ سبھا کےلیے دوبارہ منتخب نہیں کیا گیا تو بتایا گیا کہ ان کو صدر یا نائب صدر کے عہدے کےلیے تیار کیا جا رہا ہے، تاکہ حالیہ عرصے میں ملک میں مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے پر بیرون ملک، خاص طور پر عرب ممالک میں جس طرح مودی حکومت کو خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کی بھر پائی ہو سکے۔

خیر ہندوستانی پارلیامنٹ کے حکمران بنچوں پر اب کوئی مسلم آواز نہیں ہے۔ یہ صرف دہلی کے پاور گلیاروں کا حال نہیں ہے، بلکہ پچھلے آٹھ سالوں سے صوبوں میں بھی مسلم نمائندگی کم ہو رہی ہے۔  بی جے پی کی حکومت والے 16 صوبوں میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ صرف اتر پردیش جہاں کل آبادی کا 19.26 فیصد مسلمان ہیں ایک مسلم وزیر ہے۔

ملک میں سب سے زیادہ اسمبلی سیٹیں اتر پردیش میں ہیں اور ایک دہائی پہلے تک اتر پردیش میں تمام سیکولر سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی فائدے کے لیے مسلمانوں کو نمائندگی دیتی تھیں۔ ہندوستان میں صوبائی اسمبلیوں میں کل 4121 نشستیں ہیں۔ ان میں صرف 236 مسلمانوں اراکین ہیں۔

ہندوستان کے 28 صوبوں میں اس وقت 530 وزراء ہیں اور ان میں صرف 19 مسلمان ہیں۔ 75 سالوں میں ہندوستان کی سیاسی ذہنیت نے بہت طویل سفر کیا  ہے اور کئی کارنامے بھی انجام بھی دیے ہیں۔ مگر سوال ہے کہ کیا دو سو ملین افراد کو پس پشت ڈال کر اور ان کو ہیجان میں مبتلا رکھ کر اور ان کو کسمپرسی کا احساس دلا کر ملک کو ایک سپر پاور بنانے کا خواب پورا ہوسکتا ہے؟

خیر بطور ایک صحافی کے مجھ سمیت کئی صحافیوں کو شاہنواز حسین کا جشن عید، نقوی کا محرم کے موقع پر تقریب کا اہتمام کرنا اور سلمان خورشید کے گھر پر آموں کی دعوت یاد آتی رہےگی۔ میری تو یہی آرزو ہے کہ کب پرانا ہندوستان واپس لوٹ آئےگا، جو تکثیری معاشرہ کا آئینہ دار تھا۔

اس لیے میں آج کل فلم انمول رتن کےلیے شیلیند کا گانا گنگناتے رہتی ہوں؛

او میرے خوابوں کے محل، میرے سپنوں کے نگر

آج میں ڈھونڈوں کہا، کھو گئے جانے کدھر

کوئی لوٹا دے

میرے بیتے ہوئے دن

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)