خبریں

’میرا دکھ صرف اپنے لیے نہیں ہے بلکہ ان تمام عورتوں کے لیے ہے جو عدالتوں میں انصاف کے لیے لڑ رہی ہیں‘

بلقیس بانو کی وکیل کی طرف سے جاری ایک بیان میں انہوں نے گجرات حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کے فیصلے کو واپس لے اور انہیں بلا خوف  وخطر امن و امان کےساتھ رہنے کا حق واپس دے۔ انہوں نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ  کیا ایک عورت کو ملے انصاف کا انجام  یہی ہے؟

بلقیس بانو۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

بلقیس بانو۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: گجرات میں 2002 میں گودھرا کے واقعہ بعد کے فسادات میں گینگ ریپ کا شکار بنی اور اپنی  بچی سمیت خاندان کے کئی افراد کو کھودینے والی بلقیس بانو نے کہا ہے کہ اس کیس میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی وجہ سے انصاف پر سے ان کا اعتماد ٹوٹ  گیا ہے۔

بلقیس بانو نے گجرات حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس فیصلے کو واپس لے اور بلا خوف و خطرامن وامان  کےساتھ ان کے جینے کا حق واپس کرے۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سوموار کو ملک کے 76ویں یوم آزادی کے موقع پر گجرات حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت بلقیس بانو کے گینگ ریپ  اور ان کی بچی سمیت ان کے خاندان کے 7 افراد کے قتل کے معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تمام 11 قیدیوں کو رہا کرنے کی منظوری دی تھی۔ جس کے بعد ان سب کواسی  دن گودھرا کی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔

بلقیس بانو کی وکیل شوبھا نے ان کی جانب سے ایک بیان جاری کیا ہے۔

بیان میں بانو نے کہا کہ دو دن پہلے 15 اگست 2022 کو اس وقت مجھ پر جیسے بیس سالوں  کا صدمہ پھر سے قہر  بن کر ٹوٹ پڑا جب میں نے سنا کہ میرے خاندان اور میری زندگی کو برباد کرنے والے، مجھ سے میری تین سالہ بچی  کوچھیننے والے 11  مجرموں کو رہا کر دیا گیا ہے اور وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔

بانو نے کہا یہ سننے کے بعد میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں سن ہو گئی  ہوں اور خاموش سی پڑ گئی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ  وہ صرف اتنا ہی کہہ سکتی ہیں،کیا ایک عورت کو دیے انصاف کا انجام یہی ہے؟

انہوں نے مزید کہا، میں نے اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر بھروسہ کیا۔ میں نے سسٹم پر بھروسہ کیا اور میں آہستہ آہستہ اپنے صدمے کے ساتھ جینا سیکھ رہی تھی۔ مجرموں کی رہائی نے میرا چین وسکون چھین لیا ہے اور عدالتی نظام سے میرا اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، میرا دکھ اور متزلزل اعتماد صرف میرے لیے نہیں، بلکہ ان تمام خواتین کے لیے ہے جو آج انصاف کے لیے عدالتوں میں لڑ رہی ہیں۔

سرکار کےاس قدم کی تنقید کرتے ہوئے بلقیس نے کہا کہ اتنا بڑا اور غیر منصفانہ فیصلہ لینے سے پہلے کسی نے ان کی حفاظت اور بھلائی کے بارے میں نہیں سوچا۔

بلقیس بانو نے مجرموں کی رہائی کے بعدریاستی حکومت سے ان کی اور ان کے خاندان کی حفاظت کو یقینی بنائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا، میں گجرات حکومت سے اس فیصلے کو واپس لینے کی اپیل کرتی ہوں۔ مجھے بلا خوف  و خطر امن وامان کے ساتھ جینے کا حق لوٹایا جائے۔ میری اور میرے خاندان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔

بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل  کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔

بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف  اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت  کرناہے۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔