خبریں

بلقیس معاملے میں سزا سنانے والے جج نے مجرموں کی رہائی پر کہا – اب فیصلہ حکومت کو کرنا ہے

پندرہ  اگست کو گجرات کی بی جے پی حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزاکاٹ رہے11 مجرموں کو رہا کر دیا تھا۔

بلقیس بانو۔ (تصویر: رائٹرس)

بلقیس بانو۔ (تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان  کے خاندان  کے سات افراد کے قتل کے  لیے 2008میں 11 لوگوں کو عمر قید کی سزا سنانے والے ریٹائرڈ جسٹس یو ڈی سالوی نے جمعرات کو کہا ، جو مظلوم ہے، وہ اس کو بہتر جانتا ہے۔

ممبئی کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے 21 جنوری 2008 کو ان 11 لوگوں کو اس معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ان 11 لوگوں کی سزا کو بمبئی ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

گزشتہ 15 اگست کو گجرات کی بی جے پی حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت عمر قید کی سزا کاٹ رہے ان  تمام 11 مجرموں کی رہائی کو منظوری دی تھی ، جس کے بعد ان سب کو اسی دن گودھرا کی جیل سے رہا کر دیا گیا۔

سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں ریپ  اور قتل کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے  ان لوگوں  کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا جا رہا ہے۔ جس پر کارکنوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔

سال 2008 میں مقدمے کی صدارت کرتے ہوئے ممبئی سٹی سول اینڈ سیشن کورٹ کے اس وقت کے خصوصی جج جسٹس سالوی نے بلقیس کے بیان کو’جرأت مندانہ’ قرار دیتے ہوئے ان ملزمین  کو مجرم قرار دیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کے ساتھ بات چیت میں جسٹس سالوی نے کہا، (ملزمین کی رہائی کے بارے میں) میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اس طرح کے رہنما خطوط ہیں۔ ریاست خود یہ رہنما اصول طے کرتی ہے۔ اس پر بھی سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔

مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو کو خدشہ تھا کہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، اس کے ساتھ ہی سی بی آئی کے ذریعےجمع کیے گئے شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاسکتی  ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست  2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا تھا۔ اس کیس کے شواہد بشمول گواہوں کے بیانات ہزاروں صفحات پر مشتمل تھے۔

جسٹس سالوی نے کہا، فیصلہ بہت پہلے دے دیا گیا تھا۔ اب یہ حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ فیصلہ ریاست کو کرنا ہے۔ یہ درست ہے یا نہیں، یہ متعلقہ عدالت یا ہائی کورٹ کو دیکھنا ہے۔

بہرحال گجرات حکومت کے اس فیصلے پر وائبس آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے بلقیس نے کہا تھا، یہ سال 2022 ہے لیکن میں وہی خوف، عدم تحفظ اور ناامیدی محسوس کر رہی ہوں جیسا 2002 میں محسوس کر رہی  تھی۔ اچانک ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ بدلا ہی نہیں  ہے۔ یہ 2002 جیسا ہی لگ رہا ہے۔

سال 2002 میں پیش آئے اس  واقعے کے لیے طویل قانونی جنگ لڑنے والی بلقیس نے کہا تھا کہ اب ان میں صبر ہے نہ ہمت۔ انہوں  نے کہا، میں بہت مایوس ہوں۔ ہم ہار گئے۔

انہوں نے مزید کہا، آزادی کا دن ہمارے لیے بری خبر لے کر آیا۔ میری آزادی، حقوق، تحفظ سب چھین لیے گئے۔ میرا ہر چیز سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ اب آپ کو لگتا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی میری مدد کر سکتا ہے؟ ہاں، میں اپنی لڑائی  ہار چکی  ہوں۔

قصورواروں کو رہا کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کی اپوزیشن جماعتوں سمیت سماجی اور شہری حقوق کے کارکنوں نے مذمت کی ہے۔

خواتین اور انسانی حقوق پر کام کرنے والے سماجی کارکنوں سمیت 6 ہزار سے زائد شہریوں نے سپریم کورٹ سے ان 11 افراد کی سزا کی معافی کو رد کرنے کی ہدایت دینے کی اپیل کی ہے۔

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔

بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل  کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔

بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف  اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت  کرناہے۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔