خبریں

نیویارک: رشدی کی حمایت میں دوستوں اور قلمکاروں نے ریلی کا اہتمام کیا

برطانوی مصنف سلمان رشدی پر حملے کے ایک ہفتے بعدجمعہ کو ان  کی حمایت اور اظہار رائے کی آزادی کے سلسلے میں  ان کے خیالات کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیےان کے دوستوں اور ہمعصر قلمکاروں نے  نیویارک پبلک لائبریری میں’دی سیٹنک ورسز’ اور ان کی دیگر تخلیقات کی پڑھنت کا اہتمام کیا۔

19 اگست کو نیویارک پبلک لائبریری میں سلمان رشدی کی حمایت میں جمع ہوئے لوگ۔ (تصویر: رائٹرس)

19 اگست کو نیویارک پبلک لائبریری میں سلمان رشدی کی حمایت میں جمع ہوئے لوگ۔ (تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: جمعہ 19 اگست کوبرطانوی مصنف سلمان رشدی پرحملے کے ایک ہفتہ بعدان  کے دوست اور قلمکار نیویارک کی پبلک لائبریری میں جمع ہوئے اور اظہار کی آزادی کے سلسلے  میں ان کے خیالات کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ان کی تخلیقات کی پڑھنت کا اہتمام کیا۔

ادبی گروپ پین امریکہ، رشدی کے پبلشر پینگوئن رینڈم ہاؤس، نیویارک پبلک لائبریری اور ہاؤس آف اسپیک ایزی نے جمعہ کو اس خصوصی یکجہتی پروگرام ‘اسٹینڈ ود سلمان: ڈیفنڈ دی فریڈم ٹو رائٹ’ کا اہتمام کیا۔ اس تقریب میں رشدی کی حمایت میں ہمعصر قلمکار، کارکن اور دوستوں نے شرکت کی۔

ٹینا براؤن، کرن دیسائی، ہری کنزرو، اینڈریا ایلیٹ، پال آسٹر، آصف مانڈوی اور ریجنالڈ ڈوین بیٹس سمیت دوسرےادیبوں، تخلیق کاروں، فنکاروں اور ادبی برادری کے متعدد لوگوں نے رشدی کی بعض  مشہور ترین تخلیقات کی پڑھنت کا اہتمام کیا اور رشدی کی جلد صحت یابی کی تمنا کی۔

ڈی ڈبلیو کے مطابق، مصنفین نے نیویارک پبلک لائبریری کی سیڑھیوں پر بیٹھ کررشدی کے ناول، مضامین اور تقاریر کے ساتھ ساتھ’سٹینک ورسز’  کے بعض اقتباسات بھی پڑھے۔

‘پین امریکہ’نے اس تقریب کے ذریعے کہا کہ دنیا بھر کےمصنفین رشدی کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور ‘اظہاررائے کی آزادی’ اور دنیا بھر میں خطرے سے دوچار مصنفین کی حالت زار پر ان کے خیالات کی حمایت کرتے ہیں۔

پین امریکہ کی سی ای او سوزین نوسل نے تقریب کے آغاز میں کہا کہ ،رشدی ہمیشہ سے لفظوں کے چیمپین رہے ہیں اور ان مصنفین کے بھی، جن پر ان کے کام کو مبینہ جرم مان کر حملہ کیا گیا۔

رشدی پین امریکہ کے صدر رہ چکے ہیں۔

پینگوئن رینڈم ہاؤس کے سی ای او مارکس ڈوہلے نے ایک بیان میں کہا،رشدی کی آواز اور ان کے ادبی کام اظہار رائے کی آزادی کا اہم ترین حوالہ  ہیں اور ان پر حملہ تشددکا ایک خوفناک، اورغیر معقول فعل ہے۔

اس دوران ان کے بیٹے ظفر رشدی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ انہیں وہاں رشدی کی حمایت جمع ہونے والے ہجوم کو دیکھ کر اچھا لگا۔

سلمان رشدی کے حملہ آور نے بتایا کہ اس نے سٹینک ورسز مکمل نہیں پڑھی، صرف چند صفحات پڑھے ہیں: رپورٹ

سلمان رشدی۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

سلمان رشدی۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

دریں اثنابکر پرائز سے سرفراز سلمان رشدی پر نیویارک میں حملے کے ملزم 24 سالہ ہادی مطر نے اپنے خلاف قتل اور حملہ کے الزامات سے انکار کیا ہے۔ ہادی مطر کو اس وقت امریکی ریاست نیویارک کی ایک کاؤنٹی جیل میں رکھا گیا ہے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جیل سے مطر نے ‘نیو یارک پوسٹ‘ سے ہوئی ایک بات چیت کے دوران  کہا کہ وہ حیران ہیں کہ اس حملے میں سلمان زندہ میں بچ گئے۔

اس نے کہا کہ جب انہیں گزشتہ موسم سرما میں ایک ٹوئٹ سے معلوم ہوا کہ مصنف شیتوقوا انسٹی ٹیوٹ میں آنے والے ہیں ، تو اس نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ مطر نے کہا، مجھے یہ  شخص پسند نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ بہت اچھا انسان ہے۔

واضح ہو کہ مطر نے جمعہ 12 اگست کو مغربی نیویارک کے شیتوقوا انسٹی ٹیوٹ میں ایک تقریب کے دوران انگریزی زبان کے معروف  قلمکار سلمان رشدی پر حملہ کیا تھا۔ اس نے رشدی کی گردن اور پیٹ میں چاقو مارا تھا۔

ممبئی میں پیدا ہوئے اور بکر پرائز سے سرفراز 75 سالہ رشدی کو 1988 میں آئی ان کی کتاب ‘دی سٹینک ورسز’ لکھنے کے بعد برسوں تک اسلامی انتہا پسندوں کی جانب سے موت کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور طویل عرصے تک  روپوش ہوکر زندگی گزارنی پڑی تھی۔

دنیا بھر میں کئی  مسلمانوں کا خیال ہے کہ رشدی نے اس کتاب کے ذریعے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے۔

نیویارک پوسٹ سے بات کرتے ہوئے مطر نے کہا کہ انہوں نے سٹینک ورسز  کو مکمل نہیں پڑھا، صرف ایک دو صفحات پڑھے ہیں۔

اس کتاب کے حوالے سے ایران کے اس وقت کے سپریم مذہبی رہنما آیت اللہ روح اللہ خامنہ ای نے رشدی کو سزائے موت دینے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ ایران نے رشدی کو قتل کرنے والے کے لیے 30 لاکھ ڈالر سے زیادہ کا انعام دینے کی بھی  پیش کش  کی تھی۔

مطر نے کہا کہ وہ خامنہ ای کو’بہت اچھا انسان’ سمجھتے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں کہیں گے کہ وہ  1989 میں ایران میں خامنہ ای کے جاری کردہ کسی فتوے پر عمل کر رہے تھے۔

ایران نے حملے میں کسی بھی طرح سے ملوث ہونے کی بات کی تردید کی ہے۔ نیو جرسی کے فیئر ویو میں رہنے والے مطر نے کہا کہ اس کا ایران کے’ریولشنری گارڈ’ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مطر نے یہ بھی کہا کہ وہ رشدی کو پسند نہیں کرتے۔ اس نے کہا، میں انہیں پسند نہیں کرتا۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ اچھے  انسان ہیں۔ مجھے  وہ  پسند نہیں ہیں۔ انہوں نے اسلام پر حملہ کیا ہے، اس کے عقیدے پر حملہ کیا ہے۔

مطر نے یہ بھی بتایا کہ وہ حملے سے ایک دن پہلے بس کے ذریعے بفیلو پہنچا تھا اور پھر ٹیکسی کے ذریعے شیتوقوا گیا۔ اس نے بتایا کہ اس نے شیتوقوا انسٹی ٹیوٹ میں داخلے کے لیے ایک پاس خریدا اور رشدی کے لیکچر سے پہلے والی  رات  باہر گھاس پر سو یا۔

مطر امریکہ میں پیدا ہواہے ،لیکن اس کے پاس  دوہری شہریت ہے۔ وہ لبنان کا بھی شہری ہے، جہاں اس کے والدین پیدا ہوئے تھے۔

اس ہفتے کے شروع میں اس کی والدہ سلوانا فردوس نے کہا کہ وہ  اسے بے دخل کرچکی ہیں اور وہ اس سےعاجز آچکی تھیں۔

انہوں  نے یہ بھی بتایا تھا کہ مطر 2018 میں اپنے والد سے ملنے لبنان گیا تھا اور اس کے بعد سے اس کا رویہ بدل گیا۔ انہوں نے کہا کہ تب سے مطر اپنے خاندان سے لاتعلق تھا۔

قابل ذکر ہے کہ اس حملے میں سلمان رشدی شدید طور پرزخمی ہوئے تھے اور انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا۔ تاہم، اس ہفتے ان  کے اہل خانہ نے اطلاع دی کہ ان کی حالت میں بہتری آئی ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)