خبریں

راجستھان: لنچنگ پر بی جے پی کے سابق ایم ایل اے نےکہا – ’پانچ کو تو ہم نے مارا ہے‘، کیس درج

راجستھان کی الور پولیس کے مطابق، یہ مقدمہ بی جے پی کے سابق ایم ایل اے گیان دیو آہوجہ کے ضلع کے گووند گڑھ میں چرنجی لال سینی کے اہل خانہ سے ملاقات کے بعد وائرل ہونے والے ویڈیو کی بنیاد پر درج کیا گیا ہے۔ سینی کو مبینہ طور پر میو مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے ٹریکٹر چوری کے شبہ میں مارا پیٹاتھا، جس کے بعد اس کی موت ہوگئی تھی۔

بی جے پی کے سابق ایم ایل اے گیان دیو آہوجہ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

بی جے پی کے سابق ایم ایل اے گیان دیو آہوجہ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: ‘لنچنگ’ پر اپنے بیان کی وجہ سے تنازعات میں پھنسے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور راجستھان کے سابق ایم ایل اے گیان دیو آہوجہ کے خلاف راجستھان کی الور پولیس نےمقدمہ درج کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں آہوجہ کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ انہوں نے گائے کی اسمگلنگ کے معاملے میں ‘اب تک پانچ لوگوں کو پیٹ پیٹ کرقتل’ کیا ہے۔

گووند گڑھ کے ایس ایچ او شیوشنکر کے مطابق، 45 سالہ چرنجی لال سینی کے اہل خانہ سے ملاقات کے بعد وائرل ہونے والے ویڈیو کی بنیاد پر آہوجہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ چرنجی لال سینی کو مبینہ طور پرمیو مسلمانوں نےٹریکٹر چوری کے شبہ میں جمعہ (19 اگست) کو پیٹا تھا۔

الور کی ایس پی تیجسونی گوتم نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ موقع پر موجود ایک بیٹ کانسٹبل کی شکایت پر گیان دیو آہوجہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ آئی پی سی کی دفعہ 153 اے (مختلف گروپوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا اور خیر سگالی کے خلاف کام کرنا) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ تفتیش کے دوران اضافی دفعات شامل کی جا سکتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو جمعہ کا ہے، جب آہوجہ گووند گڑھ میں سینی کے اہل خانہ سے ملنے گئے تھے۔ 14 اگست کو کچھ لوگوں نے ٹریکٹر چوری کے شبہ میں سبزی فروش چرنجی لال کو بری طرح سے پیٹا تھا، جس کی بعد میں علاج کے دوران اس  کی موت ہو گئی تھی۔ پولیس نے اس معاملے میں کئی ملزمین کو گرفتار کیا ہے۔

یہ ویڈیو سنیچر کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا، جس میں آہوجہ گووند گڑھ میں ایک تقریب میں بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔

ویڈیو میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ،سب لوگ بیٹھے ہیں گووند گڑھ کے، تحریک شروع کی جانی چاہیے، زبردست چلانا چاہیے۔بیچ میں ایک دوسرا شخص کہتا ہے، بڑی تحریک کرنے سے ہی دباؤ بنے گا اور یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔

ویڈیو میں، آہوجہ اپنے پاس بیٹھے ایک شخص سے کہہ رہے ہیں، پنڈت جی، اب تک تو پانچ  ہم نے مار ے ہیں۔ لال ونڈی میں مارا، چاہے بہروڑ میں مارا، چاہے (جگہ غیر واضح) میں مارا ، اب تک تو پانچ ہم نے مار ے ہیں۔ اس علاقے میں یہ پہلی بار ہے کہ انہوں نے مارا ہے۔

آہوجہ کہتے ہیں، میں نے کارکنوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ ماروسا*** کو، جوگئوکشی یا گائے کی اسمگلنگ کرتا ملے ۔ بری بھی کروائیں گے، ضمانت بھی کروائیں گے۔ تحریک چلانے کے لیے روڈ میپ بنانا پڑتا ہے۔

آہوجہ کے ویڈیو میں لال ونڈی اور بہروڑ کا حوالہ واضح طور پر 2018 میں رکبر اور 2017 میں پہلو خان کی لنچنگ کے تھے۔

بیان پر تنازعہ میں پھنسے بی جے پی لیڈر آہوجہ، کانگریس نے بنایا نشانہ

اپنے بیانات کی وجہ سے کئی بار تنازعات میں رہنے والے بی جے پی لیڈر گیان دیو آہوجہ ‘لنچنگ’ پر اپنے اس بیان کو لے کر سنیچر کو ایک بار پھر تنازعات میں گھر گئے۔ ریاست میں حکمراں کانگریس نے آہوجہ کے بیان پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو نشانہ بنایا اور کہا کہ اس سے پارٹی کا’شدت پسندی  والا اصلی’ چہرہ سامنے آگیا ہے۔

کانگریس کے ریاستی صدر گووند سنگھ ڈوتاسرا نے آہوجہ کا ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا، اب تک 5 ہم نے مارے… کارکنوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے… ضمانت ہم کروائیں گے… یہ الفاظ ہیں راجستھان بی جے پی کے ایگزیکٹو ممبر اور سابق ایم ایل اے گیان دیو آہوجہ کے۔

انہوں نے کہا، بی جے پی کی مذہبی دہشت اور تعصب کا  اور کیا ثبوت  چاہیے؟ پورے ملک میں بی جے پی کا اصلی چہرہ سامنے آ گیا ہے۔

وہیں جب رابطہ کیا گیا تو آہوجہ نے اپنے بیان پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ گائے کی اسمگلنگ اور گائے کے ذبیحہ میں ملوث کسی بھی شخص کو گائے سے محبت کرنے والے ہندو نہیں چھوڑیں گے۔

تاہم، بی جے پی نے آہوجہ کے ریمارکس سے خود کو الگ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں۔

آہوجہ کا ویڈیو سامنے آنے کے بعد کانگریس نے بی جے پی پر شدید طور پر حملہ کیا ہے۔ کانگریس کی ریاستی اکائی کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل نے ٹوئٹ کیا، بی جے پی کے سابق ایم ایل اے گیان دیو آہوجہ کا قبولنامہ سنیے… اب تک تو 5 ہم نے مارے ہیں۔

کانگریس نے الزام لگایا کہ ،پرتشدد واقعات کے سازش کرنے والے ریاست میں ہم آہنگی اور امن و امان کو بگاڑ کر کھلے عام فسادات بھڑکا رہے ہیں۔ راجستھان پولیس کو نوٹس لینا چاہیے اور کارروائی کرنی چاہیے۔

قابل ذکر ہے کہ حالیہ برسوں میں الور میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں،جہاں گائے کی اسمگلنگ کے الزام میں مبینہ گئو رکشکوں نےایک خاص برادری کے لوگوں پر حملہ کیا ہے۔ ایسے ہی ایک واقعے میں ایک اپریل 2017 کو بہروڑ میں 55 سالہ پہلو خان کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا تھا۔

اسی طرح ایک اور شخص رکبر (عرف اکبر) خان کو 20 جولائی 2018 کو الور کے رام گڑھ علاقے کے لال ونڈی گاؤں کے قریب کچھ لوگوں نے گائے کی اسمگلنگ کے شبہ میں روکا اور مارا پیٹا، جس سے ان کی موت ہوگئی تھی۔

متنازعہ ویڈیو کے بارے میں رابطہ کرنے پر آہوجہ نے کہا کہ وہ ایک مقامی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) لیڈر کے ساتھ بیٹھے تھے جنہوں نے چرنجی لال سینی کے قتل کے خلاف تحریک شروع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

بی جے پی لیڈر نے کہا، میں نے ان سے صرف اتنا کہا تھا کہ تحریک کے لیے حکمت عملی بنانا ہوگی۔ میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ گائے کی اسمگلنگ کرنے والے پانچ ‘میو’ مسلمانوںکو ہمارے کارکنوں نے پیٹا تھا۔ یہ ‘میو’ لوگ ہیں، جو گائے کی اسمگلنگ اور گائے کے ذبیحہ میں ملوث ہیں۔ ہندو چونکہ گائے کے لیے عقیدت رکھتے ہیں، اس لیے وہ ایسے اسمگلروں کو نشانہ بناتے ہیں۔

آہوجہ نے کہا کہ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کا دفاع کریں اور عدالت کو اس معاملے کا فیصلہ کرنا ہے۔

وہیں بی جے پی نے آہوجہ کے بیان سے خود کو الگ کرتے ہوئے اسے ان کی ذاتی رائے قرار دیا ہے۔ بی جے پی الور (جنوبی) کے صدر سنجے سنگھ نروکا نے کہا کہ سابق ایم ایل اے نے جو کچھ کہا وہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ انہوں نے کہا، یہ پارٹی کی سوچ نہیں ہے۔ یہ ان کے ذاتی خیالات ہیں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، چومو سے ایم ایل اے اور راجستھان بی جے پی کے چیف ترجمان رام لال شرما نے کہا، بی جے پی جمہوریت اور آئین میں یقین رکھتی ہے۔ وہ یہ نہیں مانتی کہ قانون کسی کے ہاتھ میں ہونا چاہیے اور اگر کوئی جرم کرتا ہے تو اسے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سزا ملنی چاہیے۔ گیان دیو جی نے جو کہا ہے وہ ان کا ذاتی تبصرہ ہے۔ انہوں نے یہ کس تناظر میں کہا، اس کی وضاحت وہی کر سکتے ہیں۔

سال 1998، 2008 اور 2013 میں تین بار ایم ایل اے رہنے والے آہوجہ ان مٹھی بھر سیاست دانوں میں ہیں جو متنازعہ ریمارکس کے لیے جانے جاتے ہیں اور جن کو بی جے پی نے ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آہوجہ کے معاملے میں اس وقت کی وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے نے بھی انہیں ٹکٹ دینے کی مخالفت کی تھی۔

اس کے بعد آہوجہ نے پارٹی چھوڑ دی  تھی اور آزاد امیدوار کے طور پر اپنی امیدواری  کا اعلان کیا تھا۔ 2018 میں بی جے پی کے ذریعےانہیں ریاستی یونٹ کا نائب صدر بنائے جانے کے بعد انہوں نے اپنی نامزدگی واپس لے لی تھی۔

حالیہ راجیہ سبھا انتخابات کے دوران آہوجہ نے پھر سے ٹکٹ مانگا تھا، لیکن پارٹی نے انکار کر دیا تھا۔

اپنی بڑی مونچھوں سے پہچانے جانے والے آہوجہ کا ایک ایم ایل اے کے طور پر آخری دور الور اور پڑوسی اضلاع میں گئو رکشکوں کے تشدد کے  واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ 2021 میں الور پولیس نے ان کے خلاف ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں مقدمہ درج کیا تھا۔

آہوجہ اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے خبروں میں رہتے ہیں۔ آہوجہ 2016 میں اس وقت سرخیوں میں آئے تھےجب انہوں نے کہا تھاکہ دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں 3000 کنڈوم، اسقاط حمل کی دوائیں اور سینکڑوں شراب کی بوتلیں برآمد ہوتی  ہیں۔

آہوجہ نے کہا تھا، 3000 بیئر کے کین اور بوتلیں، دیسی شراب کی  2000 بوتلیں،سگریٹ کے  10000بٹ،  بیڑیوں کے4000 ٹکڑے، ہڈیوں کے50000 بڑے اور چھوٹے ٹکڑے،چپس کے 2000 ریپر کے ساتھ جے این یو کیمپس میں روزانہ تین ہزار سے زیادہ استعمال شدہ کنڈوم ملتے  ہیں۔ اس کے علاوہ اسقاط حمل کے لیے استعمال ہونے والے 500 انجکشن بھی کیمپس میں ملتے  ہیں، جہاں ثقافتی پروگراموں میں لڑکیاں اور لڑکے برہنہ رقص کرتے ہیں۔

گائے کی اسمگلنگ کے بارے میں آہوجہ نے کہا تھا، گائے کے ذبیحہ میں ملوث لوگ اور اسمگلر  مارے جائیں گے۔ دسمبر 2017  میں انہوں یہ بیان مبینہ طور پرگئو تسکری کو لے کر جم کر پیٹے گئے ایک شخص کو لے کر دیا تھا۔انہوں نے کہا تھا،میر اتو  سیدھا سیدھا کہنا ہے کہ اگر تم گائے ذبح کرو گے یا گائے کی اسمگلنگ کرو گے، تو تم اسی طرح مرو گے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)