خبریں

ہاتھرس کیس: صحافی صدیق کپن کے ساتھ گرفتار کیب ڈرائیور کو ضمانت ملی

اکتوبر 2020 میں کیرالہ کے صحافی صدیق کپن دہلی کے کیب ڈرائیور محمد عالم کے ساتھ ہاتھرس گینگ ریپ کیس کی رپورٹنگ کے لیے ہاتھرس جا رہے تھے، جب  کپن کے ساتھ عالم کو بھی راستے سےگرفتار کر لیا گیا تھا۔

گرفتاری کے وقت پولیس کی حراست  میں محمد عالم (درمیان میں ) اور صدیق کپن (دائیں)۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

گرفتاری کے وقت پولیس کی حراست  میں محمد عالم (درمیان میں ) اور صدیق کپن (دائیں)۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ہاتھرس  کیس میں گرفتار شمالی دہلی کے کیب ڈرائیور محمد عالم کو گرفتاری کے تقریباً 23 ماہ  بعد الہ آباد کورٹ  سے 23 اگست کو ضمانت مل گئی۔

اس معاملے میں آٹھ ملزمین میں عالم پہلے ہیں، جن کو ضمانت ملی ہے۔ 5 اکتوبر 2020 کو عالم کو کیرالہ کے صحافی صدیق کپن اور عتیق الرحمن و مسعود اور مسلم طلبہ تنظیم کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی) کے دو کارکنوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔

تینوں افراد اتر پردیش کے ہاتھرس گاؤں جا رہے تھے جہاں کپن نے ایک دلت خاتون سے متعلق کیس کی رپورٹنگ کرنے کا منصوبہ بنایاتھا، جن کے ساتھ ٹھاکر ذات کے مردوں نے گینگ ریپ کرکے ان کاقتل کر دیا تھا۔

لکھنؤ بنچ نےیواے پی اے کے ملزم عالم کو منگل (23 اگست) کو ضمانت دے دی۔ 11 اگست کو عدالت کے سامنے بحث مکمل ہوگئی تھی اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

لائیو لاء کے مطابق، عدالت نے اس لیے ضمانت دی کیونکہ انہیں’ دہشت گردانہ سرگرمیوں یا کسی بھی طرح کی ملک مخالف سرگرمیوں میں درخواست گزار کی شمولیت کا ثبوت نہیں ملا۔’

عدالت نے ان کے کیس کو شریک ملزم کپن کے کیس سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ ‘کپن کے قبضے سے مبینہ طور پر قابل اعتراض سامان  برآمد ہوئے تھے، لیکن عالم کے قبضے سے ایسا کوئی سامان برآمد نہیں ہوا۔

عالم کی ضمانت ہونے کے بعد ان کی اہلیہ بشریٰ نے کہا ہے کہ ان کی دعائیں رنگ لائیں، وہ یہ خبر سننے کے لیے دو سال سے دعائیں مانگ رہی تھیں۔

بشریٰ نے کہا کہ جب وہ جیل میں عالم سے ملی تھیں تو وہ طبیعت اور جسمانی طور پربدل گئے تھے۔ ان کی ہنسی چھن چکی تھی،امیدیں  ختم ہوگئی  تھیں  اور انہوں نے  صورتحال کو قبول کر لیا تھا۔

گرفتاری کے وقت عالم پر سی آر پی سی کے تحت عوامی امن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا اور کچھ دنوں بعد ان پر اور ان کے تین مسافروں پر یو اے پی اے کے تحت دو الزام اور عائد کیے گئے تھے،ساتھ ہی  انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) اور آئی ٹی ایکٹ کے تحت بھی الزامات عائد کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔

دریں اثنا، یہ معاملہ کئی پولیس محکموں کے درمیان منتقل ہوتا رہا، جس  کی وجہ سے تحقیقات میں تاخیر ہوئی۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے عالم کے وکیل شیخ نے کہا کہ مقدمہ کے آغاز سے ہی ان کا موقف یہ تھا کہ عالم یوپی پولیس کی طرف سے لگائے گئے کسی بھی سازشی الزام سے وابستہ نہیں ہیں۔ وہ صرف ایک ٹیکسی ڈرائیور تھے اور اپنے سالے دانش کے علاوہ کسی بھی شریک ملزم کو نہیں جانتے تھے۔ دانش  نے ہی رحمان سے عالم کو ڈرائیور کے طور پر رکھنے کو کہا تھا اور ان کا پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی ) یا سی ایف آئی  سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

شیخ نے کہا، عالم عام ڈرائیوروں  کی طرح 2400 روپے کے کرایہ پر مسافروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ چھوڑنے جا رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ سماعت کے دوران استغاثہ نے سوال کیا تھا کہ کووڈ 19 لاک ڈاؤن کے دوران ٹیکسی خریدنے کے لیے عالم نے ڈھائی لاکھ روپے کیسے اکٹھے کیے؟

شیخ کہتے ہیں،کیب ان  کے رشتہ دار نے خریدی تھی، ان کے نام پر صرف معاہدہ تھا۔ عالم کے اکاؤنٹ میں اس وقت  صرف 17000 روپے تھے جس وقت ان کے لین دین پر سوال اٹھایا گیا۔

عالم کی ضمانت کے لیے وکیل کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی تھا کہ سماعت کے لیے عدالتیں بار بار تبدیل کی جا رہی تھیں۔ پہلے متھرا ، پھر لکھنؤکی خصوصی عدالت، جس کی وجہ سے وکیل کوپھرسے نئی عدالت میں اپنی عرضی لگانی پڑتی تھی۔ ان کے وکیل نے بتایا کہ اسی وجہ  سے عالم کی رہائی میں تاخیر ہوئی۔

شیخ نے یہ بھی بتایاکہ یو اے پی اے، خاص طور پر اس کی دفعہ 43(ڈی) 5بے حد سخت ہے اور اسی وجہ سے عالم کی ضمانت میں تاخیر ہوئی۔

شریک ملزمین  رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں

اس مہینے کے شروع میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے صدیق کپن کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی،انہیں یو اے پی اے اورسیڈیشن کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

وہیں ،کیس کے ایک اور ملزم رؤف شریف نے دو اگست کو پی ایم ایل اےکورٹ  سے درخواست کی تھی کہ انہیں جیل کے اندر سے ایم اے (سیاسیات) کا امتحان دینے کی اجازت دی جائے۔ عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے جیل حکام سے کہا تھا کہ وہ قواعد کے مطابق فیصلہ کریں۔ جس کے بعد جیل انتظامیہ نے کہا تھا کہ جیل مینوئل میں ایسا کوئی اہتمام نہیں ہے۔

اس کے بعد شریف نے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں عرضی داخل کی اور انہیں امتحان  دینے کی اجازت مل گئی تھی۔

(اس رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)