خبریں

غلام نبی آزاد نے کانگریس سے استعفیٰ دیا، کہا – تجربہ کار لیڈروں کو سائیڈ لائن کیا گیا

کانگریس صدر سونیا گاندھی کو لکھے گئے پانچ صفحات کے خط میں غلام نبی آزاد نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے راہل گاندھی کے سیاست میں آنے کے بعد سے تمام سینئر اور تجربہ کار لیڈروں کو سائیڈ لائن کیا گیا اور ناتجربہ کار چاپلوس لوگوں  کا ایک نیا حلقہ پارٹی کو چلانے لگا۔

غلام نبی آزاد۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

غلام نبی آزاد۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے جمعہ کو پارٹی کی بنیادی رکنیت سمیت تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔

کانگریس صدر سونیا گاندھی کو بھیجے گئے پانچ صفحات کے خط میں آزاد نے کہا کہ وہ یہ قدم’بھاری دل’ کے ساتھ اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘بھارت جوڑو یاترا’ سے پہلے ‘کانگریس جوجوڑویاترا’ نکالنی چاہیے تھی۔ آزاد نے کہا کہ پارٹی میں کسی بھی سطح پر انتخابات نہیں ہوئے۔

سینئر کانگریس لیڈر نے کہا کہ کانگریس لڑنے کی قوت ارادی سے محروم ہو چکی ہے۔

آزاد پارٹی کے ‘جی23’ گروپ کے اہم رکن رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کی انتخابی مہم کمیٹی کے سربراہ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیاتھا۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، آزاد نے پارٹی کی موجودہ مشاورتی مشنری کو ختم کرنے کے لیے پارٹی کے سابق نائب صدر راہل گاندھی کوبھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ،تمام سینئر اور تجربہ کار لیڈروں کو سائیڈ لائن کر دیا گیا اور ناتجربہ کار چاپلوس لوگوں  کا ایک نیا حلقہ پارٹی کو چلانے لگا۔

کانگریس صدر سونیا گاندھی کو لکھے ایک خط میں انہوں نے پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی اور مختلف عہدوں پر اپنی خدمات کے ساتھ ساتھ مختلف پیش رفتوں کے بارے میں جانکاری دی ہے۔

غلام نبی آزاد نے پارٹی میں اپنے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا، میں نے 1970 کی دہائی کے وسط میں جموں و کشمیر میں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی، یہ وہ وقت تھا جب اگست 1953 کے بعد سے ریاست کے ساتھ کانگریس کی عجیب وغریب تاریخ  کو دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ وابستہ ہوناممنوع سمجھا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا، زمانہ طالب علمی کے دوران مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد، سبھاش چندر بوس اور ہماری جدوجہد آزادی کی دیگر اہم شخصیات کے نظریات سے متاثر ہو کراور بعد میں آنجہانی شری سنجے گاندھی کی شخصی  گزارش  پر میں 1975-76 میں جموں و کشمیر یوتھ کانگریس کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے راضی ہوا تھا۔

انہوں نے کہا، اس سے پہلے کشمیر یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن مکمل کرنے کے بعدمیں 1973-1975 تک انڈین نیشنل کانگریس میں بلاک جنرل سکریٹری کے طور پر خدمات انجام دے رہا تھا۔

انہوں نے کہا، مجھے آنجہانی شریمتی اندرا گاندھی، آنجہانی شری راجیو گاندھی کی آنجہانی شری نرسمہا راؤ اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں 1982 سے 2014 تک مرکزی وزیر کے طور پر خدمات انجام دینے کاشرف حاصل ہوا۔

خط میں انہوں نے کہا کہ ،میں اس عظیم ادارے کے ساتھ اپنی زندگی بھر کی وابستگی کو نشان زد کرنے کے لیے ان تمام سالوں کی بے لوث خدمات کو بیان کر رہا ہوں۔ میں نے حال ہی میں 7 سال تک راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر بھی کام کیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اپنی صحت اور خاندان کی قیمت پر انڈین نیشنل کانگریس کی خدمت میں گزارا ہے، جبکہ بلاشبہ انڈین نیشنل کانگریس کی صدر کی حیثیت سے آپ نے (سونیا گاندھی) یو پی اے-1 اور یو پی اے -2 حکومتوں کی تشکیل میں  اہم کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا،تاہم، اس کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ پارٹی صدر کے طور پر آپ نے سینئر لیڈروں کے دانشمندانہ مشوروں کو ماننے کے علاوہ ان کے فیصلے پر بھروسہ کرنے  اور ان کو اختیارات دینے  کا کام کیا۔

آزاد نے مزید کہا، بدقسمتی سے راہل گاندھی کے سیاست میں آنے کے بعد اور خاص طور پر جنوری 2013 کے بعد جب آپ نے انہیں نائب صدر کے طور پر مقرر کیا، ان کے ذریعہ پہلے سے موجود تمام مشاورتی مشنری کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ تمام سینئر اور تجربہ کار لیڈروں کو سائیڈ لائن کر دیا گیا اور ناتجربہ کارچاپلوس لوگوں  کا ایک نیا حلقہ پارٹی کو چلانے لگا۔

آزاد نے کہا، اس سے بھی بری بات یہ ہے کہ یو پی اے حکومت کی ادارہ جاتی سالمیت کو تباہ کر نے والا ‘ریموٹ کنٹرول ماڈل’ اب  اب انڈین نیشنل کانگریس میں لاگو ہو گیا ہے۔ آپ (سونیا گاندھی) ایک برائے نام اعلیٰ لیڈر ہیں، تمام اہم فیصلے راہل گاندھی یا ان کے سیکورٹی گارڈ اورپی اے نے لیے۔

غلام نبی آزاد کا استعفیٰ کانگریس کے لیے بڑا جھٹکا: عمر عبداللہ

نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ نے جمعہ کے روز کانگریس سے غلام نبی آزاد کے استعفیٰ کو پارٹی کے لیے ایک بڑا جھٹکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اتنی پرانی پارٹی کے زوال کو دیکھنا ‘افسوسناک’ اور’خوفناک’ ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا، ایک طویل عرصے سے ایسی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ یہ کانگریس کے لیے بڑا جھٹکا ہے۔ وہ شاید حالیہ دنوں میں پارٹی چھوڑنے والے سب سے سینئر رہنما ہیں، ان کا استعفیٰ انتہائی افسوسناک ہے۔

عمر نے کہا، اتنی پرانی جماعت کا زوال  دیکھنا افسوسناک  ہوا اور خوفناک  ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)