خبریں

جسٹس یو یو للت نے ملک کے 49 ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف لیا

جسٹس یو یو للت دوسرے ایسے سی جے آئی ہیں جو بار سے ترقی پا کر سیدھے سپریم کورٹ پہنچے ہیں۔ تاہم ان کی مدت ملازمت تین ماہ سے کم  کی ہوگی۔ وہ 8 نومبر کو 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔

جسٹس یو یو للت نے بطور چیف جسٹس حلف لیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

جسٹس یو یو للت نے بطور چیف جسٹس حلف لیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سینئر ترین جسٹس ادے امیش للت نے سنیچر کو ہندوستان کے 49 ویں چیف جسٹس (سی جے آئی) کے طور پر حلف لیا۔

صدر دروپدی مرمو نے راشٹرپتی بھون میں منعقدہ ایک مختصر سی تقریب میں جسٹس للت کو حلف دلایا۔

جسٹس للت دوسرے ایسے سی جے آئی ہیں جوبار سے ترقی پاکرکر سیدھے سپریم کورٹ پہنچے ہیں۔ جسٹس ایس ایم سیکری 1964 میں بار سے براہ راست سپریم کورٹ پہنچنے والے پہلے سی جے آئی تھے۔ وہ جنوری 1971 میں 13ویں سی جے آئی  بنے تھے۔

جسٹس للت کی بطور چیف جسٹس مدت کار 74 دن  کی ہوگی۔ وہ اس سال 8 نومبر کو 65 سال کے ہونے پر ریٹائر ہو جائیں گے۔ جسٹس للت کے بعد سب سے سینئر جج جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اگلے چیف جسٹس ہو سکتے ہیں۔

جسٹس این وی رمنا نے 3 اگست کو وزارت قانون سے اس سلسلے میں ایک خط موصول ہونے کے بعد جسٹس للت کو اپنا جانشین مقرر کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔

اس تقریب میں نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ، وزیر اعظم نریندر مودی، سابق صدر رام ناتھ کووند، سابق نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو اور کرن رجیجو سمیت کئی مرکزی وزراء نے شرکت کی۔  جسٹس للت سے پہلے چیف جسٹس رہ چکے جسٹس این وی رمنابھی اس موقع پر موجود تھے۔

حلف لینے کے بعد جسٹس للت نے اپنے 90 سالہ والد اور بامبے ہائی کورٹ کے سابق جج امیش رنگناتھ للت اور خاندان کے دیگر بزرگوں کے پاؤں چھو کر ان کا آشیرواد لیا۔

جسٹس للت کئی تاریخی فیصلوں کا حصہ رہے ہیں، جن میں سے ایک میں ‘تین طلاق’ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔ وہ 13 اگست 2014 کو سپریم کورٹ کے جج مقرر ہونے سے پہلے ایک سینئر وکیل تھے۔

اس وقت کے چیف جسٹس جے ایس کھیہر اور جسٹس ایس عبدالنذیر فیصلے کو چھ ماہ تک مؤخر کرنے حق میں تھے اور حکومت کو اس معاملے میں قانون لانے کا مشورہ دے رہے تھے، لیکن جسٹس کورین جوزف، آر ایف نریمن اور جسٹس للت نے تین طلاق کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ جسٹس کھیہر، جسٹس جوزف اور جسٹس نریمن اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔

حال ہی میں، جسٹس للت کی سربراہی والی ایک بنچ معاملوں کی سماعت کے لیے عدالت عظمیٰ کے کام کی شروعات کے معمول کے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے صبح 9.30 بجےاکٹھی  ہوئی تھی۔

جسٹس للت نے تب کہا تھا، میرے خیال میں مثالی طور پر ہمیں صبح نو بجے بیٹھنا چاہیے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ اگر ہمارے بچے صبح سات بجے اسکول جا سکتے ہیں تو ہم نو بجے کیوں نہیں آ سکتے۔

جسٹس للت کی سربراہی والی بنچ نے 22 اگست کو امرپالی گروپ کے گھر خریداروں کے معاملے کی سماعت کے لیے 3 ستمبر (سنیچر) کو صبح 10.30 بجے سے دوپہر 1 بجے تک کا وقت مقرر کیا ہے، جبکہ سپریم کورٹ میں سنیچرکو کام  کاج نہیں ہوتا ہے۔

جسٹس رمنا کو الوداعیہ دینے کے لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کی طرف سے منعقد ایک تقریب میں جسٹس للت نے جمعہ کو کہا کہ ان کا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ عدالت عظمیٰ کا کردار واضح طور پر قانون بنانا اور ایسا کرنے کا سب سےاچھا طریقہ یہ ہے کہ جلد از جلد بڑے بنچ قائم کیے جائیں، تاکہ مسائل کو فوراً حل کیا جا سکے۔

جسٹس للت نے کہا تھا،اس لیے  ہم یہ کہنے کے لیے  کی کڑی محنت کریں گے کہ ہاں، ہمارے پاس کم از کم ایک آئینی بنچ ہے، جو سال بھر کام کرے گی۔

انہوں نے کہا تھا کہ جن شعبوں میں وہ کام کرنا چاہتے ہیں ان میں سے ایک آئینی بنچوں کے سامنے معاملات کودرج کرنا اور خاص طور پر تین ججوں کی بنچوں کو بھیجے گئے معاملات سے متعلق موضوعات ہیں۔

مقدمات کو درج کرنے کے معاملے پر انہوں نے کہا تھا،میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم مقدمات کی فہرست سازی کے عمل کو ہر ممکن حد تک آسان اور صاف  شفاف بنانے کے لیے سخت محنت کریں گے۔

انتہائی  اہم معاملوں  کا ذکر کرنے کے حوالے سے جسٹس للت نے کہا تھا کہ وہ اس پر ضرور غور کریں گے۔

انہوں نے کہا تھا، میں بنچ پر موجود اپنے تمام دانشور ساتھیوں سے بات کروں گا اور ہم یقینی طور پر بہت جلد اس کا حل نکال لیں گے۔ آپ کے پاس  ایک واضح نظام ہوگا، جہاں متعلقہ عدالتوں کے سامنے کسی بھی انتہائی اہم  معاملے کاآزادانہ طور پر ذکر کیا جا سکے گا۔

چیف جسٹس کے طور پر جسٹس للت کے دور میں کئی بشمول آئینی بنچ اہم معاملات سپریم کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے آنے کا امکان ہے۔

سپریم کورٹ نے حال ہی میں نوٹیفائی  کیا تھا کہ 29 اگست سے پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے درج 25 معاملات پر سماعت شروع کی جائے گی۔

جسٹس للت کئی اہم فیصلے دینے والی بنچ کا حصہ رہے ہیں

جسٹس للت 9 نومبر 1957 کو پیدا ہوئے ۔ انہوں نے جون 1983 میں بطور وکیل کام کرنا شروع کیا اور دسمبر 1985 تک بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت کی۔

بعد میں وہ قانون کی پریکٹس کرنے کے لیے دہلی چلے گئے اور اپریل 2004 میں انہیں سپریم کورٹ نے ایک سینئر وکیل کے طور پر نامزد کیا۔ قبل ازیں، انہیں 2جی اسپیکٹرم مختص کیس میں سماعت کے لیے سی بی آئی  کے خصوصی پبلک پراسیکیوٹر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔

انہیں 13 اگست 2014 کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا تھا۔

جسٹس للت ان بنچوں کا حصہ تھے جنہوں نے کئی تاریخی فیصلے سنائے ،جن  میں ‘تین طلاق’ کے عمل کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا گیا۔

ایک اور اہم فیصلے میں جسٹس للت کی سربراہی میں بنچ نے تراوانکور کے سابق شاہی خاندان کو کیرالہ کے تاریخی سری پدمنابھاسوامی مندر کی نگہداشت کا اختیار دیا تھا، جو کہ سب سے امیر مندروں میں سے ایک ہے، یہ مشاہدہ کرتے ہوئے کہ مندر کے ‘وراثت کے اصول کو سیوک کے حقوق سے جوڑا جانا چاہیے’۔

جسٹس یو یو للت کی سربراہی والی بنچ نے فیصلہ دیا تھا کہ جسم کے کسی جنسی حصے کو چھونا یا جنسی ارادے سے جسمانی رابطہ کا کوئی بھی  عمل پاکسو ایکٹ کی دفعہ7 کے تحت جنسی ہراسانی کے مترادف ہوگا۔

پاکستو ایکٹ کے تحت بامبے ہائی کورٹ کے متنازعہ ‘جلد سے جلد’ یا اسکین ٹو اسکین ٹچ کے فیصلے کو خارج  کرتے ہوئے بنچ نے کہا تھا کہ جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ (پاکسو) ایکٹ کے تحت بچوں کے خلاف جنسی زیادتی کے جرم کوبیان کرنےوالے اہتمام کو متاثرہ کے نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے اور اگر کوئی جنسی ارادہ موجود ہے، تو اس جرم کو ‘جلد سے جلد’ کے رابطے کے بغیر بھی جرم سمجھا جانا چاہیے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)