فکر و نظر

پاکستان میں سیلاب سے تباہی: قدرتی آفات کی پیشگی اطلاع کا کوئی نظم کیوں نہیں ہے…

سال 2014میں کشمیر کے سیلاب اور اس وقت پاکستان میں رونما تباہی یہ بتاتی ہے کہ سیاسی قضیہ یا دہشت گردی امن و امان کے لیے خطرہ تو ہیں، مگر قدرتی آفات اور ماحولیاتی تباہی کئی نسلوں کو متاثر کرتی ہے اور کسی دوسرے خطرے کے مقابلے انسانی جانوں کا کہیں زیادہ زیاں ہوتا ہے۔اس لیے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے اہم معاملے پر ہندوستان اور پاکستان کے سفارتی حلقوں میں خاطر خواہ دلچسپی کیوں نہیں لی جارہی ہے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

ویسے تو اس وقت شمالی ہندوستان کے کئی صوبے حتیٰ کہ راجستھان کے ریگزار بھی سیلاب کی لپیٹ میں ہیں، مگر پاکستان میں میں اس کی تباہ کاریوں نے ایک آفت مچا رکھی ہے۔ پانی کے ریلو ں کے ذریعے انسانی جانوں کے اتلاف کی اندوہناک خبریں،تباہ شدہ املاک اور وسیع تر اراضی پر فصلوں کے زیاں سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

گوکہ اس وقت ساری توجہ بچاؤ اور احت کی کارروائیوں پر مرکوز رہنی چاہیے تاہم یہاں یہ ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آخر اس طرح کے تباہ کن سیلاب کی پیشگی اطلاع کیوں نہیں دی گئی تھی؟ خلائی تحقیق سے بادل اور بارشوں کو برسنے سے روکا تو نہیں جاسکتا ہے، مگر اس کے ذریعے اس کی مقدار اور زور کا پیشگی ادراک کرکے پلاننگ کی جاسکتی تھی۔

پچھلے کچھ عرصہ سے، خاص طور پر 2004   میں تباہ کن سونامی کے بعدسے ساحلی علاقوں میں مانیٹرنگ سسٹم کی تعیناتی سے بڑی حد تک ہندوستان میں سمندری طوفانوں سے انسانی جانوں کو بچانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس پیشگی اطلاع کی وجہ سے 2019میں مشرقی صوبہ اڑیسہ میں نہایت ہی شدید سمندری طوفان ‘فانی’ سے ایک بڑی آبادی کو بچایا گیا۔

چونکہ 24گھنٹہ قبل ہی اس کی شدت کو ماپا گیا تھا، اس لیے اس دوران 1.2ملین افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا اور صرف 32جانوں کا زیاں ہوا۔ جبکہ 1999 میں اس سے کم شدت والے طوفان سے اسی علاقے میں دس ہزار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

سال 2016میں چین کے دورہ کے دوران  تبت اور اس سے متصل یون نان صوبہ کے دور دراز اور بلند و بالا شنگریلا پہاڑوں کے درمیان بستیوں کو دیکھے کا موقع ملا۔ یہ علاقے کتنے دور دراز ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مئی میں بھی کئی علاقوں میں برف باری ہورہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ دیہی علاقوں میں بس چند فٹ چوڑے چھوٹے ندی نالوں کے اوپرمخصوص فاصلوں پر لوہے کے بلند کھمبے پیوست ہیں اور ان کے اوپر سولر پینل، کیمرہ اور پرانے زمانے کے ٹی وی کے ایریل جیسے آلات لگے ہوئے ہیں۔ کیمرہ کا لینس پانی کے اوپر فوکس ہے۔

جب میں نے اپنی مترجم شان شون وو، جو بیجنگ سے ہی ہمارے ساتھ تھی، سے اس کے متعلق استفسار کیا، تو مقامی افسران اور آبادی سے معلوم کرنے پر اس نے بتایا کہ ان آلات سے پانی کے بہاؤ کو مانیٹر کیا جاتا ہے اور سینکڑوں میل دور لہاسہ اور کن منگ شہروں میں قائم مانیٹرنگ اسٹیشنوں کو براہ راست اس کا ڈیٹا موصول ہوتا رہتا ہے۔ کسی بھی دور دراز علاقے کے چھوٹے سے چھوٹے نالے میں بھی پانی کے غیر معمولی بہاؤ کو نوٹ کیا جاتا ہے اور نشیبی علاقوں کو اسی وقت متنبہ کیا جاتا ہے اور اسے قبل یہ کوئی تباہی مچا دے اس کا تدارک کیا جاتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2014 کو جب کشمیر کو سیلاب نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا، توبارش شروع ہونے سے صر ف دو روز قبل اس وقت وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی حکومت خطے کو خشک سالی سے متاثرہ قراردینے کے لیے کابینہ کے لیے ایک نوٹ (سمری) تیار کررہی تھی۔بعد میں بتایا گیا کہ کہ اس خطے کے دریاؤں پر سینٹرل واٹر کمیشن کا مانیٹرنگ سسٹم نصب نہیں ہے، اسی لیے سیلاب کی پیشگی اطلاع نہیں مل سکی۔ کیونکہ یہ دریا سینٹرل واٹر کمیشن کے بجائے انڈس واٹر کمیشن کے تابع ہیں اور وہی ان کی دیکھ بھال اور مانیٹرنگ کی ذمہ دار ہے۔

نئی دہلی میں جب افسران سے اس کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو ان کاٹکا سا جواب ہوتا ہے کہ چونکہ کشمیر کے دریاؤں جہلم، چناب اور سندھ کے پانی کا استعمال پاکستان میں کسان آب پاشی کے لیے کرتے ہیں  اور ہندوستان کو ان کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے اس لیے مانیٹرنگ کا میکانزم قائم کرنے یا ندیوں سے متعلق کسی دیگر امور میں سینٹرل واٹر کمیشن کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

سال 2014میں کشمیر کے سیلاب اور اس وقت پاکستان میں رونما ہوئی تباہی یہ بتاتی ہے کہ سیاسی قضیہ یا دہشت گردی امن و امان کے لیے خطرہ تو ہے، مگر قدرتی آفات اور ماحولیاتی تباہی کئی نسلوں کو متاثر کرتی ہے اور کسی دوسرے خطرے کے مقابلے انسانی جانوں کا کہیں زیادہ زیاں ہوتا ہے۔

اس لیے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے اہم معاملے پر ہندوستان اور پاکستان کے سفارتی حلقوں میں خاطر خواہ دلچسپی کیوں نہیں لی جارہی ہے۔ دونوں پڑسیوں کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ وہ سندھ طاس آبی معاہدہ سے آگے بڑھ کر کوئی پائیدار میکانزم وضح کریں تاکہ سرحدکے دونوں طرف رہنے والوں کو ایسی آفات سے بچایا جاسکے۔

 کچھ عرصے سے کشمیر کو ایک سیاحتی مرکز کے بجائے ایک ہندو تہذیبی ثقافت کے پروجیکٹ کے بطور متعارف کرواکے ہندو زائرین کو گلیشیرز اورپانی کے ذخائر کے منبعو ں کو عملاًروندنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ اس سال حکومت نے سات لاکھ یاتریوں کو پہلگام کے پہاڑوں میں موجود امرناتھ گپھا تک پہچانے کے انتظامات کیے تھے۔ یہ خیریت ہوئی کہ تمام تر ترغیبات کے باوجود مختلف وجوہات کی بنا پر اس سال صرف ساڑھے تین لاکھ یاتری ہی درشن کے لیے آسکے۔

مگر حکومت کا نشانہ آئندہ چند برسوں تک دس لاکھ یاتریوں کو امرناتھ تک لے جانے کا ہے۔ جبکہ یہ علاقہ کولاہوئی گلیشرز کی پناہ گاہ ہے، جو سندھ طاس ندیوں کے لیےپانی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ 1996 میں ڈاکٹر نتیش سین گپتا کی قیادت میں ہندوستان  کی ایک پارلیامانی کمیٹی نے کہا تھا کہ اگر خطے کے ماحولیاتی توازن کو درست اور محفوظ رکھنا ہے تو مذہبی یاتراؤں کو ریگولیٹ کرنا ہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ میں اس وقت کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) حکومت نے گنگوتری کے سلسلے میں ڈاکٹر سین گپتا کی رپورٹ کو نافذ کردیا اور 2008میں ہی ایک نوٹیفیکشن جاری کرکے دریائے گنگا کے منبع گومکھ تک جانے کے لیے یاتریوں کی تعداد یومیہ 150تک محدود کردی۔

ماضی میں  سری نگر کو آبی  چینلوں کے وسیع جال کی وجہ سے ہی مشرق کا وینس کہا جاتا تھا۔مجھے یاد ہے کہ پرانے شہر کے وسط میں نالہ مارنقل و حمل کا اہم ذریعہ ہوتی  تھی۔مگر یہ وینس اب کنکریٹ اور غیر متوازن پلانننگ کی علامت بن چکا ہے۔   عوامی وزیر اعلیٰ مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے 1977  میں اقتدار میں آتے ہی نالہ مار کی بھر پائی کرکے دو رویہ سڑک بنائی، تاکہ سکریٹریٹ سے حضرت بل اور ان کے آبائی علاقہ صورہ تک جانے کی صورت میں انہیں پیچ در پیچ راستوں سے گزرنا نہ پڑے۔

شہ  پاکر ان کی پارٹی اور دیگر افراد نے بھی سیاسی اثرورسوخ کی بنیاد پر، کہیں رشوتوں اور سفارشوں کے بل پر اور کہیں قوت بازو کے زور پر قبضہ جماکر ان آبی ذخائر اور چینلوں پر فلک بوس کنکریٹ عمارات کھڑی کیں۔ کسی بھی فیلڈ چینل پر تجاوزات قائم کرکے اس پر نیشنل کانفرنس کا لال جھنڈ ا لگا کر اس کو محفوظ کیا جاتا تھا۔ اس  فطری جغرافیہ سے چھیڑ خوانی کانتیجہ یہی ہے کہ2014 میں سیلابی ریلے نے قیامتیں ڈھا کرچشم زدن میں تمام تجاوزات کو  پھلاند کر موت کا سامان بناکر رکھ دیا۔ یہ کہانی صرف کشمیر کی ہی نہیں ہے، بلکہ پورے جنوبی ایشیاءکی ہے، جہاں جمہوریت کے پردے میں اشرافیہ کا ایک ایسا طبقہ حکمران بن بیٹھا ہے، جو احتساب سے مبرا  اور لوٹ کھسوٹ میں مبتلا ہے۔

ادھر یہ بھی خبریں ہیں کہ حال ہی میں سرحدو ں کے آس پاس فوجی  اسلحہ، بارودی سرنگیں اور ٹینک شکن اسلحہ بھی آبی ریلے بہاکر لے گئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ یہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر زرعی اراضی اور رہائشی علاقوں میں چلی گئی ہوں گی۔ہندوستان اور پاکستان پر لازم ہے کہ ماہرین کے ذریعہ اس  اسلحہ کو ڈھونڈ نکالنے کا کام فی الفور شروع کریں تاکہ ان علاقوں میں زندگی ایک بار بھر معمول پر آجائے، اور کسی بڑے حادثہ سے بچا جاسکے۔

جنوبی ایشیائی تعاون تنظیم سارک تنظیم کو کم از کم اس معاملے میں فعال کرددار ادا کرکے ماحولیاتی ایشوز پر ایک مشترکہ موقف اپنانا چاہیے۔ ستمبر کے وسط میں ازبیکستان کے شہر سمر قند میں  شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس ہونے والا ہے۔ اس اجلاس میں چین سمیت اس خطے سے سبھی ممالک کے سربراہ شرکت کرنے والے ہیں، اس لیے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی پیشگی اطلاع کا کوئی نظم وضع کرنے کا ایجنڈہ اس میں شامل کرنا چاہیے۔

  پاکستان میں سیلاب کے تھمنے کے بعد جس معاشی تباہی کا اندیشہ ہے، ظاہر ہے وہ مزید ناراضگی اور عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔اگر لیڈران خلوص نیت کے ساتھ امن اور عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، تو قدرتی آفات سے نمٹنے اور اس کے بعد بازآبادکاری کے لیے چین، ہندوستان، پاکستان و افغانستان کو ایک مشترکہ حکمت عملی پر غور کرنا پڑےگا۔