عالمی خبریں

ماسکو: آخری سوویت رہنما میخائل گوربا چوف نہیں رہے

میخائل گورباچوف نے سوویت یونین میں بہت سی اصلاحات کی کوششیں کیں۔ اس کڑی میں انہوں نے کمیونزم کے خاتمے، سوویت یونین کے زوال  اور سرد جنگ کے خاتمے میں کلیدی رول  ادا کیا۔ گورباچوف کو سرد جنگ کے خاتمے میں ان کے رول کے لیے 1990 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

میخائل گورباچوف۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

میخائل گورباچوف۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: سوویت یونین کے آخری رہنما میخائل گورباچوف منگل کو انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 91 برس تھی۔ گورباچوف نے سوویت یونین میں بہت سی اصلاحات کرنے کی کوشش کی اور اس کڑی میں انہوں نے کمیونزم کے خاتمے، سوویت یونین کے ٹوٹنے اور سرد جنگ کے خاتمے میں کلیدی رول ادا کیا۔

روس کے دارالحکومت ماسکو کے سینٹرل کلینیکل ہسپتال نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گورباچوف طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

سن 1985 سے 1991 میں سوویت یونین کے انہدام تک گورباچوف نے ملک کی اقتصادی اور سیاسی پالیسیوں میں غیرمعمولی  تبدیلیاں  کیں۔

گورباچوف سات سال سے بھی کم عرصے تک اقتدار میں رہے، لیکن انہوں نے کئی بڑی تبدیلیاں شروع کیں۔ ان تبدیلیوں نے جلد ہی ان کو پیچھے چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں مطلق العنان سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا، مشرقی یورپی اقوام کو روسی تسلط سے آزادی ملی ، اور کئی دہائیوں سے جاری  مشرقی مغربی ایٹمی تنازعے کا خاتمہ ہوا۔

کھلے پن کی ان کی پالیسی نے پہلے تو کمیونسٹ پارٹی اور ریاست کی ناقابل تصور تنقید کی اجازت دی، لیکن اس نے سوویت یونین کی ریاستوں میں آزادی کے مطالبات کی بھی حوصلہ افزائی کی۔

آخری سوویت رہنما کے طور پر گورباچوف نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یورپ کو تقسیم کرنے والے آہنی پردے کو ہٹانے کے لیے امریکہ اور مغرب کے ساتھ شراکت میں ہتھیاروں میں تخفیف کے معاہدے کیے۔

(آہنی پردہ یعنی دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین کے ذریعے خود کو اور اس پرمنحصر مشرقی اور وسطی یورپی اتحادیوں کو مغرب اور دیگر غیر کمیونسٹ خطوں کے ساتھ کھلے رابطے سے بند کرنے کے لیے کھڑا کیا گیا سفارتی، فوجی اور نظریاتی رکاوٹ۔)

انہوں نے مغربی اور مشرقی جرمنی کا دوبارہ اتحاد دیکھا، جہاں سوویت سیاستدان کو اب بھی پیار سے ‘گوربی’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سوویت رہنما کے طور پر گورباچوف کے پروٹوکول آفس کی سربراہی کرنے والے ولادیمیر شیوچینکو نےکہا، گورباچوف کا دور پیریستروئیکا کا دور ہے (پیریستروئیکا – سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے اندر اصلاحات کی سیاسی تحریک) ، امید کا دور، میزائل سے پاک۔ دنیا میں ہمارے داخلے کادور ہے۔

بتادیں کہ 30 جون کو ہسپتال میں گورباچوف کی عیادت کے بعد لبرل ماہر اقتصادیات رسلان گرنبرگ نے مسلح افواج کے نیوز آؤٹ لیٹ زویزڈا کو بتایا، انہوں نے ہمیں مکمل آزادی دی، لیکن ہم نہیں جانتے کہ اس کا کیا کرنا ہے۔

کریملن کے ایک ترجمان نے بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے گورباچیف کی وفات پر’گہری ہمددری’ کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ کے جی بی کے سابق ایجنٹ پوٹن رہنما گورباچوف کے اہل خانہ اور دوستوں کو بدھ کے روز تعزیت کا ٹیلی گرام بھیجیں گے۔

روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس نے بتایا کہ گورباچوف کو ماسکو کے نوویڈے ویچی قبرستان میں ان کی اہلیہ کی قبر کے پاس دفن کیا جائے گا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے گورباچوف کو ایک ‘غیرمعملی رہنما’ قرار دیا جس نے دنیا کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

سیاسی تجزیہ کار اور ماسکو میں سابق امریکی سفیر مائیکل میک فال نے ٹوئٹ کیا کہ گورباچوف نے جس طرح سےتاریخ کوایک  مثبت سمت دی ہے، ویسا کرنے والا  شاید ہی کوئی اورشخص بہ مشکل ہی نظر آتا ہے۔

گورباچوف کے تسلط کا زوال ذلت آمیز تھا۔ اگست 1991 میں ان کے خلاف تختہ پلٹ کی کوشش سے ان کی طاقت مایوس کن طور پر ختم ہوگئی۔ ان کے دور اقتدار کے آخری دنوں میں ایک کے بعد ایک جمہوریہ نے سوویت یونین سےآزادی کا اعلان کیا۔ انہوں نے 25 دسمبر 1991 کو استعفیٰ دے دیا۔ اس کے ایک دن بعد سوویت یونین ٹوٹ گیا۔

اس کے تقریباً 25 سال بعد گورباچوف نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی اییٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا تھاکہ انہوں نے سوویت یونین کو ایک ساتھ رکھنے کی کوشش کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر طاقت استعمال کرنے پر اس لیے غور نہیں کیا کہ انہیں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک میں افراتفری کا خطرہ تھا۔

اپنے دور اقتدار کے اختتام پر ان کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اس انتشار کو روک سکیں، جس کی شروعات انہوں نے کی تھی۔ اس کے باوجود گورباچوف 20ویں صدی کے دوسرے نصف میں سب سے زیادہ بااثر سیاسی شخصیت تھے۔

گورباچوف نے عہدہ چھوڑنے کے کچھ وقت ً بعد 1992 میں اے پی کو بتایا،میں اپنے آپ کو ایسے شخص کے طور پر دیکھتا ہوں جس نے اپنے ملک، یورپ اور دنیا کے لیے ضروری اصلاحات متعارف کروائیں۔ انہوں نے کہا تھا اگر انہیں یہ سب اقدامات دوبارہ کرنے پڑیں تو وہ دوبارہ بھی کرنے کو تیار ہیں۔

گورباچوف کو سرد جنگ کے خاتمے لیے  اور مشرق و مغرب کے تعلقات میں بنیادی تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کرنےکے لیے  1990 میں نوبل امن انعام سے نوازا گیا۔ انہیں دنیا کے تمام حصوں سے تعریفیں اور ایوارڈز ملے، لیکن انہیں اپنے ملک میں بڑے پیمانے پر مذمت کا سامنا کرنا پڑا۔

روسیوں نے 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے لیے ان کو کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ کبھی سپر پاور رہا سوویت یونین 15 مختلف ممالک میں تقسیم ہو گیا۔ گورباچوف کے اتحادیوں نے ان کو  چھوڑ دیا اور ملک کے  بحران  کے لیے ان کوقربانی کا بکرا بنا دیا۔

انہوں نے 1996 میں صدارتی انتخاب لڑا اور انہیں مذاق کا نشانہ بننا پڑا۔ انہیں صرف ایک فیصد ووٹ ملے۔ انہوں نے 1997 میں اپنے خیراتی ادارے کے لیے پیسے کمانے کے لیے پیزا ہٹ کے لیے ایک ٹی وی کمرشیل بنایا۔

گورباچوف کبھی بھی سوویت نظام کا خاتمہ نہیں چاہتےتھے، بلکہ وہ  اس کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔

میخائل گورباچوف 2 مارچ 1931 کو جنوبی روس کے دیہات پری وولنو میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ملک کی بہترین یونیورسٹی، ماسکو اسٹیٹ میں تعلیم حاصل کی، جہاں ان کی ملاقات رائیسا میکسیمونا ٹیٹورینکو سے ہوئی، جس سے انہوں نے بعد میں شادی کی۔ اس دوران انہوں نے کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔

عالمی رہنماؤں کا ردعمل

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوتریش نے کہا کہ گورباچوف ایک ایسے منفرد سیاست داں تھے جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ سابق سوویت رہنما نے سرد جنگ کے پرامن خاتمےکے لیے کسی اور سے زیادہ کام کیا۔

یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے گورباچوف کو ایک ‘قابل اعتماد اور قابل احترام’ رہنما قرار دیا جس نے آہنی پردے کو اتارنے میں مدد کی تھی۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا،یورپ میں امن کے حوالے سے ان کے عزم نے ہماری مشترکہ تاریخ بدل دی۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے حوالے سے وہ گورباچوف کی ‘حوصلے اور دیانتداری’ کے معترف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ،ایسے وقت میں جب یوکرین میں پوٹن نے جارحانہ کارروائی کی ہے، سوویت معاشرےکو کھولنے کا ان کا انتھک عزم ہم سب کے لیے ایک مثال ہے۔

سوویت یونین کے انہدام کے وقت امریکی وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز جیمس بیکر III نے کہا کہ، تاریخ میخائل گورباچوف کو ایک ایسے عظیم رہنما کے طور پر یاد رکھے گی جس نے ایک عظیم ملک کو جمہوریت کے راستے پر گامزن کیا۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)