فکر و نظر

رام کے بعد گنیش کو ہندوتوا کی سیاست کی لڑائی میں بھرتی کیا جا رہا ہے

جگہ–جگہ قبرستان اور عیدگاہ کی زمین پر کبھی پیپل لگا کر، کبھی  کوئی مورتی رکھ کر اور بھجن آرتی  کا سلسلہ شروع کر کے قبضہ کرنے کے حربے زمانے سے استعمال ہورہے ہیں۔ اب حکومتیں بھی اس میں تندہی سے مصروف  ہیں۔لطف  کی بات یہ ہے کہ اگر مسلمان اس کی مخالفت کریں تو انہیں عدم روادارکہا جاتا ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

رام کے بعد اب گنیش کی باری ہے۔ گنیش کو ہندوتوا کی سیاست کی لڑائی  میں بھرتی کیا جا رہا ہے یا شاید یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ انہیں ایک آڑکی طرح  استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان کے پیچھے بزدل اور دو منھ والے لوگ چھپے ہوئے ہیں، جو جانے کیوں اب بھی براہ راست یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ مسلمانوں کی زمین اور جائیدادوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

اس کے باوجود کہ اب تقریباً ہر جگہ ان کی حکومتیں ہیں اور اگر وہ ایسا کریں تو پولیس اور دیگر ادارے ان کے قبضے کے لیےدلیل فراہم کردیں گے، وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ابھی بھی عدلیہ میں انصاف کا احساس  بالکلیہ  غائب نہیں ہوا ہے۔

گنیش چترتھی کے موقع پر سپریم کورٹ کو غیرمعمولی سماعت کرنی پڑی۔ اس کی تین رکنی بنچ کو شام دیر گئے تک بیٹھنا پڑا۔ یہ اس لیے کہ کرناٹک حکومت کی ضد تھی  کہ وہ بنگلورو کے  عیدگاہ میدان میں  ہی گنیش اتسو کرنا چاہتی ہے۔

عیدگاہ کمیٹی پہلے کرناٹک ہائی کورٹ گئی کہ حکومت کواس سےباز رکھا جائے۔ ہائی کورٹ کی ایک رکنی بنچ نے حکومت کو منع کر دیا۔ اس کے بعد حکومت اپنی عرضی کے ساتھ دوبارہ عدالت میں گئی کہ اس فیصلے کو تبدیل کیا جائے۔

اگر کوئی باہری آدمی اس پیش رفت کو دیکھ رہا ہو تو حیران ہو جائے گا کہ کیوں ایک حکومت گنیش اتسو کے لیے ایک مخصوص زمین کے استعمال پر  بضد ہے، لیکن جن کو آج کے ہندوستان کے بارے میں تھوڑا سا بھی علم ہے ، ان کو اس بات سے قطعی  حیرت نہیں ہوگی۔

خیر! عدالت نے حکومت کی سماعت کے لیے دو رکنی بنچ تشکیل دی اور اس نے فیصلہ بدل دیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ہندوستان میں مختلف مذاہب اور عقائد کے ماننے والےرہتے ہیں۔ ہندوستان کا آئین ہندوستان کے مختلف طبقات کے درمیان بھائی چارے کی بات کرتا ہے۔ ہندوستانی تہذیب کی خاصیت مذہبی رواداری ہے۔ اس لیے عیدگاہ میدان میں گنیش اتسوکیا جا سکتا ہے۔

یہ دلیل  کا عجیب و غریب طریقہ ہے۔ کیا مذہبی رواداری کو بڑھانے کے لیےکرناٹک کی ریاستی حکومت زبردستی عیدگاہ کے میدان میں گنیش اتسو کرنا چاہتی ہے؟ کیا آپ زبردستی میرے گھر میں گھس آئیں گے اور منع کرنے پر مجھ پر عدم رواداری  کا الزام لگائیں گے؟  جیسے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے عیدگاہ والے سپریم کورٹ پہنچے۔

پہلے دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔ دونوں میں اختلاف رائے تھا۔ ایک نے کہا کہ گنیش پوجا عیدگاہ میدان میں کی جا سکتی ہے۔ دوسرے جج کو اس کے پیچھے کا شیطانی ارادہ   صاف سمجھ میں آ رہا تھا۔ انہوں نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ بنچ میں  میں کوئی گنجائش نہیں بچی۔ کوئی ایک فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہ سب ہوتے ہواتے  عدالت کا مقررہ وقت ختم ہو چکا تھا۔ چیف جسٹس کو تین رکنی بنچ تشکیل دینی پڑی۔ انہوں نے شام کو سماعت کی۔ پوچھا گیا کہ کیا کوئی دوسرا  میدان نہیں ہے جہاں پوجا کا اہتمام کیا جا سکے؟

وفاقی حکومت کے وکیل نے واضح طور پر کہا کہ سوال میدان کی فراہمی  کا نہیں ہے۔ وہ اسی  میدان میں پوجا چاہتے ہیں۔ یہاں پوجاکیوں نہیں ہو سکتی؟ ان  کے لیےیہ اصول کامسئلہ تھا۔

دو سو سال سے اس عیدگاہ میں ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ پھر اس بار ضد کیوں؟ بنچ نے استفسار کیا۔ حکومت کا موقف تھا کہ اگر بچے یہاں کھیل سکتے ہیں تو پوجا کیوں نہیں کی جا سکتی۔

بالآخر بنچ کو کہنا پڑا کہ حکومت ایسا نہیں کر سکتی۔ حکومت نے نئی حکمت عملی سوچ لی۔ وہ  کوئی مستقل ڈھانچہ نہیں بنا رہی۔ بس دو دن کی بات ہے۔ پھر وسرجن ہو جائے گا۔

دشینت دوے نے بابری مسجد کے وقت حکومت کے حلف نامے کی کو یاد دلائی۔ وہاں بھی حکومت نے ایک وعدہ کیا تھا۔ اسے بڑی چالاکی اور بے شرمی سے توڑا گیا۔ عدالت ہاتھ مسوس کر  رہ گئی۔ اس کے سامنے جو حلف اٹھایا گیا تھا اسے توڑ دیا گیا اور اس کی ہتک  کی گئی۔

کرناٹک میں اسی سیاسی پارٹی کی حکومت ہے، جس نے 30 سال پہلے اپنے وعدے کو توڑ دیا تھا اور بعد میں اس دھوکہ دہی پر شیخی بھی بگھاڑی تھی۔ آج ان کے وکیل کی زبان پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے؟

اس بحث کو سنتے ہوئے ہم بے چینی سے ناخن چبارہے تھے۔ حکومت نے آخری چال چلی۔ تیاری ہو چکی ہے۔شامیانہ تن چکا ہے۔ اب  ہوجانے دیجیے! عدالت نے کہا کہ  رات  بھر میں وہ سب ہٹوا لیا جائے، عیدگاہ کی صورتحال  کو برقرار رکھا جائے۔

اگرچہ بنگلورو میں عیدگاہ پر قبضہ کرنے کی مہم ابھی رک گئی ہے، لیکن کرناٹک حکومت نے ہبلی میں عیدگاہ میدان  کی ملکیت سرکاری ادارے کے پاس ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں گنیش اتسو منعقد کرنے کی اجازت کرناٹک ہائی کورٹ سے لے لی۔

کوئی بھی پوچھ سکتا ہے کہ آخرحکومت کو گنیش اتسو کو عیدگاہ میں ہی منانے میں اتنی دلچسپی کیوں تھی؟ کیا گنیشواتسو حکومت کی ذمہ داری ہے؟ کیا یہ اس کا کام ہے؟کیوں مذہبی ہم آہنگی وغیرہ کے بہانے مسلمانوں کی جگہ کو ہندو تہواروں کے لیے استعمال کرنے پر  تلی ہوئی  ہے؟

کچھ لوگوں نے کہا کہ جب کرناٹک کا بڑا حصہ سیلاب سے نبرد آزما ہے تو ریاستی حکومت کی پہلی ترجیح عیدگاہ کے میدانوں میں گنیش کی مورتیوں کو نصب کرنا کیوں ہے؟ اس کی ساری توجہ اس طرف کیوں ہے؟

ہم اس سوال کا جواب جانتے ہیں۔ ہندوؤں کو ایک لڑائی میں اتارا  جا رہا ہے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف جنگ ہے۔ ان کے اندرونی تعصبات کو ہوا دی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کو عوامی مقامات سے بے دخل کرنے کی طرح طرح سے کوششیں کی جارہی ہیں۔

سبھی جانتے ہیں کہ عیدگاہ میں گنیشواتسو کی ضد کے پیچھے گنیش کی کوئی تعظیم نہیں ہے۔ جیسے بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی تعمیر کے پیچھے رام کی کوئی عقیدت نہیں تھی۔ اپنی طاقت ثابت کرنے کا شیطانی ارادہ تھا۔ ہم جو چاہیں، جب چاہیں، جہاں چاہیں کر سکتے ہیں۔ انتظامیہ، پولیس اور پھر عدالت پہلے تو ہمیں روکے گی نہیں اور  پھر ہمارا کام  کو صحیح ثابت کرے گی۔

جگہ–جگہ قبرستان، عیدگاہ کی زمین پر کبھی پیپل لگا کر، کبھی  کوئی مورتی رکھ کر اور بھجن آرتی شروع کر کے قبضہ کرنےکےحربے زمانے سے استعمال ہورہے ہیں۔ اب حکومتیں بھی اس میں مصروف  ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر مسلمان اس کی مخالفت کریں تو انہیں عدم روادارکہا جاتا ہے۔ کیا وہ گنگا جمنی تہذیب میں یقین  نہیں کرتے؟ یہ طنزکیا جاتاہے۔ کیا اب ہم مسجد پر بھگوا جھنڈا نہیں لگا سکتے؟ اس میں پوجا نہیں کر سکتے؟ اس سے  مسلمانوں کو کیوں مشتعل ہونا چاہیے؟ ایسے معصومانہ سوال پوچھے جاتے ہیں۔

جوبھی ہو، اب ہر ہندو تہوار سماج میں تلخی پیدا کرتا ہے اور تشدد کا خدشہ ساتھ لے کر آتا ہے۔ ہندوؤں کے لیے یہ کوئی زیادہ خوشگوار صورتحال نہیں ہے۔ معاشرے میں ان کے تئیں ہم آہنگی کم ہوتی  جارہی ہے۔ کیا یہ نہیں سمجھ پا رہے۔ پھر  کیوں وہ اپنے دیوی دیوتاؤں کو ہندوتوا کےسیاسی نظریات کے جنگجومیں تبدیل ہونے  دے رہے ہیں؟

(اپوروا نند  دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔)