فکر و نظر

اپوزیشن کو کیجریوال سے بی جے پی کو اس کے کھیل میں اسی کی طرح شکست دینے کا فن سیکھنا چاہیے

بی جے پی اپوزیشن پارٹیوں پر جو الزامات  لگا کرانہیں خارج کرتی رہتی ہے، ان میں سے کوئی بھی عام آدمی پارٹی پر فٹ نہیں بیٹھتے اور یہی اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔

اروند کیجریوال۔ (تصویر: پی ٹی آئی/السٹریشن: دی وائر)

اروند کیجریوال۔ (تصویر: پی ٹی آئی/السٹریشن: دی وائر)

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو ناپسند کرتی ہے کیونکہ وہ اکثر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو اس کے  ہی کھیل میں شکست دیتے ہیں۔

کیجریوال کی خامیاں جو بھی ہوں – جو کہ بہت سی ہیں بھی، لیکن ایک کام جو وہ واقعی اچھی طرح سے کرتے ہیں،  وہ ہے بی جے پی کے ساتھ بی جے پی جیسا سلوک کرنا۔

پچھلے ہفتہ عشرہ  میں دہلی کے وزیر اعلیٰ نے دہلی کی ایکسائز پالیسی پر سی بی آئی کے چھاپوں سے دھیان ہٹاکر عام آدمی پارٹی کی تعلیمی پالیسی کی طرف توجہ مرکوز کرکے بی جے پی کو پوری طرح سے مایوس کردیا۔ اب صرف چند ہی لوگ یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا ایک کرپٹ شخص ہیں جنہوں نے غیر قانونی شراب کے لائسنس کے لیے نجی سیکٹر کے منتخب اداروں کی طرفداری  کی ہے۔

نیویارک ٹائمز کے صفحہ اول پر سسودیا کی بے مثال تعریف نے بی جے پی کی قیادت کو اس قدر ناراض کیا کہ انہوں نے اسے پیڈ نیوز کے طور پر بدنام کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اخبار کی وضاحت کہ یہ ایک حقیقی رپورٹ تھی بی جے پی اور ان کی میڈیا مینجمنٹ کو تمسخر کا نشانہ بننا پڑا۔

کیجریوال کی ایسی حکمت عملیوں سے بی جے پی بوکھلا گئی ہے۔

انہوں نے بی جے پی پر چنندہ تاجروں کے ذریعے لیے گئے 10 لاکھ کروڑ روپے کے بینک قرضوں کوبٹے کھاتے میں ڈالنے کا الزام لگا کر اسے بیک فٹ پرلادیا۔ انہوں نے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کو سرکاری جواب دینے پر مجبور کیا کہ قرضوں کو رائٹ آف کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرض کی وصولی نہیں ہو رہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کیجریوال نے مودی حکومت کو باضابطہ طور پر رد عمل ظاہر کرنے پر مجبور کیا جو بی جے پی کو چھیڑنے کی ان کی صلاحیت کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

ابھی حال ہی میں انہوں نے اسمبلی میں بی جے پی کواپوزیشن کی حکومتوں کو گرانے والا ‘سیریل کلر‘ کا نام دیا۔ انہوں نے مدھیہ پردیش، کرناٹک، گوا، منی پور، میگھالیہ، اروناچل پردیش اور مہاراشٹر کی ان  تمام حکومتوں کا ذکر کیا جو ‘آپریشن کمل’ کا شکار ہوئیں۔

کیجریوال نے آسانی سے بتایا کہ اس کا طریقہ کیا ہے۔ حساب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں بی جے پی نے 20 کروڑ روپے فی شخص کے حساب سے  270 سے زیادہ ایم ایل اے خریدے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کاروباری دوستوں کے قرض معاف کرنے کے عوض  میں بی جے پی کوانتخابی بانڈز کے ذریعے یہی ملتاہے۔

یہ ایسا تھا گویا کوئی اسکول ٹیچر ایک پیچیدہ سوال کو چٹکیوں میں آسان طریقے سے حل کر کے بتا رہا ہو۔

کیجریوال نے اس طرح کے فارمولوں میں مہارت حاصل کی ہے اور اس سے بی جے پی کو کافی پریشانی ہوئی ہے۔ بی جے پی ان طریقوں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے کیونکہ اس کے بڑے لیڈر بھی اکثر ایسی ہی حکمت عملی اپناتے رہے  ہیں۔ لیکن جب بھی کجریوال پر حملہ ہوا، وہ ان سے بہتر طریقے سے اس کو آزما تے ہیں۔

عام آدمی پارٹی نے جلد ہی سیکھ  لیا ہے کہ بی جے پی کے پروپیگنڈے کا سامنا کیسےکرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، چونکہ یہ نسبتاً نئی پارٹی ہے، اس لیے یہ مودی کے اپوزیشن پارٹیوں کو بدعنوان، اقربا پروری  اور مسلم اپیزمنٹ کرنے والا کہہ کر مسترد کرنے کے جال میں نہیں پھنستی۔ ان الزامات میں سے کوئی بھی عام آدمی پارٹی پر فٹ نہیں بیٹھتا اور یہی بی جے پی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

مرکزی حکومت نے عام آدمی پارٹی کی حکومت کو گھیرنے اور کیجریوال کے دورہ گجرات کو روکنے کے لیے ایکسائز پالیسی پر تنازعہ کا استعمال کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ہوا اس کے برعکس – ڈپٹی چیف منسٹر کے گھر پر سی بی آئی کے چھاپے کے فوراً بعد کیجریوال اور سسودیا گجرات پہنچ گئے۔ سی بی آئی سسودیا کو گرفتار کرنے کے لیے تیار نظر آئی، لیکن مرکزی حکومت نے شاید دیکھا کہ ہوا ان کے ساتھ نہیں چل رہی اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے سے بچ  گئی۔

بی جے پی کجریوال پر وہی ‘شوٹ اینڈ اسکوٹ ‘ کی حکمت عملی اپنانے کا الزام لگاتی ہے جس میں خود نریندر مودی نے گزشتہ آٹھ سالوں میں مہارت حاصل کی ہے۔ درحقیقت، جیسے جیسے 2024 کے عام انتخابات قریب آرہے ہیں، دیگر اپوزیشن جماعتیں کجریوال سے سیکھ سکتی ہیں کہ بی جے پی کو اسی کے کھیل  میں کیسےاسی کی طرح شکست دی جا سکتی ہے۔

اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔