خبریں

زی ہندوستان نے پاکستان میں زمینی تنازعہ کے باعث خاتون کی پٹائی کو فرقہ وارانہ رنگ دیا

حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل تھا، جس میں کچھ لوگ ایک خاتون کے ساتھ  مار پیٹ کرتے  ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے نیوز چینل زی ہندوستان نے دعویٰ کیا تھاکہ پاکستان میں ہندوؤں پر ظلم و ستم کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اب فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ متاثرہ کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے اور اس معاملے میں کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے۔

زی ہندوستان کی جانب سے شیئر کیاگیا ویڈیو ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ۔

زی ہندوستان کی جانب سے شیئر کیاگیا ویڈیو ٹوئٹ کا اسکرین شاٹ۔

نئی دہلی: سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے۔ اس میں ایک خاتون کو ایک مرد گھسیٹ کر لے جا رہا ہے۔ اس کے بعد کئی لوگ اسے بالوں سے پکڑ کر لات، گھونسوں، چپلوں اور ڈنڈوں سے پیٹ رہے ہیں۔ کچھ خواتین کو بھی ایسا کرتے ہوئےدیکھا جا سکتا ہے۔

اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ  پاکستان کا ہے اور متاثرہ کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے۔

زی ہندوستان نے ویڈیو ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا، پاکستان میں نہیں رک رہا ہے ہندوؤں پر ظلم۔ معمولی بات پر ہندو خاتون کو لاٹھیوں سے پیٹا گیا۔

https://twitter.com/Zee_Hindustan/status/1563441103889924097

وشو ہندو پریشد کے قومی ترجمان ونود بنسل نے ویڈیو ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا، ایک طرف افغانستان نے بیٹیوں کے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی، وہیں پاکستان ہندو خواتین کے ساتھ درندگی  پر اتر آیا۔ جہادیوں کی خواتین مخالف ذہنیت نہیں بدل سکتی۔

دیویہ کمار سوتی نے زی ہندوستان کے ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ،ہندوستان میں ہندوؤں کی کوئی شنوائی نہیں ہوگی تو پاکستان میں کہاں  سےہوگی؟

Alt-News-Fact-Check-1

اسی طرح رائٹ ونگ کی پروپیگنڈہ ویب سائٹ کریٹلی میڈیا، اداکار منوج جوشی، ہیومینٹیرین ایڈ انٹرنیشنل کے بانی سدھانشو سنگھ، اکثر غلط جانکاری پھیلانے والےمسٹرسنہا وغیرہ نے بھی اسی دعوے کے ساتھ اس ویڈیو کو شیئر کیا۔

فیکٹ چیک

فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ کلیدی الفاظ تلاش کرنے پران کو پاکستانی نیوز چینل کی ویب سائٹ جیو ٹی وی  پر 9 جنوری 2022 کو شائع ایک آرٹیکل  ملا۔ اس آرٹیکل کے مطابق، زمینی تنازعہ  کو لے کر ایک  بزرگ خاتون کو تشدد کا نشانہ بنانے کا یہ معاملہ پاکستان کے سیالکوٹ کا ہے۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سیالکوٹ پولیس نے اس پرکارروائی کرتے ہوئے 15 ملزمین کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ پولیس نے اس معاملے میں 9 ملزمین کو گرفتار کیا تھا ،جن میں 4 خواتین تھیں۔ جیو ٹی وی سے بات کرتے ہوئے بزرگ خاتون نے بتایا کہ یہ واقعہ زمینی تنازعہ سے متعلق  ہے جو گزشتہ 13 سال سے چل رہا ہے۔ اس میں کہیں بھی فرقہ وارانہ زاویے کا ذکر نہیں ہے۔

Alt-News-Fact-Check-2

پاکستانی اخبار ڈان کے ویب پورٹل پر 10 جنوری 2022 کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، دونوں گروپوں کے درمیان زمین کو لے کر تنازعہ تھا اور اس سلسلے میں  پہلے بھی ان میں کہا سنی ہو چکی تھی۔

رپورٹ کے مطابق، واقعہ  کے روزپھر سے دونوں خواتین کے درمیان زمین کو لے کر جھگڑا ہوگیا۔ ان کی شناخت منور کنول اور نسرین بی بی کے طور پر ہوئی۔ نسرین بی بی نے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ مل کر منور کنول کو بری طرح زدوکوب کیا۔

 نسرین کا بھائی منور کو بالوں سے پکڑ کرگھسیٹتے ہوئے گاؤں لے گئےاور دونوں نے مل کر منور کو تھپڑ ، گھونسے مارے اور لات–گھونسوں سے پیٹا۔ اس رپورٹ میں بھی کسی فرقہ وارانہ زاویے کا ذکر نہیں ہے۔

Alt-News-Fact-Check-3

پاکستان کی پنجاب پولیس نے 9 جنوری کواس کیس میں کارروائی کرتے ہوئے 9 ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔ ان میں 4 خواتین تھیں۔ اس معاملے پر 10 جنوری کو ایک اپ ڈیٹ دیتے ہوئے پاکستان کی پنجاب پولیس نے کہا کہ انہوں نے 10 ویں ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور باقی ملزمین کی تلاش جاری ہے۔

اردو کی ورڈز (کلیدی الفاظ)سرچ کرنےپرآلٹ نیوز کو اس معاملے سے متعلق ایک آرٹیکل پاکستانی نیوز ویب سائٹ نیوز 360ٹی وی پر ملا۔ اس آرٹیکل میں سیالکوٹ پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر کی کاپی بھی موجود ہے۔ اس میں واقعہ کی تاریخ 31 دسمبر 2021 لکھی گئی ہے اور ایف آئی آر کے اندراج کی تاریخ 7 جنوری 2022 لکھی ہے۔

Alt-News-Fact-Check-4

آلٹ نیوز نے اس معاملے میں پاکستان میں بی بی سی اردو کی صحافی سارہ عتیق سے بات کی اور ایف آئی آر کی کاپی ان کے ساتھ شیئر کی۔ انہوں نے تصدیق کی کہ یہ اسی واقعے کی ایف آئی آر کاپی ہے اور اس میں متاثرہ کا نام اور موبائل نمبر بھی موجود ہے۔

انہوں نے اس معاملے میں فرقہ وارانہ زاویے کی  تحقیقات کے لیے متاثرہ منور کنول سے بات کی۔ متاثرہ نے انہیں بتایا کہ اس کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے ۔ متاثرہ خاتون اور تمام ملزمین کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے۔

یہ رپورٹ آلٹ نیوز پر شائع ہوئی ہے۔