خبریں

حجاب معاملہ: کورٹ نے پوچھا – کیا سیکولر ملک کے سرکاری اسکول میں مذہبی لباس پہن سکتے ہیں

سپریم کورٹ کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی ہٹانے سے انکار کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ہر کسی کو مذہب پر عمل کرنے کا حق ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حق طے شدہ  یونیفارم والے اسکول میں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔

(تصویر: رائٹرس)

(تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے تنازعہ کی سماعت کرتے ہوئے سوموار کو کہا کہ کسی بھی شخص کو مذہب پر عمل کرنے کا حق ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حق طے شدہ  یونیفارم والے اسکول میں بھی لاگو ہو سکتا ہے۔

ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی ہٹانے سے انکار کرنے والے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی مختلف عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ کیا کوئی  طالبہ ایسے اسکول میں حجاب پہن سکتی ہے جہاں یونیفارم ہے۔

جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ نے کہا، آپ کو کسی بھی مذہب کی پیروی کرنے کا حق ہو سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک ایسے سکول میں مذہب پر عمل کیا جا سکتا ہے جہاں ایک مقررہ یونیفارم ہو؟

عدالت نے یہ سوال سینئر ایڈوکیٹ سنجے ہیگڑے سے پوچھا، جو کچھ عرضی گزاروں کی طرف سے دلیل پیش کر رہے تھے۔

اس دلیل پر کہ حجاب پر پابندی خواتین کو تعلیم سے محروم کر سکتی ہے، بنچ نے کہا کہ ریاست یہ نہیں کہہ رہی ہے کہ وہ کسی بھی حقوق سے انکار کر رہی ہے۔ بنچ نے کہا، ریاست پوچھ رہی ہے کہ آپ اس یونیفارم میں جائیں جو طلبا کے لیے مقرر کی گئی ہے…۔

ہیگڑے نے زور دے کر کہا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ سماج کے ایک بڑے طبقے کی تعلیم کو متاثر کرے گا۔ انہوں نے کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ 1983 کی دفعات کا بھی حوالہ دیا۔

ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) کے ایم نٹراج نے کہا کہ یہ مسئلہ بہت محدود ہے اور اس کا تعلق تعلیمی اداروں کے نظم و ضبط سے ہے۔

اس پر عدالت نے ان سے پوچھا، اگر کوئی لڑکی حجاب پہنتی ہے تو اسکول میں نظم و ضبط کی خلاف ورزی کیسے ہوتی ہے؟ اس پر اے ایس جی نے کہا، اپنے مذہبی عمل یا مذہبی حق کی آڑ میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ایسا کرنے کا حق رکھتاہوں، اس لیے میں اسکول کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرنا چاہتا ہوں۔

رپورٹ کے مطابق، کرناٹک کے ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگا نودگی نے ریاستی حکومت کے 5 فروری 2022 کے حکم کا حوالہ دیا جس میں اسکولوں اور کالجوں میں مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو خراب کرنے والے لباس پہننے پر پابندی عائد کی گئی تھی، جس کو  کچھ مسلمان لڑکیوں نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

انہوں نے دلیل دی کہ  ریاست نے نہیں بلکہ تعلیمی ادارےنے یونیفارم کا تعین کیا تھا۔ انہوں نے کہا، یہ سرکاری حکم طلباء کے کسی حقوق میں مداخلت نہیں کرتا ہے۔ اس معاملے کی اگلی سماعت 7 ستمبر کو ہوگی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت حجاب پہننا ایک لازمی عمل ہے، بنچ نے کہا، مسئلے کو قدرے مختلف طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ ضروری ہو بھی سکتا ہے اورنہیں بھی۔

بنچ نے کہا، ہم جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا آپ کسی سرکاری ادارے میں اپنے مذہبی رسم و رواج کی پیروی پر اصرار کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آئین کی تمہید کے مطابق ، ہم ایک سیکولر ملک ہیں۔

لائیو لا کے مطابق، کیس میں پیش ہوتے ہوئے وکیل راجیو دھون نےکہا کہ سپریم کورٹ میں بھی ایسے جج ہیں جو تلک لگاتے ہیں یا پگڑی باندھتے ہیں۔ تاہم جسٹس گپتا نے کہا کہ پگڑی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کے دادا اسے عدالت میں پہنا کرتے تھے۔ گپتا نے کہا کہ اسے مذہب سے نہ  جوڑیں۔

دھون نے کہا کہ عدالت کے سامنے اٹھایا گیا مسئلہ ان لاکھوں خواتین سے متعلق ہے، جو تعلیمی اداروں میں ڈریس کوڈ کی پیروی کرتی ہیں، لیکن اس کے ساتھ حجاب بھی پہننا چاہتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اہم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس عدالت کے فیصلے کو پوری دنیا دیکھے گی۔

دلائل کے دوران بنچ نے کہا کہ اگر کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ ڈریس کوڈ تجویز کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے تو پھر سوال یہ ہوگا کہ کیا یہ قانون ڈریس کوڈ پر پابندی لگا سکتا ہے۔ بنچ نے پوچھا، کیا طالبات منی، مڈی یا کسی بھی لباس میں آ سکتی ہیں؟

ہیگڑے نے کہا کہ ریاست کی انتظامی طاقت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی۔

واضح ہو کہ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ ہفتے ان درخواستوں پر کرناٹک حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کرناٹک کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قانون کا معاملہ ہے اور کوئی جواب داخل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ہائی کورٹ نے کیا کہاتھا

قابل ذکر ہے کہ حجاب کو لے کر یہ تنازعہ سب سے پہلے اُڈپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت  شروع ہوا تھا، جب دسمبر 2021 میں حجاب پہن کر چھ لڑکیاں کلاس میں آئیں اور انہیں کالج میں داخلے سے روک دیا گیا۔ ان کے حجاب پہننے کے جواب میں ہندو طالبعلم بھگوا اسکارف پہن کر کالج آنے لگے  اور آہستہ آہستہ یہ تنازعہ ریاست کے دیگر حصوں تک پھیل گیا، جس سے کئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔

فروری میں کرناٹک حکومت نے اسکولوں اور کالجوں میں مساوات، سالمیت اور امن عامہ کی خلاف ورزی کرنے والے کپڑے پہننے پر پابندی لگا دی تھی، جسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ اس تنازعہ کے درمیان ان طالبات نے کرناٹک ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں انہیں کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست کی گئی تھی۔

تعلیمی اداروں میں حجاب پر تنازعہ سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ نے 15 مارچ کو کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے اور اس نے کلاس روم میں حجاب پہننے کی اجازت دینے سے متعلق مسلم طالبات کی عرضیاں خارج کر دی تھیں  اور ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔

مسلم لڑکیوں نے اس حکم کو کرناٹک ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس پر ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔ اس حکم کو اسی دن سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ایک عرضی میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ نے مذہب کی آزادی اور ضمیر یا صوابدیدکی آزادی کے درمیان فرق میں غلطی کی ہے، جس سے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مذہب پر عمل کرنے والے کو صوابدید کا حق حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ ، ہائی کورٹ یہ مشاہدہ کرنے میں ناکام رہی ہے کہ حجاب پہننے کا حق پرائیویسی کے حق کے دائرے میں آتا ہے جس کی ضمانت آئین ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت دی گئی ہے۔

درخواست گزاروں نے ہائی کورٹ کے سامنے یہ بھی دلیل دی تھی کہ اسلامی حجاب یا اسکارف پہننا عقیدے کا معاملہ ہے اور ایک ضروری مذہبی عمل ہے نہ کہ مذہبی شدت پسندی  کا مظاہرہ۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)