فکر و نظر

غلام، جو کانگریس سے آزاد ہوا …

آزاد اگر مرکزی حکومت کے مشن کے تحت نہیں آئے ہیں اور حقیقتاً آزاد سیاسی لیڈر کا رول ادا کرنا چاہتے ہیں، تو اس خطے کی 33 فیصد مسلم آبادی اور 23فیصد دلت آبادی کا ایک مشترکہ اتحاد قائم کرکے اپنی سیاست کو دوام بخش کر فرقہ پرستوں کو بھی خاصی حد تک لگام لگا سکتے ہیں۔ ان کے پاس آزادانہ سیاست کرنے کا بس یہی ایک راستہ ہے۔ ورنہ ان کی اس دوسر ی سیاسی پاری کو بھی ان کی غلامی کے دور کے ہی توسیع  کے طور پر یاد کیا جائےگا۔

غلام نبی آزاد، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

غلام نبی آزاد، فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

برطانوی پارلیامانی جمہوری نظام کی جو مسخ شدہ صورت جنوبی ایشاء میں رائج ہے، اس نے کئی ایسے لیڈروں کو بام عروج تک پہنچانے کا کام کیا ہے، جن کی کبھی کوئی عوامی ساکھ نہیں تھی۔ مگر انہوں نے حکومت اور سیاسی پارٹیوں میں اتنے اہم عہدے حاصل کیے کہ منتخب نمائندے بھی ان کے آگے دم ہلاتے نظر آتے ہیں۔

ہندوستانی سیاست پر اگر نظر دوڑائی جائے تو اس قبیل کے لیڈروں میں فی الفور آنجہانی ارون جیٹلی، سابق نائب صدر وینکیا نائیڈو، پریم چند گپتا، مکھن لال فوطیدار، آنجہانی امر سنگھ،راجیو شکلا، مرحوم احمد پٹیل اور غلام نبی آزاد کا نام ذہن میں آتا ہے۔

ان میں سے بس چند ہی ایسے تھے، جوایک آدھ پنچایت یا لوکل کونسل کا انتخاب اپنے بل بوتے پر جیتنے کی سکت رکھتے ہوں،  ورنہ یہ صرف اپنے جوڑ توڑ، مہربان قسمت اور حکمت عملی ترتیب دینے کی وجہ سے’ماسٹر اسٹریٹجسٹ’کے نام سے مشہور ہوکر پارٹی اور اس کی اعلیٰ لیڈرشب کے لیے نہایت ہی اہمیت حاصل کرگئے ۔

گو کہ ہندوستان میں پچھلے کئی برسوں سے مقتدر اور عوامی لیڈروں کا اپوزیشن کانگریس پارٹی سے اخراج ہو رہا ہے، مگر آزاد جیسے شخص کا  حال ہی میں پارٹی کو خیر باد کرنا اور پھر پارٹی صدر سونیا گاندھی اور ان کے صاحبزادے راہل گاندھی کو اپنے خط میں معتوب ٹھہرانا، ایک ایسا واقعہ ہے جس سے کانگریس کو واقعی ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

کیونکہ آزاد کی پوری سیاست ہی گاندھی خاندان کے اردگرد ٹکی ہوئی تھی، اورگڑکیوں کے باوجود وہ ان کا دس بدستہ غلام تھا۔ اگر اس طرح کا لیڈر بھی اب گاندھی خاندان کو بے اثر،بے وقعت اور اپنے کیریر کا ذریعہ نہ سمجھتا ہو، تو معلوم ہوناچاہیے کہ اس پارٹی کی حالت واقعی قابل رحم ہے۔

تین سال یعنی 2005 سے  2008تک جموں و کشمیر کے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے علاوہ غلام نبی بٹ المعروف آزاد نئی دہلی میں سینئر مرکزی وزیر اور کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کانگریس ورکنگ کمیٹی کے برسوں تک ممبر اور پارٹی کے جنرل سکریٹری بھی رہے ہیں۔

ان کا تعلق جموں و کشمیر کے ڈوڈہ ضلع یعنی چناب ویلی کے بھلیسہ علاقہ کے گنڈو تحصیل کے ایک دور دراز دیہات سوتی سے ہے۔یہاں جانے کے لیے ابھی تک باقاعدہ سڑک نہیں ہے۔ گو کہ 1973میں کانگریس نے ان کو  بھلیسہ بلاک کا سکریٹری بنایا، مگر وہ اس علاقے میں نیشنل کانفرنس کے مقابلے بلدیاتی انتخاب تک  جیت نہیں پائے۔1977 کے اسمبلی انتخاب  اندروال حلقہ سے 900ووٹ لےکر ان کی ضمانت ضبط ہوئی۔

مگر اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور ان کے صاحبزادے سنجے گاندھی نے شاید ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کا ادراک کرکے ان کو پہلے  جموں و کشمیر پردیش یوتھ کانگریس کا اور بعد میں 1980 میں آل انڈیا یوتھ کانگریس کا صدر مقرر  کیا۔

اس طرح و ہ سنجے گاندھی کے ان مصاحبین میں شامل ہوگئے، جو بعد میں ہوائی حادثہ میں ان کی موت کے بعد نئے وزیر اعظم راجیو گاندھی کے آنکھ اور کان بن گئے۔ چونکہ جموں و کشمیر سے ان کا جیتنا ناممکن تھا، اس لیے 1980 اور 1984میں ان کو کانگریس نے دوبار مغربی صوبہ مہاراشٹر کی واشم لوک سبھا نشست سے جتوا دیا۔ 1982میں ہی اندرا گاندھی نے ان کو ڈپٹی منسٹر بنایااور تب سے وہ کانگریس دور میں مسلسل وزیر یا پارٹی کے جنرل سکریٹری کے عہدے پر براجمان رہے۔

انتہائی زیرک اور چالاک سیاستدان ہونے کے ناطے ان کو شاید علم تھا کہ کانگریس میں ان کا وجود کشمیری اور مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے،اس لیے وہ بھی پارٹی میں کسی دوسرے اپنے جیسے چالاک مسلمان سیاستدان کو برداشت نہیں کرتے تھے اور ان کو زچ کرکے باہر کی راہ دکھا کر یا آزردگی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور کرواتے تھے۔

سال 1990  کے بعد وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے اکثر کانگریسی لیڈران جنہوں نے دہلی اور جموں میں پناہ لی تھی اور وہ مرکزی کانگریس میں کسی رول کے خواہاں تھے کا کہنا ہے کہ ان کا کیریر آزاد نے برباد کردیا۔

سال1998میں جب سونیا گاندھی نے کانگریس کی صدارت سنبھالی، تو ان کے سیاسی مشیر مرحوم احمد پٹیل کے ساتھ ان کی خاصی ان بن رہتی تھی، جس کی وجہ سے آزاد کو کئی بار ایک طرح سے بن باس بھیجا گیا۔ مگر ان کے معتقدین کا کہنا ہے کہ جس طرح ہندو دیوتا بھگوان رام 14سالہ بن باس کے بعد کامیاب و کامران لوٹ آئے، اسی طرح آزاد بھی بن باس سے کامیابی کے ساتھ واپس آتے گئے۔

غالباً سن 2000میں ان کو جموں و کشمیر کی پردیش کانگریس کمیٹی کا صدر متعین کیا گیا۔ کئی ماہ تک وہ سرینگریا جموں کا چارج لینے کے لیے ہی نہیں جارہے تھے۔ وہ اپنے آپ کو کشمیری کے بجائے ایک مرکزی لیڈر کہلوانا پسند کرتے تھے۔

اس لیے اب ایک طرح سے یہ طے تھا کہ ان کا کیریر بطور مرکزی لیڈر اختتام کو آپہنچا ہے اور چونکہ جموں کے ہندو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ چلے گئے تھے اور وادی کشمیر میں نیشنل کانفرنس کسی اور پارٹی کو سیاسی جگہ دینے کی روادار نہیں تھی، اس لیے کانگریس کے لیے سیاسی زمین ڈھونڈنا ناممکنات میں سے تھا۔

ویسے بھی اس خطے میں کانگریس بھی مسلمانوں کا خوف دلا کر ہی جموں کے ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کا کام کرتی تھی۔یہ کارڈ اب بی جے پی کے پاس تھا۔مگر اس کو قسمت کہیے کہ 2002کے انتخابات میں کانگریس کو 20نشستیں حاصل ہوئی اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ مل کر اس نے حکومت بنائی۔

سال 2005 میں یعنی تین سال بعد 1975کے بعد پہلی بار انہوں نے بطور کانگریسی وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف اٹھایا، مگر 2008میں وادی کشمیر میں  99 ایکڑ جنگل اراضی ہندووں ‘شری امرناتھ جی یاترا’ کا انتظام و انصرام دیکھنے والے بورڈ کو منتقل کر دینے سے جب  پْرتشدد احتجاجی لہر شروع ہوئی، تو ان کی اتحادی پی ڈی پی نے حمایت واپس لےکر ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ مگر اگلے ہی سال وہ پھر مرکزی سرکار میں بطور وزیر صحت نظر آئے اور پارٹی میں ان کے مخالفین زمین پر لوٹتے دکھائی دیے۔

کشمیر کے بن باس سے واپسی کے بعد پارٹی میں ان کے مخالفین نے ان کو مزید زچ کرنے لیے 2004کے عام انتخابات سے قبل آندھرا پردیش کا انچارج بنوادیا۔ اس صوبہ میں ان دنوں وزیر اعلیٰ  چندرا بابو نائیڈو کا طوطی بولتا تھا۔ ان کی تیلگو دیسم پارٹی (ٹی ڈی پی) مرکز میں بی جے پی کی ایک اہم حلیف جماعت تھی اور اسی کی وجہ سے ہی ا ٹل بہاری واجپائی کی حلومت ٹکی ہوئی تھی۔

معاشی پالیسیوں اور صوبہ کو کمپیوٹر صنعت کا مرکز بنانے کے لیےکئی بین الاقوامی جریدوں نے نائیڈو کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کور اسٹوریز کی تھیں۔ تقریباً تمام رائے عامہ کے جائزے واجپائی حکومت کی واپسی اور نائیڈو کی کامیابی کے اشارے دے رہے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ میں چند دیگر ساتھیوں کی معیت میں یہ انتخاب کور کر رہا تھا کہ حیدر آباد سے محبوب نگر جاتے ہوئے چائے پینے کے لیے ایک ڈھابے پر رکا، معلوم ہوا کہ کانگریس پارٹی کی ایک ریلی آرہی ہے۔ ریلی میں ایک وین کی چھت سے آزاد اور مقامی کانگریس لیڈر راج شیکھر ریڈی ہاتھ ہلاکر لوگوں سے کانگریس کو ووٹ ڈالنے کی درخواست کر رہے تھے۔ آزاد نے ہمار ی طرف دیکھ کر بھی ہاتھ ہلایا اور شاید کچھ کہہ بھی رہے تھے۔

ریلی کے گزرنے کے بعد ایک گاڑی ہمارے سامنے رکی اور استفسار کیا کہ کیا ہم دہلی سے آئے ہوئے صحافی ہیں اور بتایا کہ دس کلومیٹر دور اسی سڑک کے کناے ایک ڈاک بنگلہ میں آزاد لنچ کریں گے اور انہوں نے پیغام بھیجا ہے کہ وہ اس دوران  ہم سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ لنچ کرتے ہوئے ان سے خاصی گفتگو ہوئی۔

خیر تمام تر رائے عامہ کے جائزوں کو پس پشت ڈال کر اس صوبہ میں چندرا بابو نائیڈو کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کانگریس کی قیادت والے متحدہ ترقی پسند اتحاد کو 41میں 36سیٹیں حاصل ہوئی۔ اس ایک صوبہ نے واجپائی  حکومت کوبے دخل کرکے اگلے دس سالوں تک منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

اسی طرح جنوبی صوبہ تامل ناڈو میں دو بار اور چھتیس گڑھ اور جھار کھنڈ میں بطور انچارج دیگر سیکولر جماعتوں کے ساتھ سیٹوں کے تا ل میل اور اتحاد کی وجہ سے انہوں نے کانگریس اور اس کی اتحادی پارٹیوں کو کامیابی دلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اسی لیے آزاد کے ساتھ ایک سرد جنگ کے باوجود، گاندھی خاندان مشکل حالات میں آزاد کو ذمہ داریاں تفویض کرتا تھا۔

کانگریس کے اکبر روڈ صدر دفتر میں تو یہ زبان زد و خاص عام تھا کہ آزاد کے ہاتھ میں چراغ جلتا ہے یعنی نہایت ہی قسمت والا ہے اور کڑ کڑ کرنے یا رنجیدہ ہو کر خول میں بیٹھنے کے بجائے سزا کو بھی جزا میں تبدیل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔وہ 1996 سے لگاتار ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے رکن رہے اور  2014سے اس ایوان میں لیڈر آف اپوزیشن تھے۔

 آزاد کانگریس پارٹی کا ایک ایسا ’مسلمان‘ چہرہ تھا جس کو وہ ہندو اکثریتی علاقوں میں بھی انتخابی مہم کے لیے استعمال کرتی تھی۔ تاہم ہندوستان میں بی جے پی اور ‘ہندو نیشنلسٹ سیاست’ کے عروج کے بعد کانگریس نے انہیں مبینہ طور پر نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔ 2018 میں لکھنو میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ کی طرف سے یوم سر سید کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے  انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ؛

سال  1973ء  میں کانگریس میں شمولیت کے بعد سے لےکر آج تک انہوں نے ہر انتخابی مہم میں شرکت کی ہے اورہندو لیڈر، ان کو اپنے انتخابی حلقوں میں لیجانے کےلیے بے تاب ہوتے تھے۔پہلے جہاں جلسے جلوسوں میں ان کو مدعوکرنے کے لیے 95فیصد درخواستیں ہندو لیڈروں کی آتی تھیں، اب پچھلے چار سالوں میں سکڑ کر محض 20فیصد رہ گئی ہیں۔

میں نے  اپنے انتخابی کیریئر کا آغاز ہی  1980ء میں مہاراشٹر کے ہندو اکثریتی لوک سبھا حلقہ واسن سے کیا۔یوتھ کانگریس کے دنوں سے لے کر اب تک میں نے ملک بھر میں پارٹی کے لیے انتخابی مہم چلائی ہے لیکن اب پارٹی کے امیدوار مجھے ہندو اکثریتی علاقوں میں بلانے سے ڈرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اگر میں انتخابی مہم کا حصہ بن گیا تو پتہ نہیں اس کا رائے دہندگان پر کیا اثر ہو گا۔’

وہ اکثر فخراً یہ کہتے تھے کہ ان کا سیاسی کیریر اقلیتی سیاست کے بجائے ہندوستان کے سیکولر ہندو اکثریت کا مرہون منت ہے۔

بطور وزیر صحت مجھے یاد ہے کہ ایک روز صبح سویرے ان کا فون آیا کہ کسی وقت ان سے دفتر میں آکر ملوں۔ کشمیر ٹائمز کے دہلی بیورو کے لیے کام کرنے کی وجہ سے ان کو کور کرنا بیٹ کا ایک حصہ تھا۔ خیر آفس جاتے ہوئے میں نرمان بھون میں وزارت صحت کے ہیڈ کوارٹرز پہنچا اور ان کے پی اے راما چندرن کا دروازہ کھٹکھٹایا، جس نے مجھے انتظار گاہ میں بیٹھنے کے لیے کہا۔

جنوبی ہندوستان  کا یہ سانولا گھٹے جسم کا مالک پی اے ان کا خاصہ نک چڑھا ملازم تھا۔ میں نے دیکھا کہ وزیر موصوف کے کمرے کے باہرسبز بتی جل رہی تھی، جس کا مطلب تھا کہ وہ کسی میٹنگ میں مصروف نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ راما چندرن جی انتظار گاہ میں آرہے افراد کو ایک ایک کرکے یا وفد کی صورت میں وزیر کے کمرے میں لے جارہے تھے۔میں نے ان کو یاد دلایا کہ وزیر موصوف نے خود مجھے بلایا ہے۔

قریباً ایک گھنٹے تک نظر انداز کرنے کے بعد پی اے نے مجھے اپنے کمرے میں بلا کر پرسوں ملاقات کے لیے آنے کو کہا۔ کیونکہ کل وزیر دہلی سے باہر ہیں۔میرے بار بار کے اصرار پر وجہ یہ بتائی کہ آج ملاقاتیوں کی لسٹ میں مسلمان نام کچھ زیادہ ہیں؛

ہمیں وزیر سے ملنے والوں میں توازن رکھنا پڑتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم ایک سیکولر ملک میں ہیں او راس کا تقاضہ ہے کہ وزیر سے ملنے والوں کی لسٹ بھی سیکولر ہو۔ آج کی لسٹ میں ہندو ملاقاتیوں کی تعداد کچھ کم اور مسلمان زیادہ ہیں۔

راما چندرن کی یہ توضیح سن کر میں چکرا گیا۔لیکن جاتے جاتے ان کو بتایا کہ آزاد صاحب خاص طور پر اس وقت وزارتی کونسل میں صرف مسلمان اور کشمیر ی ہونے کی حیثیت سے ہیں۔راما چندرن کی سیکولر ازم کی اس طرح کی توضیح کا شاید ان کو علم ہوگیا تھا اور بعدمیں  اسی لیے  انہوں نے ضلع ڈوڈہ کے ہی ایک کشمیری مسلم افسر خالد جہانگیر کو آفس میں متعین کیا۔

کیونکہ آزاد کے بارے میں ان کی پارٹی میں عام تھا کہ وہ ناقابل پہنچ ہیں اور ملاقاتیوں کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ راما چندرن جیسا ان کا پی اے تھا۔ جہانگیر کی آمد کے بعد یہ شکوہ بڑی حد تک دور ہوگیا۔

آزاد کا طرز عمل ایک روایتی سیاستدان جیسا تھا۔ وزارت صحت میں ان کے پیش رو تامل ناڈ کے انمبومنی رام داس نے مرکزی حکومت سے ایکریڈیٹڈ صحافیوں کو بہم صحت کی سہولیات ختم کر دی تھیں۔ ایکریڈیٹڈ صحافیوں کی انجمن پریس ایسوسی ایشن نے جب آزادسے اس کو بحال کرنے کی درخواست کی، تو انہوں نے ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں کو بلایا۔

میں ان دنوں ایسوسی ایشن کا نائب صدر تھا۔ انہوں نے مقررہ وقت پر اپنے سکریٹری کے علاوہ وزارت کے سکریٹری اور سینٹرل گورنمنٹ ہیلتھ سروس کے جوائنٹ سکریٹری کو تمام فائلوں کے ساتھ حاضر ہونے کا حکم دے دیا تھا۔ تاکہ بالمشافہ اس کا حل نکالا جائے۔

افسران بضد تھے کہ یہ سروس صرف مرکزی حکومت کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ اہلکاروں کے لیے ہے اور صحافیوں کو چونکہ جوائنٹ سکریٹری درجہ کی سہولیات دی گئی تھیں، اس سے اس سروس پر بوجھ پڑتا ہے۔ فائلوں پر کئی نوٹ لکھے گئے تھے۔

ہم نے جب پوچھا کہ پچھلے کئی برسوں کا ڈیٹا نکالا جائے کہ کتنا بوجھ صحافیوں کی وجہ سے اس سروس پر پڑا ہے، آزاد نے اس گفتگو اور بحث کو ختم کرتے ہوئے، افسران کو بتایا کہ   ؛

ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں اور جمہوریت کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ پریس اس جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے۔ چاہے وہ ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہوں، ان کی بہبودی کا خیال رکھنا لازمی ہے۔

بس اگلے چند دن کے بعد ہی یہ سروس بحال کر دی گئی۔مگر افسران نے ڈنڈی یہ ماری کہ اس میں صحافیوں کی فیملی کو شامل نہیں کیا۔ جب دوبارہ ان کے نوٹس میں لایا، تو فیملی کو بھی شامل کردیا گیا۔ ایک روایتی سیاستدان اس طرح کی ویلفیئر سروسز کو خزانہ عامرہ پر بوجھ تصور نہیں کرتا ہے۔ویسے بھی یہ سروس بڑے میڈیا ہاؤسز کے صحافی استعمال نہیں کرتے تھے۔ چھوٹے میڈیا ہاؤسز سے منسلک اور ریٹائرڈ معمر صحافیوں کے لیے یہ ایک طرح کی سوشل سیکورٹی تھی۔

خیر چونکہ آزاد نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اپنی سیاست کا دوسرا دور جموں و کشمیر سے شروع کرنے والے ہیں، اپنے سیاسی قد و قامت کی وجہ سے وہ جموں کی  33فیصد مسلم آبادی کے لیے ایک مداوا بن سکتے ہیں۔

کشمیر میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، پیپلز کانفرنس اور دیگر پارٹیوں کی موجودگی کی وجہ سے اور جموں کی ہندو سیٹوں پر بی جے پی کے اثر و نفوذ کی وجہ سے شاید ہی ان کی دال گل سکے، مگر جموں کی 43 نشستوں میں تقریباً 17 ایسی سیٹیں ہیں، جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ آبادی سیاسی طور پر یتیم ہونے کے علاوہ فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں بر ی طرح کھٹک رہی ہے۔

اس خطے میں 1947میں مسلم اکثریت کو بس چند ماہ میں اقلیت میں تبدیل کیا گیا تھا۔ دی ٹائمز لندن کی 10اگست 1948کی ایک رپورٹ کے مطابق دو لاکھ37ہزار افراد کا قتل کیا گیا۔ جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہے، کہ کوئی یقین ہی نہیں کر پارہا ہے۔

اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ   1947میں  جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی32 لاکھ اور ہندووں کی آٹھ لاکھ تھی۔وادی کشمیر میں 93 فیصد جبکہ جمو ں میں 69فیصد مسلم آبادی  تھی۔۔

عسکریت پسندوں سے نپٹنے کے نام پر ایک دہائی قبل اس ایریا میں ہندو دیہاتیوں کو ولیج ڈیفینس کمیٹی کا نام دیکرمسلح کیا گیاتھا۔ اب عسکریت پسند تو نہیں رہے، مگر یہ مسلح افراد اب آئے دن دیہاتوں میں مسلم خاندانوں کو تنگ کر رہے ہیں۔مسلمان گوجروں اور بکر والوں کی بستیوں کو ٹھنڈی، سنجواں، چھنی،گول گجرال، سدھرا، ریکا، گروڑا اور اس کے گرد و نواح سے ہٹایا گیاہے۔

یہ زمینیں مہاراجہ ہری سنگھ کے حکم نامہ کے تحت 1930ء میں ان لوگوں کو دی گئی تھیں۔لگتا ہے، کہ منصوبہ بند سازش کے تحت مسلم آبادی کو شہری علاقوں کی طرف دھکیلنے کی کارروائی ہو رہی ہے۔ تاکہ آئندہ کسی وقت 47ء کو دوہرا کر اس آبادی کو وادی کشمیر کی طرف ہجرت پر مجبور کرایا جاسکے۔ 1948ء میں چودھری غلام عباس کے پاکستان چلے جانے کے بعد اس خطے کے مسلمانوں کو کوئی مضبوط لیڈر شپ نہیں ملی ہے۔

وادی کشمیر اور جموں کی مسلم آبادی میں ایک واضح فرق ہے۔ کشمیر میں عمومی طور پر یکساں نسل و نسب کے برعکس جموں میں مسلمان پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی طرح قبیلوں اور برادریوں سید، مغل، جاٹ، سدن، گوجر، راجپوت وغیرہ کے بندھنوں میں گرفتا ر ہیں۔

مگر خاص بات یہ ہے کہ ہندوستان کی سیاسی یا مذہبی تحریکوں کا اس خطے پر خاصا اثر ہے۔ چونکہ پونچھ ضلع سے اکثر طالب علم دارلعلوم دیوبند پڑھنے کے لیے آتے ہیں، اس لیے جمعیت العلماء ہند سے بھی بیشتر افراد نسبت رکھتے ہیں۔ وادی کشمیر کے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے اس طرح کی لہریں وہاں نہیں پہنچتی ہیں۔بقول چودھری غلام عباس اس وجہ سے چاہے سیاسی ہو یا مذہبی کشمیری مسلمان اپنے اندرونی لیڈروں کی آواز کو ہی حرف آخر تصور کرتے ہیں۔

ویسے تو آزاد پر الزام ہے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے تئیں سافٹ کارنر رکھتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے نہایت ہی اہم موڑ پر کانگریس کا ہاتھ چھوڑ کر سیکولر قوتوں کو کمزور کیا ہے۔ اگست 2019کے اقدامات کے بعد سے تو مرکزی حکومت کو لگتا ہے کہ اس نے  ایک بجلی کی تار پر پاؤں رکھا ہے، اور اس کو ہٹانے کی صورت میں کوئی دھماکہ ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف بین الاقوامی برادری کو دکھانے کے لیے اس کو ایک منتخب حکومت لانے کی بھی جلدی ہے۔ مگر وہ یہ منتخب حکومت کشمیری پارٹیوں یعنی پی ڈی پی یا نیشنل کانفرنس کے ہاتھوں میں دینا نہیں چاہتی ہے۔ اس کو خدشہ ہے کہ کشمیری پارٹیاں 2019کے بعد اٹھائے گئے کئی اقدامات کو واپس نہ کردیں۔

اس لیے وہ وقتاً فوقتاً تجربات کرکے ایسی اسمبلی لانے کے فراق میں ہے، جو منتخب بھی ہو، اور جو مرکزی حکومت کے 2019کے اقدامات کی تائید بھی کرے۔ جموں خطے میں مجموعی طور پر 23فیصد آبادی دلتوں پر مشتمل ہے، جن کو کشمیری پارٹیوں بشمول حریت کانفرنس نے کبھی گھاس نہیں ڈالی اور ان کو ہندو وں کے ہی کھاتے میں ڈالا۔

آزاد اگر مرکزی حکومت کے مشن کے تحت نہیں آئے ہیں اور حقیقتاً آزاد سیاسی لیڈر کا رول ادا کرنا چاہتے ہیں، تو اس خطے کی 33فیصد مسلم آبادی اور 23فیصد دلت آبادی کا ایک مشترکہ اتحاد قائم کرکے اپنی سیاست کو دوام بخش کر فرقہ پرستوں کو بھی خاصی حد تک لگام لگا سکتے ہیں۔ ان کے پاس آزادانہ سیاست کرنے کا بس یہی ایک راستہ ہے۔ ورنہ ان کی اس دوسر ی سیاسی پاری کو بھی ان کی غلامی کے دور کے ہی ایک ایکسٹنشن کے طور پر یاد کیا جائےگا۔