خبریں

یوپی حکومت کا مدارس کا سروے کرانے کا قدم اس تعلیمی نظام کو بے معنی قرار دینے کی کوشش ہے: جمعیۃ

اتر پردیش کی حکومت نے ریاست کے غیرتسلیم شدہ مدارس کا سروے کرانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے بارے میں جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ مدارس فرقہ پرستوں کی نظرمیں کھٹکتے ہیں اور انہیں بدنام نہیں کیا جانا چاہیے۔

(علامتی تصویر: رائٹرس)

(علامتی تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: جمعیۃ علماء ہند نے ‘ہر قیمت پر’ مداراس کا دفاع کرنے کی بات کرتے ہوئےمنگل کو کہا کہ ریاستی حکومت کا اتر پردیش میں مدارس کا سروے کرانے کا قدم اس تعلیمی نظام کو بے معنی بتانے  کی بدنیتی پر مبنی کوشش ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کے ارشد مدنی (اے ایم) کی قیادت والےگروپ اور محمود مدنی (ایم ایم) کی قیادت  والےگروپ نے منگل کو زور دے کر کہا کہ مدارس فرقہ پرستوں کی نظرمیں کھٹکتے ہیں اور ان مدارس کو بدنام نہیں کیا جانا چاہیے۔

جمعیۃ علماء ہند نے ریاستی حکومت کے فیصلے کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے مدرسہ چلانے والوں  کی ایک میٹنگ کے بعد ایک ‘ہیلپ لائن نمبر’ کا اعلان کیا،  تاکہ مدارس کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو وہ اس سے رابطہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ان معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی ہے۔

آزاد مدارس بالخصوص اتر پردیش  کے مدارس کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں قومی دارالحکومت واقع  جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر میں ‘مدارس کی سلامتی’ کے موضوع پر ایک میٹنگ ہوئی۔

یہ میٹنگ اتر پردیش حکومت کی جانب سے غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرانے کے پس منظر میں ہوئی ہے۔

جمعیۃ علماء ہند نے ایک بیان میں کہا کہ دیوبند کے دارالعلوم، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ اور مظاہر العلوم، سہارنپور جیسے ممتاز مدارس کے 200 سے زائد نمائندوں نے اجلاس میں شرکت کی۔

تنظیم نے کہا کہ میٹنگ میں ریاستی حکومت کی ‘رجعت پسندانہ ذہنیت’ پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

بیان کے مطابق، اس میٹنگ میں جمعیۃ (ایم ایم) کے سربراہ مولانا محمود مدنی نے الزام لگایاکہ حکومتیں مخالفانہ رویہ اپنا کر لوگوں میں انتشار اور بدامنی پیدا کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ برادریوں کے درمیان دیوارکھڑی  کرتی ہے جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتوں کو ایسے رویہ سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس ملک میں مدارس کا بہت شاندار اور تاریخی کردار ہے اور اس نے ہمیشہ ملک کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ آج بھی مدارس ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ کمزور طبقے کے بچوں کو تعلیم کی فراہمی میں رول ادا کر رہے ہیں۔

محمود مدنی نے کہا کہ،یہاں  سے پڑھ کر باہرنکلنے والے لوگ ذمہ دار اور محب وطن ہوتے ہیں۔ مدارس کے لوگوں کو یہ بتانا واقعی بدنیتی پر مبنی فعل ہے کہ وہ ملک کے نظام پر عمل نہیں کررہے، اس کا مناسب اور مؤثر جواب دینا ضروری ہے۔

بیان کے مطابق، اجلاس میں تین نکاتی تجویز کو بھی منظوری دی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ مدارس میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (این آئی او ایس) یا کسی اور شکل میں جدید تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کو اہم بتایا گیا ہے۔

محمود مدنی نے بتایا کہ آگے کی  کارروائی کے لیے 13 رکنی اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں وہ اور ارشد مدنی کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن کمال فاروقی وغیرہ شامل ہیں۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق، مولانا محمود مدنی نے کہا کہ اس معاملے پر حکومت سے ملاقات کی جائے گی، پھر ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو مدارس کے مسائل کو دیکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام کتنا ہی درست کیوں نہ ہو لیکن اگر غلط طریقے سے کیا جائے تو غلط ہے۔

انہوں نے کہا، ہم ایسے بچوں کو تعلیم دیتے ہیں جو دوسری صورت میں کبھی نہیں پڑھ سکتے۔ ملک میں پچھلے سو سالوں میں مدارس نے جو کام کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ آج مدارس کو غلط نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

مدنی نے کہا، میڈیا جس طرح مدارس کو پیش کر رہا ہے، اس سے دونوں برادریوں کے درمیان فاصلے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہم اس ملک کے تھے اور رہیں گے۔ زبردستی نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں مل  بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ حکومت سے آج ہی ملاقات کی درخواست کریں گے۔ حکومت کو شک کیے بناکام کرنا چاہیے۔ جس طرح سے دکھایا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔

تنظیم کی طرف سے جاری بیان کے مطابق جمعیۃ (اے ایم) کے سربراہ مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ سسٹم میں بہتری لانے کی باتیں اپنی جگہ، لیکن ہمیں ان کی (حکومت کی) نیت کو سمجھنا چاہیے …کیونکہ مدارس فرقہ پرستوں کی نظر میں  کھٹکتے ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ، ہم ہمیشہ نے کوشش کی ہے  کہ پرامن طریقے سے ہمارے مذہبی اداروں کو کام کرنے کی اجازت دی جائے، لیکن فرقہ پرست طاقتیں ہمارے وجود کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔

ارشد مدنی نے کہا کہ ،اسلامی مدارس کا وجود  ملک کی مخالفت کے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے ہے۔ اس کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ یہاں سے ہمیشہ ملک کی تعمیر کا کام ہوا ہے۔

این ڈی ٹی وی کے مطابق، جمعیہ علماء ہند کے جنرل سکریٹری نیاز فاروقی نے کہا، ہمیں سروے سے مسئلہ نہیں ہے،بلکہ حکومت کی نیت خراب ہے۔ حکومت  ہمیں بتائے کہ سروے کے ذریعے بہتری کیسے آئے گی۔ ہم مدارس میں ہر اصول پر عمل کر رہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی حالت کتنی خراب ہے۔ سرکاری اسکولوں کی چھتیں گر رہی ہیں۔ ہم پوچھ رہے ہیں کہ کیا مدارس کے علاوہ دیگر مذہبی تعلیمی اداروں کا بھی سروے ہونا چاہیے؟

وہیں، اسلامی تعلیمی ادارے دارالعلوم دیوبند کے وائس چانسلر مفتی ابوالقاسم نعمانی نے کہا، ہمیں مدارس کے اندرونی نظام کو ٹھیک کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ خاص طور پر ہاسٹل وغیرہ سے متعلق انتظامات پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ظالموں کے عزائم سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

واضح ہو کہ اتر پردیش کے وزیر مملکت برائے اقلیتی بہبود دانش آزاد انصاری نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ریاستی حکومت نے مدارس میں طلبا کو بنیادی سہولیات کی  فراہمی کے لیے قومی کمیشن برائے تحفظ اطفال کی ضرورت کے مطابق ریاست کے  تمام غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اسے جلد شروع کیا جائے گا۔

ریاست کے وزیر مملکت برائے اقلیتی بہبود دانش آزاد انصاری نے کہا تھا کہ سروے میں مدرسہ کا نام، اسے چلانے والے ادارے کا نام، مدرسہ کسی پرائیویٹ عمارت میں چل رہا ہے یا کرائے کی عمارت میں اس کی جانکاری، اس میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد، پینے کے پانی، فرنیچر، بجلی کی فراہمی اور بیت الخلاء کے انتظامات، اساتذہ کی تعداد، مدرسہ میں نافذ نصاب، مدرسہ کی آمدنی کا ذریعہ اور کسی غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ مدرسہ کے الحاق سے متعلق معلومات جمع کی جائیں گی۔

اس سے قبل مئی 2022 میں اتر پردیش کے تمام مدارس میں قومی ترانہ ‘جن گن من’ گانے کو  لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے رجسٹرار ایس این پانڈے نے اس سلسلے میں تمام ضلع اقلیتی بہبود افسران کو حکم جاری کیا تھا۔

 جنوری 2018 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اتر پردیش مدرسہ بورڈ کے ویب پورٹل پر اپنی تفصیلات نہیں دینے والے تقریباً 2300 مدارس کی منظوری  ختم ہونے کو ہے۔ ریاست کے محکمہ اقلیتی بہبود نے ایسے مدارس کو فرضی قرار دیا ہے۔

تب ریاست کے اقلیتی بہبود کے وزیر چودھری لکشمی نارائن نے بتایا تھا کہ ریاست میں 19108 مدارس  ریاستی مدرسہ بورڈ سے تسلیم شدہ تھے، جن میں سے 16808 مدارس نے اپنی تفصیلات پورٹل پر ڈال دی ہیں۔ تقریباً 2300 مدارس نے اپنی تفصیلات نہیں دی تھیں، جنہیں حکومت  نے فرضی قرار دیا تھا۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)