خبریں

ہندوستان میں اس سال جولائی تک عیسائیوں پر 300 سے زیادہ حملے ہوئے: این جی او

غیر سرکاری تنظیم یونائیٹڈ کرسچن فورم نے اپنی ہیلپ لائن پر مدد کے لیےآئے فون کال کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ 2022 کے پہلے سات مہینوں میں ملک میں عیسائیوں کے خلاف ہوئے حملوں میں اتر پردیش سرفہرست اور چھتیس گڑھ دوسرے نمبر پر ہے۔

(علامتی تصویر: رائٹرس)

(علامتی تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) کی جانب سے جاری  ہیلپ لائن نمبر پر مدد کے لیےآئے فون کال کی بنیاد پر جمع کیے گئے ڈیٹا سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس سال جولائی تک عیسائیوں پر 300 سے زائد حملے ہو ئے ہیں۔

ان میں زبانی، جسمانی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے ہوئے حملے کے اعداد وشمار شامل ہیں۔

یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) کے مطابق،  2022 کے پہلے سات مہینوں میں عیسائیوں کے خلاف 302 حملے ہوئے۔ فورم نے یہ ڈیٹا اپنی ہیلپ لائن پر مدد کے لیے موصول ہونے والی فون کالز کی بنیاد پر جمع کیا ہے۔

یو سی ایف  ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ اس کی 1-800-208-4545 ہیلپ لائن 19 جنوری 2015 کو شروع کی گئی تھی تاکہ مصیبت میں گھرے لوگوں ،بالخصوص ایسے  لوگ جو قانون سے واقف نہیں ہیں، ان کو کو مدد اور قانونی امداد فراہم کی جا سکے۔

دہلی میں واقع اس تنظیم نے اپنا ڈیٹا دی وائر کے ساتھ شیئر کیا، جس میں اس سال جنوری اور جولائی کے درمیان ریاست میں ہوئے کیسوں کو جمع کیا گیا ہے۔

یو سی ایف کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اتر پردیش میں اس طرح کے 80 سے زیادہ معاملے ریکارڈ کیے گئے، جو کہ کسی بھی ریاست میں سب سے زیادہ معاملے  ہیں۔ اس کے بعد چھتیس گڑھ کا نمبر آتا ہے، جہاں اس طرح کے 60 معاملے  درج کیے گئے۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق ممبر اور یو سی ایف کے نیشنل کوآرڈینیٹر اے سی مائیکل نے کہا، ہندوستان میں دو اقلیتی برادریاں نشانے پرہیں، مسلمان اور عیسائی، جن پر حملے ہو رہے ہیں۔ جب ہم حملوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ہمارا مطلب صرف جسمانی حملوں سے نہیں ہوتا۔ ہمیں نام نہاد تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین کو بھی ذہن میں رکھنا ہوتا  ہے۔ جب ہم مذہب کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو یہ قوانین لوگوں کو اپنے منتخب مذہب کی پیروی کرنے کا اختیار نہیں دیتے۔

مائیکل نے مزید سوال کیا، عدلیہ کو ایسے قوانین کی ضرورت کو سمجھنے کے لیے حکومتوں سے سوال کرنے کی ضرورت ہے۔ کتنے لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرایا جا رہا ہے؟ ان لوگوں کا کیا جو اپنی مرضی سے اپنا مذہب تبدیل کر رہے ہیں؟

غور طلب ہے کہ گزشتہ ہفتے ہی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ عیسائیوں پر حملوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والی پی آئی ایل مختلف خبر رساں اداروں کی ‘رضاکارانہ رپورٹ’ پر مبنی ہے، اس لیے اس کی سماعت نہیں کی جانی چاہیے۔

بتادیں کہ بنگلورو کے آرچ بشپ پیٹر مچاڈو، نیشنل سالیڈیریٹی فورم اور ایوینجلیکل فیلوشپ آف انڈیا کی طرف سے دائر ایک عرضی اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، جس میں عیسائیوں کے خلاف مظالم کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس میں عرضی گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ جنوری سے دسمبر 2021 کے درمیان مسیحی برادری کے خلاف 505 سے زائد حملے ہوئے اور 2022 میں یہ تعداد بڑھی ہے۔

ایک ستمبر کو اس معاملے کی سماعت کے دوران عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کولن گونجالویس نے کہا، گزشتہ ایک سال میں مسیحی برادری کے خلاف تشدد کے 700 سے زیادہ واقعات درج کیے گئے ہیں۔

عرضی میں دعویٰ کیا گیا کہ صرف رواں سال مئی میں 57 سے زائدمعاملے  سامنے آئے تھے۔

تاہم، مرکزی حکومت نے اس کے خلاف دلیل دی تھی کہ یہ مقدمات خبر رساں اداروں کی ‘رضاکارانہ رپورٹ’ پر مبنی ہیں اور عرضی میں مذکور 162 معاملے زمینی سطح کی تصدیق میں فرضی پائے گئے ہیں۔

لیکن، سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر پی آئی ایل میں درج مقدمات میں سے 10 فیصد بھی درست ہیں، تو اس معاملے کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہے اوراس نے  مرکزی وزارت داخلہ سے عیسائیوں پر حملوں کے بارے میں آٹھ ریاستوں سے رپورٹ طلب کرنے کو کہا۔

غور طلب ہے کہ دی وائر نے اس حوالے سے گزشتہ سال بھی ایک  فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا تھا کہ 2021 کے پہلے 9 مہینوں میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 300 سے زائدمعاملے درج کیے گئے تھے۔

(اس رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)