فکر و نظر

بلقیس کے قصورواروں کی معافی نے نو دیپ کے زخم کیوں ہرے کر دیے ہیں …

بلقیس بانو کیس کے 11 مجرمین کو رہا کیا گیا تو نودیپ نے مجھے فون کیا، وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ اپنا درد یاد کر رہی تھی۔اس کو لگا جیسے وہ ایک بار پھر  ملک کے قانون کے ہاتھوں شرمسار ہو گئی۔ مجھے لگا کہ یہ نہ صرف نودیپ بلکہ عصمت دری کا شکار ہونے والی ہر عورت کی اخلاقی شکست ہے۔

بلقیس اپنی بیٹی کے ساتھ۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

بلقیس اپنی بیٹی کے ساتھ۔ (فائل فوٹو: رائٹرس)

جب حال ہی میں مغربی صوبہ گجرات کی حکومت نے یوم آزادی کے موقع پر بلقیس بانو کے گینگ ریپ کے مجرموں کو نہ صرف عام معافیاں دیں، بلکہ رہائی کے بعد جس طرح سے ان کا استقبال کیا گیا، تو مجھے 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں ایسے ہی کیس کی متاثرہ نودیپ کی یاد آگئی۔

میری ملاقات نودیپ سے 2015 میں ہوئی تھی، جب میں دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران اسٹوری کرنے تلک وہار گئی تھی۔ مغربی دہلی میں تلک وہار ان ہزاروں بیواؤں کا گھر ہے، جنہوں نے 1984 کے دہلی سکھ فسادات کے دوران اپنے شوہر اور گھر کھو دیے تھے۔

اس سال یہ علاقہ خاصا چرچا میں آیا تھا کیونکہ دہلی کے اسمبلی انتخابات سے عین قبل نریندر مودی حکومت نے 1984 کے دہلی فسادات کی نئی انکوائری شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔

نودیپ نے  2 نومبر 1984 کو اپنے والد کو اس وقت  کھو دیا تھا، جب مشرقی دہلی کے ترلوک پوری علاقے میں ہندو ہجوم نے سکھوں کے گھروں پر حملہ کیا تھا۔  ہجوم نے اس کےگھر کو آگ لگائی اور اس کے والد کو ان کی منت و سماجت کے باوجود آگ کے شعلوں کے حوالے کردیا۔

پھر نودیپ اور اس کی ماں کو اس قدر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا کہ ماں، بیٹی بس موت کی بھیک مانگ رہی تھی۔ پر ہجوم باری باری اس کو پوری رات مسلتا رہا ۔ اوپر، نیچے، دائیں ، بائیں۔ غرض ہر طرف قہقہہ لگاتے فسادی اپنی مردانگی کا مظاہرہ کرنے کےلیے بے تاب نظر آرہے  تھے۔

نودیپ آہ وبکا کرنے کے بعد بے ہوش ہو گئی تھی اور ابھی بھی اس واقعے کو یاد کرکے لرز اٹھتی ہے۔وہ بس گوشت کا ایک لوتھڑا تھی، جس کو گدھ نوچ رہے تھے۔

اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو صرف دو روز قبل ان کے سکھ محافظوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔  اگلے تین دنوں تک، گاندھی کے قاتلوں کے ہم مذہبوں سے  بدلہ لینے کےلیے فسادیوں کو کھلی چھوٹ دی گئی تھی۔

نودیپ کی ماں کبھی بھی اس صدمے سے باہر نہیں آسکی۔ آج 75 سال کی عمر میں وہ بستر تک محدود ہیں۔ نودیپ اور اس کا بھائی جو اس وقت آٹھ اور سات سال کے تھے، اپنی تعلیم کبھی مکمل نہیں کر سکے۔ گھر چلانے کے لیے مجبور ہو کر اسے سکول چھوڑنا پڑا۔ وہ قریبی تلک نگر بازار میں ایک کاسمیٹک شاپ میں سیلز پرسن کے طور پر کام کرتی ہے۔  اس کا چھوٹا بھائی کارمکینک کا کام کرتاتھا۔ مگر اب اسے شراب کی لت لگ گئی ہے اور وو اپنی  ماں یا بہن کا سہارا نہیں بن پایا۔

ان فسادات میں ان گنت سکھ خواتین کی عزتیں لوٹیں گئی تھیں۔ خواتین فسادیوں کا پہلا نشانہ بنتی ہیں۔ گو کہ مردوں کو قتل کیا جاتا ہے، خواتین کو ہر لمحہ قتل ہونے کےلیے زندہ رکھا جاتا ہے۔  نودیپ، اس کی والدہ اور محلے کی دیگر خواتین نے فسادات کی انکوائری کرنے والے کئی کمیشنوں کے سامنے تحریری بیانات دیے اور اپنے اوپر ہوئی ظلم کی داستان رقم کروائی۔

ہر انکوائری کمیٹی اور کمیشن نے اعتراف کیاکہ فسادات کے وقت بھیانک عصمت دری کی وارداتیں پیش آئی تھیں۔  لیکن تقریباً چالیس سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود  کسی بھی قصوروار کو نہ سزا ہوئی نہ ہی گینگ ریپ کے واقعات کی پولیس کے ذریعے تحقیقات  ہی آگے بڑھ پائی۔

جب 15 اگست کو گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کیس کے 11 مجرمین کو رہا کر دیا گیا، تو نودیپ نے مجھے فون کیا، وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پا رہی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ اپنا درد یاد کر رہی تھی۔ بلقیس کے قصور واروں کی رہائی سے اس کو لگتا تھا کہ وہ خود ایک بار پھر  ملک کے قانون کے ہاتھوں شرمسار ہو گئی ہے۔ مجھے لگا کہ یہ نہ صرف نودیپ بلکہ عصمت دری کا شکار ہونے والی ہر عورت کی اخلاقی شکست تھی۔

فسادات کی تاریخ کے صفحات کو پلٹنے سے پتہ چلتا ہے بلقیس بانو کا کیس واحد ایسا معاملہ تھا، جہاں قصورواروں کو قانون کے ذریعے سزا دی گئی تھی۔ یہ ایک واٹرشیڈ مومنٹ تھی جب ملک کی تاریخ میں پہلی بار فسادات کے وقت جنسی تشدد کا شکار ہونے والے کو انصاف فراہم کیا گیا تھا اور قصور واروں کو عدالت نے مجرم قرار دےکر عمر قید کی سزا سنائی۔

مگر جب 15 اگست کو گجرات صوبے نے 11 ملزمان کو معافی دے کر رہا کر دیا، تو اس سے نہ صرف بلقیس کے زخم پھر سے تازہ ہو گئے، بلکہ ہندوستان کی ہر عورت  انصاف کے اس اسقاط کو دیکھتی رہ گئی۔ اس گھناؤنے جرم کے مجرموں کو کٹہرے میں لانے کے لیے ایک عدالت سے دوسری عدالت اور ایک صوبے سے دوسرے  صوبے تک جو برسوں کی لڑائی ہوئی، اس کو قلم کے ایک جھٹکے سے صاف کر دیا گیا۔

اور یہ سب کچھ اس وقت ہوا، جب وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی میں لال قلعہ کی فصیل سے عوام سے خطاب کرتے ہوئے ’ناری شکتی‘ یعنی خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کہی۔


یہ بھی پڑھیں: اداریہ: بلقیس کی انصاف کی لڑائی اب ملک کی ذمہ داری ہے


ہندوستان کی آزادی ہی فرقہ وارانہ فسادات اور خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات سے شروع ہوئی۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں پر بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان فسادات میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ تاریخ کے صفحات لوٹ مار، آتش زنی اور جنسی حملوں کی داستانوں سے لال پڑے ہیں۔

آزاد ہندوستان نے تقریباً 60000 فسادات دیکھے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق، 2014 میں نریندر مودی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد 2020 تک ہندوستان کے کئی حصوں میں کل 5714 فسادات رپورٹ کیے گئے ہیں۔ یعنی روز دو فسادات ہوئے ہیں۔

وقتاً فوقتاً متواتر حکومتوں کی طرف سے تشکیل کی گئی کمیٹیوں نے دہلی فسادات کی تحقیقات کی ہیں۔ تمام کمیٹیوں نے اپنی رپورٹوں میں عصمت دری کی شکار خواتین کی شہادتیں منظر عام پر لائی ہیں۔ لیکن کبھی کسی پر عصمت دری کا مقدمہ نہیں چلا۔ یہاں تک کہ 147 پولیس اہلکاروں پر بھی مختلف الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا۔

بلقیس بانو کا سفر بھی آسان نہیں رہا۔ 3 مارچ 2002 کو بلقیس جو کہ اس وقت 21 سال کی تھیں پانچ ماہ کی حاملہ تھیں اور اس کی گود میں اس کی 3 سال کی بیٹی تھی۔ عصمت دری کرنے والوں نے بچی  کوچھین کرہوا میں اڑایا۔ زمین پر گرنے سے بچی کا سر پھٹ گیا اور وہ دم توڑ گئی۔

بلقیس،  اس کی  ماں، بہنوں اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ کئی مردوں نے زیادتی کی۔ جبکہ اس کے خاندان کے 12 افراد کی موت ہوگئی، وہ اس آزمائش کو بیان کرنے اور انصاف کے حصول کے لیے زندہ بچ گئی۔

 تیستا سیتلواڑ اور سینئر پولیس افسر سنجیو بھٹ جیسے لوگ ہی تھے جنہوں نے بلقیس کو انصاف دلانے میں مدد کی۔ لیکن سچ کے لیے کھڑے ہونے  کی بھاری قیمت انہوں نے  ادا کی اور اب بھی کر رہے ہیں اور زیادتی کرنے والوں کا رہائی کے بعد استقبال کیاگیا، جیسے وہ کسی جدو جہد آزادی کی وجہ سے جیلوں میں تھے۔

جب تک عصمت دری کے متاثرین کو انصاف نہیں ملے گا تب تک خواتین فسادیوں کے  ہاتھوں شکار ہوتی رہیں گی۔ جیسا کہ انگلینڈ میں مقیم سکھ صحافی اور مصنف پاو سنگھ اپنی کتاب، 1984، انڈیاز گلٹی سیکریٹ میں لکھتے ہیں؛

 عصمت دری شروع سے ہی تشدد کا مرکزی عنصر تھی۔ تاہم، غیر سرکاری اور سرکاری دونوں کھاتوں میں اس پر توجہ نہیں دی گئی، کیوں کہ ہندوستان میں جنسی تشدد سماجی بدنامی سے منسلک ہے۔ قتل عام کی شدت اور ہولناکی اس قدر تھی کہ انہوں نے جنسی حملوں کو بڑے پیمانے پر ڈھانپ دیا ہے، جو بذات خود انسانیت کے خلاف ایک بڑے جرم کے مترادف ہے۔

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)