ادبستان

نعمت خانہ: سماجی مسائل کے بطن میں انسانی زندگی کے فلسفے کی تلاش …

 موضوع کے لحاظ سے یہ ناول جوائنٹ فیملی سے نیوکلیر فیملی تک کے اذیت ناک سفر کی داستان ہے۔پورا ناول پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں بظاہر بے ترتیب لیکن نہایت بامعنی اورموضوع سے متعلق مناظر رقص کرنے لگتے ہیں۔ قاری تسلیم کرلیتا ہے کہ ہر برائی میں ایک اچھائی پوشیدہ ہوتی ہے اور یہ کہ اذیتوں کے بطن سے ہی نعمتیں جنم لیتی ہیں۔

خالد جاوید اور ان کے ناول کا سرورق

خالد جاوید اور ان کے ناول کا سرورق

اپ ڈیٹ: آج  19نومبر کو ملی اطلاع کے مطابق، اس ناول نے جے سی بی انعام برائے ادب 2022 جیت لیا ہے۔واضح ہو کہ پہلی بار کسی اردو کی کتاب کو یہ انعام ملا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ شارٹ لسٹ کی ہوئی پانچ کتابوں میں اس سال کی بکر انٹرنیشنل انعام یافتہ کتاب ریت سمادھی ( مصنفہ :گیتانجلی شری ) بھی شامل تھی۔

اپ ڈیٹ: تازہ ترین اطلاع کے مطابق اب یہ ناول شارٹ لسٹ میں شامل کیا جا چکا ہے

ممتاز فکشن نویس خالد جاوید کے ناول ‘نعمت خانہ’ کے انگریزی ترجمہ دی پیراڈائز آف فوڈ  کو جے سی بی انعام برائے ادب 2022 کے لانگ لسٹ میں جگہ دی گئی ہے۔
قابل ذکر  ہے کہ  اس لسٹ میں 10 نامزد کتابوں میں سے 6  ترجمے پر مبنی تخلیقات کو جگہ ملی ہے، جس میں ‘ریت سمادھی’، کے انگریزی  ترجمہ’ٹومب آف سینڈ’ کے لیے  بین الاقوامی بکر پرائز حاصل کرنے والی  گیتانجلی شری اپنے اسی ناول کے لیے  نامزد  ہیں، جبکہ اردو سے ایک اور ناول نویس رحمن عباس  کے ناول ‘روحزن‘ کے انگریزی ترجمے کو بھی اس لانگ لسٹ میں جگہ ملی ہے۔
موت کی کتاب، نعمت خانہ اور ایک خنجر پانی میں خالد جاوید کے اہم ناول ہیں۔موقع کی مناسبت سے خالد  کے ناول ‘نعمت خانہ’ پر طارق چھتاری  کا مضمون قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کیا جارہا ہے –  ادارہ

§§§

خالدجاوید ایک ایسے تخلیق کار ہیں جو بیک وقت روایت شکن بھی ہیں اور اپنی تحریروں میں تمام ادبی روایتوں کا استعمال بھی نہایت فنکاری کے ساتھ کرتے ہیں۔

وہ لکھتے تو فکشن ہیں لیکن اسلوب کے لحاظ سے کرتے ہیں فلسفیانہ شاعری۔ دراصل وہ ماورائیت کے احساس سے لبریز ایک جدید شاعر ہیں، جس کی بہترین مثال ان کا ناول  ‘نعمت خانہ’ ہے۔

اس ناول میں باورچی خانے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اسے ایک اسٹیج کے طورپر استعمال کیا گیا ہے۔ بیشتر واقعات باورچی خانے میں ہی رونما ہوئے ہیں اور باورچی خانے کی تمام اشیاء ناول میں کہیں تشبیہ، کہیں استعارے تو کہیں تمثیل کے طور پر استعمال ہوئی ہیں۔

اس طرح کی مثال اردو میں کسی دوسرے ادیب کے یہاں نہیں ملتی البتہ انگریزی میں 1960 کے قریب آرنلڈ ویسکر، جان آسبرن  اور شیلاگ ڈیلانے وغیرہ نےکچن سنک موومنٹ آف سوشل ریئل ازم ان آرٹ کے تحت چند ڈرامے اسٹیج کیے تھے، جن کا پورا سیٹ–اپ کچن میں ہی تیار کیا جاتا تھا۔

جن میں کچھ ڈرامے مثلاً– چکن سوپ ود بارلی، لُک بیک ان اینگر،اوراے ٹیسٹ آف ہنی بہت مشہور ہوئے۔ اس کے بعد آرٹ، تھیٹر، ناول،فلم اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں اس طرز کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ دراصل یہ ایک برٹش کلچرل موومنٹ تھا۔ اُردو میں اس ادبی تحریک کی مثال نہیں ملتی، اس سلسلے میں خالد جاوید کو امتیاز حاصل ہے۔

خالدجاوید نہ تو ماضی سے مواد حاصل کرتے ہیں اورنہ ہی انھوں نے قوّتِ متخیّلہ کی مدد سے مستقبل کی دنیا آباد کی ہے بلکہ وہ تو محض حال کے دائرے میں گردش کرنے والے واقعات و حادثات کو احساس کی کسوٹی پر پرکھنے کے تخلیقی عمل سے گزرتے ہیں۔

اس عمل کے دوران انھیں موجودہ زمانے کے محض ایک لمحے سے غرض ہوتی ہے اور وہی لمحہ ان کے لیے ایک ایسا نقطہ ہوتا ہے جہاں سے ان کی تخلیق کی ابتدا ہوتی ہے اور انتہا بھی۔

زبان کے معاملے میں بھی وہ منفرد نظر آتے ہیں۔ اس ناول کی زبا ن، مواد او رموضوع کی تابعداری نہیں کرتی بلکہ وہ مصنف کے فلسفیانہ ذہن کی ترجمان نظر آتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے مصنف خیال کا پابند ہوکر ناول نہیں لکھ رہا ہے بلکہ خود کو خیالات کی موجوں کے حوالے کرکے نت نئی سیپوں سے موتی چن چن کر صفحہ قرطاس پر بکھیر رہا ہے اور ایک انوکھی دنیا کی تشکیل کررہا ہے۔

زبان وبیان کے علاوہ فنی نقطہ نظر سے بھی ان کے ناول مختلف نظر آتے ہیں اور قاری کو تذبذب میں مبتلا کردیتے ہیں کہ یہ ناول سماجی ہیں یا انفرادی؟ اس کے متعلق وہ خود لکھتے ہیں کہ؛

ناول میں جس ذات کی تفتیش کے عمل کی بات بیان کی گئی ہے اس کی تشکیل سماجی اور معاشی مسائل سے ٹکراؤ کی شکل میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے تک سماجی حقیقت نگاری کا رجحان ناول پر حاوی رہا ہے۔

آہستہ آہستہ اس رجحان نے صحافتی انداز اختیار کرلیا جس سے کہ ناول کی فنی اور ادبی حیثیت مشکوک ہوگئی مگر جلدہی بعض وجوہات اور واقعات کی بنا پر علامت نگاری، سررئیلزم اور تجریدی عناصر کی شمولیت نے ناول کے بیانیہ کو زیادہ گھنا،پیچیدہ اور تہہ دار بنادیا اور سماجی حقیقت پسندی کے اسلوب کی ایک متبادل شکل ابھرکر سامنے آسکی۔

اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ ایک ناول ’سماجی ناول‘ ہے اور دوسرا ذاتی یا داخلی یا انفرادی ناول ہے کیو ں کہ ذات میں یا فرد میں معاشرے کا اور معاشرے میں فرد کا عکس ہمیشہ جھلملاتا رہتا ہے۔(خالد جاوید:ناول اور ہم: نیا ناول نیا تناظر،ص:18)

اس ناول میں بھی خالدجاوید نے سماجی مسائل کے بطن میں انسانی زندگی کے فلسفے کو تلاش کیا ہے اور مصنف کوانسانی زندگی کے فلسفے میں معاشرے کی جھلکیاں واضح طور پر نظر آئی ہیں۔

لہٰذا مصنف کا یہ بیان کہ فرد میں معاشرے کا اور معاشرے میں فرد کا عکس ہمیشہ جھلملاتا رہتا ہے، اس ناول کو صحیح طور پر سمجھنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ سماجی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے فرد کی زندگی کا نقطہ عروج موت ہے او رموت ہی خالدجاوید کے ناول کی حیات ہے۔

جسم کے بے جان ہونے کی گواہی اس کی روح ہی دیتی ہے۔ دراصل روح ’ہوا‘ ہے اور ہوا ہی چشم دید گواہ ہے۔

نعمت خانے کے پہلے اورآخری باب کا راوی تھرڈ پرسن ہے اور باقی ناول کا راوی واحد متکلم ہے، یعنی اس ناول کی تکنیک دائروی ہے۔ یہ جہاں سے شروع ہوتا ہے، معنوی لحاظ سے وہیں ختم ہوتا ہے۔ ناول کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے؛

ہواہی وہ چشم دید گواہ تھی جس نے دیکھا کہ وہ اپنے ہی گھر میں ایک اکیلے مگر اداس کالے چور کی طرح داخل ہوا۔ گھر پتہ نہیں بن رہا تھا یا گررہا تھا یا کھنڈر بن رہا تھا۔ یہ بھی کوئی نہیں جانتا، صرف ہوا جانتی تھی۔ اس کی اداسی اس کے پیروں سے گرگر کر زمین پر اکٹھاہوتی جاتی تھی۔ یہ اداسی بھی کیسی تھی؟

یہ کسی بند کنویں میں جھانکنے کے بعد آسمان کی طرف اٹھنے والی ایک افسردہ نظر کی طرح تھی اور آسمان لامتناہی طور پر بے رحم تھا۔ یہ لامتناہیت صرف خوف پیداکرسکتی تھی۔ سارے معنی، سارے مفہوم اسی لامتناہیت میں ڈوب ڈوب جاتے تھے۔

اس وسیع تر بھیانک منظر میں محبت سے پکائی گئی دو روٹیاں ہی تھیں جو پرچم بن کر لہرارہی تھیں۔ مگر یہ روٹیاں اب کسی معدے کے لیے نہ تھیں، یہ خون بن کر جسم میں دوڑنے کے لیے نہ تھیں۔

یہ فضلہ بن کر جسم سے نکل کر تاریک موریوں میں بہہ جانے کے لیے بھی نہ تھیں، یہ تودو گواہیاں تھیں۔ روح کی گواہیاں، ریاضی کے دو شفاف ایماندار ہندسوں کی مانند، لٹی پٹی اجاڑ شکل دنیا کے ماتھے پر لافانی اور پاکیزہ بندیا کی طرح چمکتی ہوئی۔ چولہے کی راکھ تک ٹھنڈی ہوئی مگر یہ لافانی ہیں اور گرم ہیں۔(نعمت خانہ،ص:37)

یہ بیان omniscientراوی کا ہے مگرنقطہ نظر ’ہوا‘ کا ہے بلکہ احساسات اور تجربات بھی ’ہوا‘ کے ہی ہیں، جو باورچی خانے کے تلازموں کی مدد سے تحریر کیے گئے ہیں۔

کچن کی مناسبت سے رعایتِ لفظی کا یہ سلسلہ ناول کے اختتام تک جاری رہتا ہے۔ خالدجاوید نے اس ناول میں کچھ اوربھی نادر تجربے کیے ہیں، مثلاً اس کا مرکزی کردار حفیظ عرف گڈّو ہے لیکن مرکزیت ایک غیرمرئی شے یعنی اس کے حافظے کو حاصل ہے۔ ’ہوا‘ بھی نہ نظرآنے والی ایک شے ہے اور ہر جگہ موجود بھی ہے اوربہتے رہنا اس کی فطرت ہے۔

اسی لحاظ سے مصنف نے ’ہوا‘ کے نقطہ نظر اور فکرواحساس کو اہمیت دی ہے اور اسے ایک زندہ جاوید کردار کی مانند پیش کیا ہے۔ ناول نگار بحیثیت راوی خودکسی نتیجے پر پہنچنے سے گریز کرتا ہے اوراپنی فکر کو ہوا کے دوش پر سوار کرکے بے سمتی کے سپرد کردیتا ہے۔

اس ناول میں ہوا، پانی، پتھر، مٹی، ندی اورسناٹا یہ سب غیرجاندار اور غیرمرئی اشیاء، احساسات کے استعارے یا اشارے ہیں، جنھیں ناول نگار نے نہایت فنکاری کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں؛

ہوا کو یہ بھید بھی جلد ہی معلوم ہوگیا کہ وہاں ایک سنّاٹا بھی اپنی کہانی لکھ رہا تھا۔ ہوا کے لمبے لمبے کانوں میں سنّاٹا اپنی کہانی انڈیل رہا تھا۔ اور وہ-؟ اس نے سنّاٹے کو اپنے ٹھنڈے، گیلے جوتوں میں بھرلیا۔

اسے شاید معلوم تھا کہ کیا رونما ہونے والا ہے۔ ایک پتلی ندی کا شکار کرنے کے لیے کہیں سے گھوم کر ایک بھیانک دریا چلا آرہا تھا۔

اور ندی، ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اس دریا میں ملنے کو اپنا مقدر مانتی ہوئی آہستہ آہستہ خودہی اس کی طرف رینگ رہی تھی۔

یہ ایک جال تھا جس میں وہ خودہی پھنستی جاتی تھی۔ ہوا نے دیکھا کہ وہ سائے کی طرح ایک کونے میں کھڑا ہے۔(نعمت خانہ،ص:39)

خالدجاوید نے یہاں نیچر کے حوالے سے زندگی کے فلسفے کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

جب ناول آگے بڑھتا ہے تواندازہ ہوتا ہے کہ ناول میں ہر مادّی شے مادّے سے عاری نظر آرہی ہے اور مرکزی کردار نظر نہ آنے والے او رواضح طورپر محسوس نہ ہونے والے ماضی کو ساتھ لیے بھٹک رہا ہے۔ غیرمحسوس طور پر اس کے آباواجداد اس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں یعنی ماضی، وراثت اور مشترکہ خاندان کی روایات سے دامن چھڑانا ممکن نہیں۔

ناول کا مرکزی کردار حفیظ ایک وکیل ہے اور چونکہ گزرے ہوئے تمام واقعات حافظے کی مدد سے عرض داشت پیش کرنے کی خاطر لکھے گئے ہیں، اس لیے ناول کے بیانیہ میں ایک معنویت اور مناسبت پیداہوجاتی ہے، جس سے ناول کا تخلیقی حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔

مرکزی کردار حفیظ کے علاوہ بھی ناول کے دوسرے کردار، خالدجاوید کے منفرد تخلیقی کمالات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں مثلاً ٹمٹماتے یا جگمگاتے ستاروں کی مانند کئی کردار، انجم باجی، انجم آپا، انجم بانو، انجم جان اور اس کی بیوی انجم، یہ سب کبھی پیٹ کی بھوک تو کبھی جنسی کشش کا استعارہ بنتے ہیں۔

اس لیے ناول میں کئی مقامات پر جنس اور کھانے یعنی سیکس اینڈ فوڈ کو ایک دوسرے سے Identifyکیا گیا ہے۔

دونوں ہی زندگی کا لازمی جزو ہیں اور دونوں ہی بے اعتدالی برتنے پر موت کا سبب بھی بنتے ہیں۔ گویا زندگی ہی موت ہے اورموت ہی زندگی ہے۔ اس ضمن میں ناول سے ایک مختصر اقتباس ملاحظہ فرمائیں؛

کاش کہ کھانے نہ ہوتے، تب شاید دنیا میں خالص محبت کا وجود ہوتا مگر یہ کمبخت کھانے، جو باورچی خانے میں تیار ہوتے ہیں اور باورچی خانہ جو گھر کا سب سے خطرناک مقام ہے…… یہ کھانے جو جنسی شہوت بڑھاتے ہیں، آدم اورحوا کو بہکاتے ہیں اور حبوطِ آدم کا سبب بنتے ہیں ……۔(ص:303)

ناول کے کچھ تکنیکی عناصر کو استعمال کرنے میں بھی خالدجاوید نے کئی انوکھے تجربے کیے ہیں۔ مثال کے طور پر جب وہ کوئی منظر پیش کرتے ہیں تو تفصیلات میں جزئیات اور جزئیات میں تفصیلات پیش کرنے لگتے ہیں۔ وہ کبھی چھوٹی سے چھوٹی شئے کو دوربین سے دیکھتے ہیں تو کبھی بڑے بڑے مناظر کو بھی خردبین سے دیکھنے لگتے ہیں۔

لیکن ہر جگہ ان کا وژن مائیکرواسکوپک ہی ہوتا ہے۔ چیونٹی کے نہ نظر آنے والے چھوٹے چھوٹے پیروں کا ذکر بھی اس ناول میں تفصیل سے کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں انھو ں نے واقعات کے بیان میں انگریزی مہینوں کی نشاندہی کرتے ہوئے موسموں کا نہایت معنی خیز انداز میں ذکر کیا ہے۔

دراصل ناول میں بدلتے موسموں کے حوالے سے کرداروں کی داخلی کیفیات پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔

مہینوں کے لحاظ سے موسم کا تذکرہ اس طرح ہوا ہے کہ اردو کی قدیم صنف بارہ ماسہ اور انگریز شاعر اسپنسر کے The Shepheardes Calender کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔

چونکہ خالدجاوید نے ’ہوا‘ کو تجسیم عطاکرکے ایک جیتاجاگتا کردار بنادیا ہے۔اور ’ہوا‘ نیچر کا ایک ایسا جزو ہے جو نظر نہ آتے ہوئے بھی ہر جگہ موجود ہے اور’ہوا‘مستقل بہاؤ کے عمل سے گزررہی ہے، وہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ حیوانات اور نباتات کو زندگی بھی بخشتی ہے۔ وہ سب دیکھ رہی ہے اورسب جانتی ہے۔ خالدجاوید لکھتے ہیں؛

ہواجانتی تھی کہ سارے گناہو ں کو، سارے چٹورپن اور ساری بدنیتی کو اُدھر ہی جانا ہوتا ہے، چاہے وہ سب بچپن کے کھیل ہی کیوں نہ ہوں۔ سب کا مقدر بہرحال ایک ہی ہے۔ شطرنج کی بساط پلٹنے کے بعد بھی، بندر کے مردہ پنجے کے مانند گزرگئے وقت کو دوبارہ کھینچ کر لانے کے نتیجے میں صرف دہشت اور پشیمانی ہی حاصل ہوسکتے تھے اورکچھ نہیں۔(ص:43)

یہاں بندر کے مردہ پنجے کا تذکرہ کرکے خالدجاوید نے نہایت ہنرمندی کے ساتھ ڈبلیو ڈبلیو جیکبز کے افسانےدی منکیز پا کے مرکزی خیال کی جانب توجہ دلائی ہے کہ وقت کو دوبارہ کھینچ کر لانے کے نتیجے میں صرف دہشت اور پشیمانی ہی حاصل ہوسکتی ہے اورکچھ نہیں۔

ہرچند’نعمت خانہ’ علامتی ناول نہیں ہے لیکن اس کا اسلوب علامتی ہے اور تمثیلی بھی۔ کیونکہ ‘زوالِ آدم کے اس تماشے کو ’ہوا‘ دیکھ رہی ہے اور یہ بھی کہ اس کے پاؤں کے نشانوں سے ریت پر سانپ کی سی لکیر بنتی جاتی ہے۔ (ص:49)

بغورمطالعہ کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا اسلوب نہ تو شعور کی رو کا اسلوب ہے اورنہ ہی آزاد تلازمہ خیال کا، بلکہ اس ناول کو شعور اور لاشعور کے تانے بانے سے اس طرح بُنا گیا ہے کہ یہ بے ربط خیالات کی ایک مربوط تخلیق کی صورت میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ جبکہ خالدجاوید ناول میں غیرمتعلق تفصیلات، فلسفے اور خیالات پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ طریقہ کار‘ ان کا امتیاز بن جاتا ہے۔

یہ درست ہے کہ خالدجاوید انٹرپرٹیشن کے قائل نہیں ہیں مگر ان کا یہ ناول جب آخری مراحل میں پہنچتا ہے تو قاری کی توجہ اس کے موضوع کی جانب مبذول ہونے لگتی ہے اورہم کہہ سکتے ہیں کہ موضوع کے لحاظ سے یہ ناول جوائنٹ فیملی سے نیوکلیر فیملی تک کے اذیت ناک سفر کی داستان ہے۔

ابتدائی ابواب میں حفیظ عرف گڈّو کے ایک ایسے مشترکہ خاندان کی عکاسی کی گئی ہے جہاں قریبی اور دور کے بے شمار رشتے دار ایک ساتھ رہتے ہیں، وہیں ناول کے آخری حصّے میں حفیظ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ شہر کے چھوٹے سے فلیٹ میں زندگی گزارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

اگر ہم دونوں طرح کی طرزِ زندگی کا تقابل کریں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مشترکہ خاندان اپنی تمام تر برائیوں، خامیوں، سازشوں اور نفرتوں کے باوجود نیوکلیرفیملی کی تنہائی، خودغرضی اوربے تعلقی کی زندگی سے بہت بہتر تھا۔ اب حفیظ تنہا ہے۔

بیوی کا رویہ کسی دشمن سے کم نہیں۔ بیٹے اپنی مرضی کے مالک ہیں اورباپ کے ہر عمل سے اختلاف رکھتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ دونوں بیٹے خودغرضی کے دباؤ میں آکر اس کا قتل کردیتے ہیں۔

اب یہ قتل واقعتاً ہوا ہے یا اس کا نہیں بلکہ اس کی شخصیت کا علامتی قتل ہے؟ یہ فیصلہ مصنف نے قارئین پر چھوڑا ہے۔

جب حفیظ چھوٹا تھا اور ایک بڑے خاندان کا حصّہ تھا، اس وقت اس سے بھی باورچی خانے میں دو قتل ہوگئے تھے اور بچہ ہونے کے سبب اس پر کسی کو شک بھی نہیں ہوا تھا۔

دونوں واردات کے بعد وہ صاف صاف بچ نکلا تھا مگر احساسِ جرم اور اعترافِ جرم نے عمر بھر اسے چین سے رہنے نہیں دیا، وہ ہمیشہ اپنی ذات کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کرتا رہا، عرض داشت لکھتا رہا اور وکیل ہونے کے باوجود ایک مجرم کی زندگی جیتا رہا۔

وہ ہرمحاذ پر ناکام رہا او رایک دن اس کے دونوں بیٹوں نے مل کر اس کا قتل کردیا۔ وہاں اس نے دوقتل کیے اور یہاں دونے اس کا قتل کیا، اس نوع کے فنی تلازمے اس ناول میں جگہ جگہ موجود ہیں۔

ناول کے آخری حصّے میں نیوکلیرفیملی کا ذکر کچھ یوں ہوا ہے کہ اس کی بیوی انجم اور دونوں بیٹے عدنان اور ظفر بضد ہیں کہ وہ اپنے آبا واجداد کا قصبے والا موروثی مکان فروخت کردے تاکہ وہ اس رقم سے بہتر زندگی گزارنے کا انتظام کرسکیں۔

پرانے مکان کے تمام افراد اب ختم ہوچکے ہیں۔ نئے زمانے کے اندازبدلے، تہذیب کا خاتمہ ہوا اوررشتوں کی اہمیت ختم ہوگئی۔ آخرکار بیوی بچوں کے تکلیف دہ رویوں کی وجہ سے دل کا دورہ پڑتا ہے اور اس کی موت ہوجاتی ہے۔

اس کے بعد ناول کے آخری حصے کی تشکیل ہوتی ہے، جس کا عنوان ’سنّاٹا‘ ہے۔

حفیظ کی موت کے بعد یہ ناول ایک دائرہ مکمل کرتے ہوئے پھر پہلے باب کی طرف لوٹتا ہے۔ اب پہلے باب کی طرح اس کا راوی واحد غائب ہے لیکن بیان کا فلسفیانہ اور پیچیدہ انداز یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ راوی واحد غائب  ہے یا اس کی روح ہی راوی ہے۔

پہلے باب کی ’ہوا‘ اور آخری باب کی ’روح‘ میں معنوی لحاظ سے بڑی مناسبت نظر آتی ہے۔ ناول کا اختتام ان جملوں پر ہوتا ہے؛

گیہو ں کی سفید روٹی اس کے منہ کے خون سے کچھ اس طرح سَن گئی جیسے چاند پر سوکھا ہوا کالا خون۔ دور ایک مسجد سے پھر اذان ہوئی۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے مختلف مسجدوں سے اذانیں ہونے لگیں۔ وقفہ ختم ہوگیا۔ ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی اذانوں کی آواز سے پیداشور نے مشرق میں ایک بار پھر سورج طلوع ہونے کی خبردی۔ اللہ اکبراللہ اکبر…………۔(ص:440)

پورا ناول پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن میں بظاہر بے ترتیب لیکن نہایت بامعنی اورموضوع سے متعلق مناظر رقص کرنے لگتے ہیں۔ قاری تسلیم کرلیتا ہے کہ ہر برائی میں ایک اچھائی پوشیدہ ہوتی ہے اور یہ کہ اذیتوں کے بطن سے ہی نعمتیں جنم لیتی ہیں۔

باورچی خانہ بھی ایک مشترکہ خاندان کا استعارہ بن کر سامنے آتا ہے۔ باورچی خانے کی مانند مشترکہ خاندان میں بھی بہت سی کمیاں، خرابیاں اور برائیاں ہوتی ہیں مگر اس کے باوجود وہاں خوبیاں او رنعمتیں بھی کم نہیں ہوتیں۔ ایسی نعمتیں جنہیں چن چن کر ایک نعمت خانے میں رکھاجاسکتا ہے۔

مشترکہ خاندان کو اگر کسی وسیع کینوس پر اتاریں تو وہ ایک مکمل دنیا کی شکل میں ابھرکر سامنے آتا ہے اور کسی بڑے سے گھر کے وسیع و عریض باورچی خانے کے تمام کام کاج دراصل مشترکہ طور پر زندگی گزارنے کے طور طریقوں کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔

جب دنیا بدلی اورجوائنٹ فیملی کی جگہ نیوکلیر فیملی کا رواج ایک مجبوری بن گیا تو بہت سی اخلاقی اور انسانی قدریں بھی بدل گئیں۔ مشترکہ خاندان میں اذیتیں اور تکلیفیں تھیں تو انہی اذیتوں اور تکلیفوں میں راحتیں اور نعمتیں بھی موجود تھیں جبکہ نیوکلیر فیملی میں راحتوں کی گنجائش کم ہے۔

انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ بالآخر موت نہ سہی ایک علامتی موت تو اس کا نصیب بن ہی جاتی ہے۔اور اس طرح یہ ناول بھی ‘موت کی کتاب’ ہی ثابت ہوتا ہے۔

(مضمون نگار برصغیر کے معروف فکشن رائٹر ہیں)