فکر و نظر

جیل میں دو سال پورے ہونے پر عمر خالد کا خط: کبھی کبھی مایوسی اور تنہائی مجھے گھیر لیتی ہے

اکثرسوچتا ہوں یہ اندھیری سرنگ کتنی لمبی ہے؟ کیا کوئی روشنی نظر آرہی ہے؟ کیا میں اس کے انجام کے قریب ہوں یا اب تک صرف آدھا فاصلہ طے ہوا ہے؟ یا  آزمائش کا دور ابھی بس شروع  ہی  ہوا ہے؟

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

پندرہ  اگست 2022 کو روہت کمار نے عمر خالد کو ایک کھلا خط لکھا۔ 12 ستمبر کو روہت کو جیل میں بند انسانی حقوق کے کارکن خالد کی طرف سے جواب موصول ہوا، جو ان دونوں کی رضامندی سے یہاں  شائع کیا جا رہا ہے۔

بتادیں کہ 13 ستمبر 2020 کو اسی سال کی شروعات  میں ہوئےدہلی فسادات میں ملوث ہونے کے دہلی پولیس کے الزامات کے سلسلے یواے پی اےکے تحت گرفتار عمر خالدکو تہاڑ جیل میں رہتے ہوئے  دو سال ہو چکے ہیں۔ ان کے مقدمے کی ابھی تک شروعات نہیں ہوئی ہے۔

§

پیارے روہت،

سالگرہ اور یوم آزادی کی مبارکباد کے لیےتمہارا  شکریہ۔ مجھے امید ہے، تم خیریت سے ہو۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں ان بند چہار دیواری میں تمہارے کھلے   خط  کوپڑھ پایا۔

میں تمہارے خط کا جواب لکھنے بیٹھا ہوں تولاؤڈ اسپیکر پر ان لوگوں کے ناموں کو  پکارے  جانے کی آواز سن رہا  ہوں، جنہیں آج رات رہا کیا جانا ہے۔ یہ غروب آفتاب کے بعد کا وقت ہے، جب عدالتوں سے رہائی کے پرچے جیل حکام تک پہنچتے ہیں۔ جب اندھیرا اتر کر جیل کو اپنی آغوش  میں لے لیتا ہے،اس وقت  کچھ قیدی آزادی کی روشنی دیکھنےوالے ہوتے ہیں۔ میں ان کے چہرے پر بے پناہ  مسرت کی لہریں  دیکھ سکتا ہوں۔

دو سال سے میں ہر رات یہ اعلان سن رہا ہوں – ‘نام نوٹ کریں، یہ بندی  بھائیوں کی  رہائی ہے’۔ امید کرتا ہوں اور اس دن کا انتظار کر رہا  ہوں جب میں اپنا نام سنوں گا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ یہ اندھیری سرنگ کتنی لمبی ہے؟ کیا کوئی روشنی نظر آرہی ہے؟ کیا میں اس کے انجام کے قریب ہوں یا میں نے صرف آدھا فاصلہ طے کیا ہے؟ یا  آزمائش کا دور ابھی  بس شروع  ہی ہوا ہے؟

وہ کہتے ہیں کہ ہم آزادی کے امرت کال میں داخل ہو چکے ہیں۔ لیکن آزادی کے محافظوں کی آزمائشیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم انگریزوں کے دور کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے غلامی کی نوآبادیاتی یادگاروں  سے چھٹکارا پانے کا کافی شوروغوغا ہے۔ لیکن دوسری طرف نوآبادیاتی دور کی یاد دلانے والےکئی  جابرانہ قانون  انسانی حقوق کے کارکنوں، طلباء، مخالفین اور سیاسی مخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔

کیا لوگ یو اے پی اےجس کے تحت ہمیں جیلوں میں بند رکھاگیا ہے اور رولٹ ایکٹ جس کا استعمال  انگریزوں نے ہمارے مجاہدین آزادی  کے خلاف کیا— ان کے درمیان مماثلت نہیں دیکھتے ہیں؟ کیا ہمیں سزا دینے کے ان طریقوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرنا چاہیے، جو نوآبادیاتی حکمرانی کی  میراث ہیں، جو لوگوں کے حقوق اور آزادی کی خلاف ورزی کو ممکن بناتے  ہیں؟

میں بالخصوص اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ ہم میں سے بہت سے اور ہم جیسےکئی  دوسروں  کو طویل عرصے تک بغیر مقدمے چلائےحراست میں  رکھا جا رہا ہے، اور ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ہمارے مقدمے کی شنوائی  کب شروع ہو گی؟

یوم آزادی پر شام  کومیں جیل کی کوٹھری کے باہر کچھ اور لوگوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ہم نے جیل کے احاطے کے اوپر پتنگوں کو آسمان کی  بلندی پر اڑتا ہوا دیکھا اور ہمارے بچپن کی 15 اگست کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ہم یہاں کیسے پہنچ گئے؟ ہمارا ملک کتنا بدل گیا؟

یو اے پی اے لگاکر ہمیں برسوں تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے اور ہم پر الزام لگانے والوں کو کچھ بھی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ قانون کی عدالت میں بھلے ہی ہمارے خلاف لگائے گئے اپنے کسی بھی مضحکہ خیز الزام  کوثابت نہ کر پائیں، لیکن اس دوران انہیں ہمارے خلاف کہانیاں بنانے سے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔

ایک شام جیل کے ایک وارڈن مجھ سے میرے کیس کے بارے میں دریافت کرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے مجھے 2020 میں پہلی بار جیل میں دیکھا، جب ان کے لیے مجھ پر لگائے گئے الزامات پر یقین کرنا مشکل تھا۔ انہیں لگا  کہ یہ سب سیاست ہے اور چند دنوں میں ہی مجھے رہا کر دیا جائے گا۔ لیکن اب جبکہ 2022 آچکا ہے اور میں لاؤڈ اسپیکر پر اپنے نام کے اعلان ہونے کا انتظار کر رہا ہوں، انہیں شبہ ہونے لگا ہے،’بیل کیوں نہیں مل رہی تمہیں؟ کسانوں کی تحریک والوں کو مل گئی تھی  کچھ دنوں میں ہی۔

میں نے انہیں یو اے پی اے کے بارے میں بتانے اور آئی پی سی کے مقابلے اس میں ضمانت کی شرائط کے سلسلے میں کچھ سمجھانے کی کوشش کی- لیکن جب میں انہیں اس کے بارے میں سمجھا رہا تھا، تو میں نے محسوس کیا کہ وہ میری باتوں کو غور سے نہیں سن رہے تھے۔ کسی کو بھی قانون کی ان باریکیوں میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ماہرین قانون اور اس جابرانہ قانون کے شکار لوگوں  کے علاوہ کتنے لوگ ہیں ، جو ان باتوں کو سمجھ سکتے ہیں۔

بدنامی کا بوجھ

پوسٹ ٹروتھ ورلڈ میں تصور حقیقت سے زیادہ اہم ہے۔ اپنے خط میں تم نے والہانہ انداز میں تم پرمیرے اثرات کے بارے میں لکھا ہے– ان لفظوں کے لیے تمہارا شکریہ۔ اس کے بعدتم نے  لکھا  ہےکہ ہر دن جیل میں مجھ سے ملنے اور بات  چیت کرنے والوں کو بھی میں اسی طرح  سےمتاثر کر پا رہا ہوں گا، اور شاید انہوں نے میڈیا سے میرے بارے میں سنے  جھوٹ پر یقین کرنا چھوڑ دیا ہو گا۔

دوست،تمہیں  متاثر کرنا آسان تھا، کیونکہ تم نے ہمیشہ میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے جھوٹ کی دھند کے پار  دیکھا۔ لیکن جن لوگوں کو منظم طریقے سے پروپیگنڈے کا شکار بنا دیا گیا ہے، انہیں اس بارے میں متنبہ کرنا اور اس  سے دور کرنا بہت مشکل ہے، خاص طور پر جب پروپیگنڈہ کبھی نہ ختم ہونے والا ہو۔

پچھلے دو سالوں سے، جب سے میں جیل میں ہوں، اخبارات  میں- جو کہ یہاں  خبروں کا واحد ذریعہ ہے – کبھی کبھار میرے کیس کے بارے میں رپورٹ آتی  ہے۔ انگریزی اخبارات نے معروضیت کا دکھاوا برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن زیادہ تر ہندی اخبارات – جن پر 90 فیصد سے زیادہ قیدی روزانہ کی خبروں کے لیے انحصار کرتے ہیں – نے صحافتی اخلاقیات سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ وہ خالص زہر ہیں۔

انہوں نے میری ضمانت پر ہوئی شنوائی  کو اپنی پسند کے مطابق کاٹ چھانٹ کر رپورٹنگ کی۔ جب میرے وکیل نے دلیلیں دیں تو اکثر اوقات انہوں نے ہماری باتوں کویا تو چھاپا ہی نہیں، یا تبدیلی کے لیےاگرانہوں نے  کسی دن مجھ پر مہربانی کرنے کا فیصلہ کیاتو انہوں نے اسے پانچویں یا چھٹے صفحہ پرچھوٹے سے نہ دکھائی دینے والے  کالم میں سمیٹ دیا، جن پر بہت بورنگ عنوان لگائے گئے ۔

لیکن سرکاری وکیل کے جوابات کو صفحہ اول کی خبر بنا کر اس طرح پیش کیا گیا کہ یہ باتیں عدالت نے کہی ہیں۔ اور ایسے ہی ایک موقع پر، انہوں نے اپنی سنسنی خیز سرخیوں میں اور مرچ مسالہ  لگانے کی غرض سے میری کچھ خراب  تصویریں ڈھونڈ نکالیں۔

ایک صبح، ایک اخبار کی  ہندی میں چیختی ہوئی سرخی تھی، ‘خالد نے کہا تھا بھاشن (تقریر) سے کام  نہیں چلے گا، خون بہانا پڑے گا’۔ نہ صرف یہ کہ سرخی میں کیے گئے اس بڑے دعوے کے حق میں کوئی دلیل پیش  نہیں کی گئی تھی ،اور  نہ ہی اس نے کہیں یہ ڈس کلیمر دینا ہی ضروری سمجھا کہ یہ ایک الزام ہے، جو ثابت نہیں ہوا ہے، اور اسے عدالت میں تجزیے کے لیےپیش بھی  نہیں کیا گیا ہے۔

اس میں کہیں بھی کوٹیشن مارک (حوالہ جاتی نشان)نہیں لگایا گیاتھا،حتیٰ کہ ایک  سوالیہ نشان  بھی لگانے کی زحمت گوارہ  نہیں کی گئی تھی! دو دن بعد اسی اخبار نے ایک اور سرخی لگائی، جو پچھلی سرخی سے بھی زیادہ سنسنی خیز تھی،’خالد  چاہتا تھا، مسلمانوں کے لیے الگ دیش’۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ دہلی کے یمناپار علاقے میں ہوئے فسادات سے،جن میں مرنے والے زیادہ تر خود مسلمان تھے، مسلمانوں کے لیے ایک نیا ملک بننے والا تھا۔

مجھےسمجھ نہیں آیا  کہ اس پر رویا جائے یا ہنسنا جائے! جو روزانہ اس زہر کی خوراک لے رہے ہیں، میں ان لوگوں کے خیالات کیسے بدل سکتا ہوں ؟ اس سے پہلے ایک موقع پر ایک اور ہندی اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ میں نے دہلی پولیس کے سامنے دہلی فسادات میں اپنی شمولیت کا ‘اعتراف’ کر لیا ہے۔

یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ میں نے دو بار عدالت میں کہا ہے کہ پولیس حراست میں ‘میں نے کوئی بیان نہیں دیا اور نہ ہی کسی کاغذ پر دستخط کیے’۔ پھر اس ‘خبر’ کا ماخذ کیا تھا؟

وہ جو  کر رہے ہیں، اسے کسی بھی طرح ‘رپورٹنگ’ نہیں کہا جا سکتا۔ وہ اپنی پسند کے دلائل چن رہے ہیں، حتیٰ کہ وہ پہلے سے طے شدہ کہانی کے مطابق سفید جھوٹ پیش کر رہے ہیں۔ عدالت میں میرے کیس کی سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی وہ مجھے عوامی  عدالت میں مجرم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور ایسا کرکے وہ اکثریتی اجتماعی شعور کی تشکیل کر رہے ہیں۔

بعض مواقع پر تو میڈیا کا جھوٹ پولیس کے جھوٹ سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ ایک نیوز رپورٹ میں- اس بار بھی ہندی کے ایک اہم  اخبار میں-یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ فسادات بھڑکانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنے کے لیے میں نے  16 فروری 2020 کو  (فسادات شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل) خفیہ طریقے سے ذاکر نگر (نئی دہلی) میں شرجیل امام سے ملاقات کی تھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 16 فروری 2020 کو (پولیس بھی اس کی تصدیق کرے گی) میں دہلی سے 1136 کلومیٹر دور امراوتی، مہاراشٹر میں تھا۔ اور اس رات شرجیل امام – اور کوئی بھی اس پر سوال کھڑے نہیں کر سکتا- تہاڑ جیل میں تھے کیونکہ انہیں تقریباً 20 دن پہلے ایک دوسرے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ نامور صحافی نے جھوٹ کی پوٹلی بناتے ہوئے انتہائی بنیادی حقائق کی  تفتیش بھی ضروری نہیں سمجھی۔

لیکن، ایک بار پھر وہی سوال، آخر حقائق اور تفصیلات میں کس کی  دلچسپی ہے؟ آج کے ہندوستان میں سچائی وہ نہیں ہے جو حقیقت میں ہوتی ہے، بلکہ وہ ہے جو لوگوں تک پہنچتی ہے۔ میں ان سے چاہے جو بھی کہوں، یہ سرخیاں لوگوں کے ذہنوں پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ جاتی ہیں۔

پچھلے دو سالوں سے میں نے لوگوں کے ذہنوں میں تقریباً غیر منطقی طریقوں سے نقش  لفظوں پر،تمہارے لفظوں میں کہوں تو، ‘اپنی آنکھوں دیکھی سےزیادہ اورتقریباً غیرمنطقی یقین کو دیکھا ہے ۔ اگر اخبار میں ہے تو ضرور سچ ہوگا۔ کچھ تو کیا ہوگا؟ پورا جھوٹ تھوڑے لکھ دیں گے۔

سنجے دت پر بنی  بایوپک’سنجو’ کی اپنی خامیاں ہیں، لیکن یہ میڈیا کے رول کو بہت درست انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ دراصل ڈرگ ہے۔ ہر صبح میں دیکھتا ہوں کہ کیسے کاغذ کے یہ اوراق لوگوں کے ذہنوں کو بے حس کر دیتے ہیں اور لوگوں کو ایک متبادل سچائی  کی دنیا میں لےجاتے ہیں۔

جب ہر روز جھوٹ بڑے پیمانے پر پیدا ہورہا ہو، لوگ جھوٹ اور سچ میں فرق کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ اور ایک بار اس سطح پر پہنچ جانے کے بعد تو لوگوں کو اچھی جھوٹ کی خوراک کی ضرورت بھی نہیں رہ جاتی۔ ان سے کچھ بھی نگلوایا جا سکتا ہے، خواہ وہ کتنی ہی بکواس کیوں نہ ہو۔

ہم جھوٹ اور فریب کی اس دیوہیکل مشین سے کیسے لڑ سکتے ہیں؟ نفرت اور جھوٹ پھیلانے والوں کے پاس وسائل کی بہتات ہے – پیسہ، 24 گھنٹے کے فرمانبردار نیوز چینل، جن کی تعداد کافی ہے، ٹرول آرمی اور پولیس بھی۔ ایمانداری سے کہوں ،  روہت، کبھی کبھی یہ مجھے مایوسی سے بھر دیتا ہے۔ کبھی کبھی میں خود کو بالکل تنہا پاتا ہوں۔

مجھ سے زیادہ مراعات یافتہ کئی لوگ، جو فسطائیت کے خلاف اس لڑائی میں،سی اے اے —این آر سی /این پی آر کے خلاف تحریک میں ساتھ تھے، انہوں نے آج خاموش رہنے کا انتخاب کیا ہے، جبکہ مجھے ان جھوٹوں کے لیے اکیلا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ آپ کو غیر ضروری ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ یہ اپنے ہی وطن میں بیگانگی کا احساس پیدا کرتا ہے۔

ان لمحات میں صرف ایک چیز مجھےدلاسہ دیتی ہے،وہ ہے یہ احساس کہ  اس میں کچھ بھی شخصی نہیں ہے۔  میرے اوپر  جبر، اور میری قید،کچھ بڑے کی علامت ہے – موجودہ دور میں ہندوستانی مسلمانوں پر ظلم اور ان کو الگ تھلگ کیے جانے کی۔

خاموشی اور تنہائی میں سکون تلاش کرتا ہوں

گزشتہ کچھ عرصے سے میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو یہ سمجھانا بند کر دیا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ آخر میں کتنے جھوٹ کو بے نقاب کرسکتا ہوں؟ اور کتنے لوگوں کے سامنے؟ میں ایک قدم آگے بڑھ کر پوچھتا ہوں کہ کیا یہ صرف لوگوں کو گمراہ کرنے کا معاملہ ہے – پروپیگنڈے کے ذریعے پھنسانے کا معاملہ ہے؟ یالوگ باگ، اپنے اندر کہیں ان جھوٹوں پر یقین کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ ان کے لاشعوری تعصبات پر پورا اترتا ہے۔

دیوار سے سر ٹکرانے کے بجائے میں جیل کا زیادہ تر وقت تنہا گزارتا ہوں۔ یہ گزشتہ دو سالوں میں میرے اندر ایک اہم تبدیلی ہے، بھلے ہی  یہ کتنا ہی چونکانے والا لگے۔ میرے حالات نے مجھے خاموشی اور تنہائی میں راحت پانے کے لیے مجبور کیا ہے۔

میں نے اپنی قید کے ابتدائی دنوں کے مقابلے میں اپنے چھوٹے سے سیل میں گھنٹوں بند کیے جانے پر گھٹن کو محسوس کرنا بند کر دیا ہے۔ اب  عدالت میں پیشی کے دوران لوگوں اور ٹریفک کے مناظر اور اس کی آوازوں سےپریشانی  اور گھبراہٹ محسوس کرتا ہوں۔ بھیڑ بھاڑ سے دور، جیل کی خاموشی میرے لیے معمول بنتی جا رہی ہے۔ میں سوچتا ہوں، کیا میں جیل کا عادی ہو تا جا ر ہا ہوں؟

حال ہی میں میں نے جھوٹے الزامات میں 14 سال جیل میں گزارنے والے ایک شخص کی لکھی ہوئی یادداشت پڑھی۔ جیل میں گزارے ہوئے وقت کا ذکر کرنے کے بعد، انہوں نے ‘معمول کی زندگی’ میں واپس آنے پر پیش آنے والی پریشانیوں کے بارے میں لکھا ہے۔ برسوں تک  وہ آزاد ہونا چاہتے تھے، لیکن جب آخر کار ان کو آزاد کیا گیا تو انہیں نہیں معلوم تھا، یا وہ بھول گئے تھے کہ آزادی کے ساتھ کیا کرنا ہے؟ برسوں تک وہ اپنے دوستوں سے ملنے کے لیے تڑپتا تھا، لیکن رہائی کے بعد زیادہ تر وقت گھر میں اکیلے گزارتے تھے  اور لوگوں سے، بھیڑ والی جگہوں سے پرہیز کرتے تھے۔ روہت، میں کئی بار سوچتا ہوں، مجھے معمول پر آنے میں کتنا وقت لگے گا؟

اپنی تمام پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جیل نے میری زندگی میں بہت سی ‘مثبت’ تبدیلیاں لانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ پچھلے دو سالوں سے میں موبائل فون کے بغیر زندگی گزار رہا ہوں، جس کا مطلب ہے کہ میں سوشل میڈیا کے نشے سے نجات پا چکا ہوں۔ جب میں یہاں آیا تھا تو میری توجہ صرف ایک ٹوئٹ بھر تھی، لیکن اب میں ہر ماہ کئی ناول پڑھ جاتا ہوں۔ اور کئی سالوں کی کوشش کے بعد، میں نے آخر کار سونے  جاگنے کا شیڈول درست کر لیا ہے۔ (یہ سن کر ماں خوش ہوں گی) اب سورج نکلنے پر سونے جانے کے بجائے میں سورج کے ساتھ جاگ جاتا ہوں۔ صبحوں کو خوبصورت کہا جا سکتا ہے۔

خط کو مکمل کرنے سے پہلے میں نے ان باتوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھا، خاص طور پر یہ دیکھتے ہوئے کہ  ملک بھر کی جیلوں میں سیاسی قیدیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ وہ تمام لوگ، جن پر خود کافی خطرہ ہے، جو جمہوریت اور سیکولرازم، سچائی اور انصاف کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، انہیں جیل کے بارے میں  فکر کرنا چھوڑ دینا چاہیے۔

جیل آپ کے کچھ برے پہلوؤں سے چھٹکارا پانے میں مدد کر سکتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ آپ کو پرسکون، صبر تحمل والااور خود کفیل  بنا سکتی ہے – جیسا کہ اس نے میرے ساتھ کیا ہے۔

آخر میں، مجھے یہ بتائے بغیر نہیں رہنا چاہیے کہ میں قیدیوں کے بیچ  کاؤنسلر کے طور پر تمہارے  کام سے واقف ہوں۔ دو مہینے پہلے میں نے تمہاری کی کتاب ‘کرسمس ان تہاڑ اینڈ ادراسٹوریز‘ پڑھی۔ تم نے کتنی چھوٹی سی  پیاری کتاب لکھی ہے۔

کہانیاں ایسی چیز  ہیں، جن کی اس کال کوٹھری میں کوئی  کمی نہیں ہے۔ ہر طرح  کی کہانیاں – جدوجہد اور کبھی ہار نہ ماننے کی، آرزو کی ختم نہ ہونے والے انتظارکی، غریبی  اور دل کو تڑپا دینے  والی ناانصافیوں کی، آزادی کے لیے  انسانی جستجو کے ساتھ  ساتھ انسانی برائی کی سیاہ  کہانیاں تک۔

امید کرتا ہوں کہ  میں جلد ہی ایک آزادانسان  کی طرح یہ کہانیاں تمہارے ساتھ کافی کی چسکیوں کے ساتھ شیئر کرپاؤں گا۔ تب تک اپنا خیال رکھو اور لکھتے رہو۔

تمہارا،

عمر خالد

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)