فکر و نظر

این ڈی ٹی وی پر گوتم اڈانی کا ممکنہ قبضہ اور رویش کا مستقبل

رویش کمار نے جس اعتماد کے ساتھ نوکری پر جمے رہنے کی بات کی ہے وہ بلا وجہ نہیں ہے۔ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی مینجمنٹ ہو انھیں رکھنا چاہے گا کیونکہ انھیں نکالنے سے این ڈی  ٹی وی کی ساکھ کو زبردست دھچکا پہنچنے کا خطرہ ہے۔

صحافی رویش کمار(فوٹو: دی وائر)

صحافی رویش کمار(فوٹو: دی وائر)

این ڈی ٹی وی کے صحافی رویش کمار ان دنوں خبروں میں ہیں۔ ان کے چاہنے والوں کو ان کی نوکری کے بچے رہنے کی فکر ستا رہی ہے تو ان کے مخالفین کے بیچ ان کی نوکری چھن جانےکے امکان نے خوشی کی لہر پیدا کر دی ہے۔

ایک خاص حلقے کی جانب سے ان کے استعفے کی افواہ اسی دن پھیلا دی گئی جس دن (گزشتہ مہینے) یہ خبر آئی کہ ملک کے سب سے امیر شخص اور موجودہ حکومت کے منظور نظر گوتم اڈانی نے این ڈی ٹی وی کا انتیس فیصد شیئر حاصل کر لیا ہے اور مزید چھبیس فیصد خریدنے کی پیش کش کی ہے۔

رویش کمار نے ایک طنز بھرا ٹوئٹ کیا کہ؛ ‘میرے استعفے کی بات ٹھیک اسی طرح افواہ ہے، جیسے وزیراعظم نریندر مودی مجھے انٹرویو دینے کے لیے تیار ہو گئے ہیں اور اکشے کمار بمبیا آم لے کر گیٹ پر میرا انتظار کر رہے ہیں۔’

کارپوریٹ ورلڈ میں ایک کمپنی کا دوسرے میں ضم ہونا، خریدا جانا یا ہتھیا لیا جانا معمول کی بات ہے۔میڈیا انڈسٹری بھی اس سےمثتثنیٰ نہیں۔ آسٹریلوی نژاد امریکی شہری روپرٹ مرڈوک، جنہیں میڈیا مغل کہا جاتا ہے، اس کام کے لیے مشہور ہیں۔انہوں نے آسٹریلیا، امریکا، انگلینڈ اور دیگر ممالک میں سینکڑوں کی تعداد میں اخبارات، ٹیلی ویژن چینلز، نیوز پورٹلس اور فلم اور پبلشنگ کمپنیز کو خرید رکھا ہے۔

ہندوستان میں ہم ایسی خبروں کے عادی نہیں۔ ہمارے یہاں اس قسم کا پہلا بڑا واقعہ دو ہزار چودہ میں پیش آیا جب ریلائنس انڈسٹریز کے مالک مکیش امبانی نے یکے بعددیگرے نیوز 18اور ای ٹی وی نیوز نیٹ ورک کو خریدا اور ایک جھٹکے میں ملک بھر میں آدھے سے زیادہ ٹی وی چینلز اور دیگرخبر رساں اداروں کے مالک بن گئے۔

اب گوتم اڈانی میدان میں کودے ہیں۔ مگر جو ہلچل پیدا ہوئی ہے وہ صرف اس وجہ سے نہیں ہے۔اصل دلچسپی کامرکز رویش کمار ہیں اور این ڈی ٹی وی میں ان کا مستقبل۔

مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ‘کانگریس مُکت بھارت’ کی بات کی تھی جو کہ اب ‘اپوزیشن  مُکت بھارت’ مہم میں تبدیل ہو چکی ہے۔اپوزیشن پارٹیاں بے بس نظر آرہی ہیں اور لوگ ان کے نااہل ہونے کی بات کرنے لگے ہیں۔

ایسے میں جو خلا پیدا ہو گیا ہے اسے پُر کرنے کا کام کسی حد تک رویش کمار کر رہے ہیں۔ایک بہت بڑا حلقہ تیار ہو گیا ہے جسے ہر شام ان کے پرائم ٹائم شو کا انتظار رہتا ہے جہاں وہ دو ٹوک انداز میں حکومت سے سوال پوچھتے ہیں اور ساتھ ہی عوامی سطح پر آئی بے حسی کو نشانہ بناتے ہیں۔وہ ایک طرح کے’ کلٹ فِگر’ بن گئے ہیں، خصوصاً مسلمانوں کے بیچ۔

رویش کمار نے جس اعتماد کے ساتھ نوکری پر جمے رہنے کی بات کی ہے وہ بلا وجہ نہیں ہے۔ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی مینجمنٹ ہو انھیں رکھنا چاہے گا کیونکہ انھیں نکالنے سے این ڈی ٹی وی کی ساکھ کو زبردست دھچکا پہنچنے کا خطرہ ہے۔

آئی ٹی سیل اور نام نہاد گودی میڈیا جتنا بھی ڈھنڈورا پیٹے یہ بات طے ہے کہ پورا ہندوستان مودی بھکت نہیں ہے۔تو جو طبقہ حکومتی پالیسی اور سنگھ پریوار کی فکر سے اختلاف رکھتا ہے اسے کیوں نظر انداز کیا جائے۔اس لیے رویش کمار اور این ڈی ٹی وی کی ایڈیٹوریل پالیسی کو برقرار رکھنا تجارتی مجبوری ہو گی۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ میڈیا کا بزنس صرف منافع کمانے کے لیے نہیں ہوتا ہ۔حکومت کو خوش رکھنا، اسے دباؤ میں رکھنا اور اس سے مراعات حاصل کرتے رہنا بھی اس کا مقصد ہوتا ہے۔بلکہ اکثر یہی بنیادی مقصد ہوتا ہے۔

ایک اور بھی حکمت کار فرما ہے یہاں۔بھارتیہ جنتا پارٹی ہمیشہ اقتدار میں رہے گی اس کی کوئی ضمانت نہیں۔چنانچہ حزب اختلاف کی پارٹیوں کو بھی میڈیا میں جگہ دینے کے لیے ایک دو چینل کی ضرورت تو باقی رہتی ہی ہے۔

گوتم اڈانی کے پاس این ڈی ٹی وی کے مالکانہ حق کا جو حصہ مکیش امبانی کے توسط سے پہنچا ہے اس کی کہانی دو ہزار آٹھ میں شروع ہوئی تھی جب اس معروف ٹیلی ویژن چینل کے بانی ایڈیٹر پرنو رائے  اور ان کی بیوی رادھیکا رائے نے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے مکیش امبانی کی قائم کردہ ایک کمپنی سے ڈھائی سو کروڑ روپے کا قرض لیا۔

قرض کی شرائط میں یہ شق شامل تھی کے عدم ادائیگی کی صورت میں قرض دہندہ اسے شیئرز میں بدل سکتا ہے۔

غور طلب ہے کہ اتنی بڑی سرمایا کاری، جو کہ انتیس فیصد کے مالکانہ حق تک پہنچتی ہے، کے باوجود گزشتہ چودہ سالوں میں مکیش امبانی نے این ڈی ٹی وی کی ایڈیٹوریل پالیسی پر اثر انداز ہونے کی بظاہر کوئی کوشش نہیں کی۔اس دوران دو ہزار چودہ کا الیکشن آیا، پھر دو ہزار انیس کا اور بیچ میں کئی ریاستی انتخابات، مگر این ڈی ٹی وی میں کچھ نہیں بدلا۔

مکیش امبانی کی وزیراعظم نریندر مودی سے قربت جگ ظاہر ہے۔ ان کے الیکشنز جیتنے میں امبانی کے میڈیا امپائر کی مدد بھی کسی سے چھپی نہیں۔پھر بھی این ڈی ٹی وی کی منفرد پہچان تاحال باقی ہے۔رویش کمار کے انداز میں جو جارحیت دیکھنے کو ملتی ہے اور جس کے نتیجے میں ان کی مقبولیت آج آسمان کو چھو رہی ہے اس میں نکھار دو ہزار چودہ میں مودی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد ہی آیا ہے۔

گزشتہ ہفتے گوتم اڈانی نے امبانی کی اُس کمپنی کو خرید لیا جس نے این ڈی ٹی وی کو قرض دیا تھا اور اسے شیئرز میں تبدیل کر لیا۔مگر مالک بدلنے سے تجارت کے اصول نہیں بدلتے اس لیے غالب امکان یہ ہے کہ رویش کمار پر عنقریب کوئی آنچ نہیں آنے والی۔اور اگر کوئی آنچ آتی بھی ہے تو اس سے رویش کمار کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوگا جو نہ حکومت چاہے گی نہ سنگھ پریوار۔

اس کے باوجود اگر رویش کمار کو این ڈی ٹی وی چھوڑنا پڑتا ہے تو ان کے لیے بے شمار امکانات ہیں۔کوئی بھی پونجی پتی ان پر پیسہ لگانے کو تیار ہوگا، سامنے سے آکر نہیں تو کسی کو سامنے کر کے۔ عین ممکن ہے کہ حکومت کوئی نیا ٹی وی چینل چلنے نہ دے جیسا کہ برکھا دت کو لے کر کپل سبل نے ایک ناکام کوشش دو ہزار انیس کے عام انتخابات کے وقت کی تھی۔مگر ڈیجیٹل میڈیا، یعنی یو ٹیوب چینلز اور آن لائن پورٹلس، کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔

اخبارات اور ٹیلی ویژن کی پہنچ میں آتی ہوئی مسلسل کمی اور مشتہرین کی گھٹتی ہوئی دلچسپی کے پیش نظر ڈیجیٹل میڈیا میں ہی دنیا صحافت کا مستقبل دیکھ رہی ہے۔اس وقت ملک میں یو ٹیوب چینلز اور آن لائن پورٹلس کی بھرمار ہے مگر چند ہی ایسے ہیں جو قابل اعتنا سمجھے جاتے ہیں۔

ایسے میں رویش کمار کو لے کر جو بھی چینل شروع ہو گا اسے پہلے دن سے مقبولیت حاصل ہوگی۔اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ ہندوستان کی صحافت میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا۔

شاہین نظر نوئیڈا میں واقع ایک میڈیا انسٹی ٹیوٹ میں صحافت پڑھاتے ہیں۔اس سے پہلے ٹائمز آف انڈیا سمیت دبئی اور جدہ کے اخبارات سے وابستہ رہے ہیں۔