خبریں

منی پور: اب صوبے سے متعلق کسی بھی کتاب کی اشاعت کے لیےحکومت سے منظوری حاصل کرنی ہوگی

منی پور کی بی جے پی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ صوبے کی تاریخ، ثقافت، روایت اور جغرافیہ پر چھپی  کچھ کتابیں حقائق کو مسخ شدہ صورت میں کرتی ہیں۔ اس لیے ‘حقائق’ کے ساتھ ان کتابوں کی اشاعت  کو ممکن بنانے کے لیے 15 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو اس کی نگرانی کرے گی۔

(علامتی تصویر: ان سپلش)

(علامتی تصویر: ان سپلش)

منی پور حکومت نے صوبے کی تاریخ، ثقافت، روایت اور جغرافیہ کی تمام کتابوں  کی اشاعت سے قبل ریاست کی جانب  سے مقرر کردہ کمیٹی سے پیشگی منظوری لینے کو لازمی کردیا ہے۔

یہ آرڈر  ریاست کے اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کے محکمے کے سکریٹریٹ نے 15 ستمبر کو نوٹیفائی کیا تھا۔

آرڈر میں کہا گیا ہے کہ یہ حکومت کے نوٹس میں آیا ہے کہ صوبے کی تاریخ، ثقافت، روایت اور جغرافیہ پر چھپی کچھ کتابیں  یا تومسخ شدہ حقائق  پیش کرتی ہیں یا مختلف برادریوں  کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو متاثر کر سکتی ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے ‘حقائق’  کے ساتھ ان کتابوں کی اشاعت کی نگرانی کے لیے 15 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔

آرڈر میں کہا گیا ہے کہ ، کوئی بھی شخص/گروہ جو ریاست کی تاریخ، ثقافت، روایت اور جغرافیہ پر کتابوں کی اشاعت کا خواہشمند ہے، یونیورسٹی اور ہائر ایجوکیشن، منی پور کے ڈائریکٹرکے پاس  اس کتاب کے مسودہ  کی ایک کاپی کے ساتھ درخواست جمع کر سکتا ہے، جو منظوری کے لیے یہ معاملہ کمیٹی کے سامنےرکھیں گے۔ جب بھی ضرورت ہوگی کمیٹی اپنی بیٹھک بلائے گی۔

ریاستی حکومت کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اس طریقہ کار پر عمل کیے بغیر شائع ہونے والی کوئی بھی کتاب ‘متعلقہ قانون کے تحت قانونی کارروائی کی مجاز ہوگی’۔

اس کمیٹی کی سربراہی ریاستی وزیر تعلیم ٹی ایچ بسنت سنگھ کریں گے اور اس میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر، کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ اور یونیورسٹی اور محکمہ اعلیٰ تعلیم کے ڈائریکٹر ممبر سکریٹری شامل ہوں گے۔

این بیرین سنگھ حکومت کا یہ فیصلہ ایک ایسے تنازعہ کےپیش نظر آیا ہے جس میں پی ایچ ڈی کے ایک مقالے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کے وقت منی پور کی ریاست وادی کے صرف 700 مربع میل کے علاقے میں قائم ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ منی پور کے پہاڑی علاقے جن میں نگا، ککی اور دیگر قبائلی رہتے ہیں، وہ کبھی بھی منی پور کا حصہ نہیں تھے۔

سنٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) سے ریٹائرڈ بریگیڈیئر سشیل کمار شرما نے مذکورہ مقالہ لکھا تھا، جس کو  کتابی صورت میں بھی شائع کیا گیا تھا۔ اس پر تنازع مئی سے جاری ہے۔

کئی مقامی تنظیموں نے کتاب پر پابندی کی اپیل کرتے ہوئے کتاب کے مصنف سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کے وقت منی پور 8620 مربع میل پر پھیلا ہوا تھا۔

تاہم، منی پور سول سوسائٹی کے ارکان اور ماہرین نے حکومت کے اس فیصلے کو  تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

امپھال کے ایک  انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل ببلو لوئتونگ بیم نے دی وائر کو بتایا،یہ اکیڈمک آزادی کی توہین ہے۔ اسے عدالت میں چیلنج کیا جانا چاہیے۔

انسانی حقوق کے ایک اور کارکن دیب برت رائے نے فیس بک پر لکھا، یہ بنیادی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ کھلی سنسر شپ؟ آزاد ہندوستان میں کسی بھی ریاستی اتھارٹی نے ایسا کوئی قدم اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ سب کو اس قدم کی مخالفت کرنی چاہیے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے اسسٹنٹ پروفیسر اور مصنف تھونگکھولال ہااوکیپ نے کہا کہ اس قدم سے اکیڈمک آزادی اور تنقیدی سوچ تباہ ہو جائے گی اور تحقیقی کاموں  پر حکومت کا کنٹرول نافذ ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے قدم  سے اکیڈمک بحث کا دائرہ ختم ہو جائے گا۔

انہوں نے سوال کیا،کمیٹی کے ارکان کس طرح اور کس میرٹ اور بنیاد پر ہندوستان کے دیگر حصوں اور بیرون ملک کام کرنے والے معزز اسکالرزکے کاموں کا جائزہ لیں گے؟

امپھال کے ایک پبلشر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کئی اشاعتی تنظیمیں آپس میں اس معاملے پر بات کر رہی ہیں اور چند دنوں میں کوئی فیصلہ لے کرسامنے آئیں گی۔

انہوں نے کہا کہ، ہم اس بات پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں کہ آیا ہمیں حکومت سے نوٹیفکیشن واپس لینے کے لیے ایک بیان جاری کرنا چاہیے یا عدالت جانا چاہیے یا اس طرح کی خلاف ورزی پر کسی پبلشر کے خلاف حکومتی کارروائی کا انتظار کرنا چاہیے۔

(اس  رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)

Categories: خبریں