خبریں

سپریم کورٹ نے عشرت جہاں کیس کی تحقیقات کرنے والے آئی پی ایس افسر کی برخاستگی پر روک لگائی

گجرات میں عشرت جہاں کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر کیس کی تحقیقات میں سی بی آئی کی مدد کرنے والے سینئر آئی پی ایس افسر ستیش چندر ورما کو مرکزی وزارت داخلہ نے ان کی ریٹائرمنٹ سے ایک ماہ قبل 30 اگست کو برخاست کردیا تھا۔ انہوں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج دیا تھا۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے گجرات کیڈر کے ایک سینئرآئی پی ایس افسر ستیش چندر ورما کو برخاست کرنے کے مرکز کے فیصلے پرسوموار کو ایک ہفتے کے لیے روک لگا دی ہے۔

ورما نے گجرات میں عشرت جہاں کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر کیس میں سی بی آئی کی مدد کی تھی۔

ورما کے 30 ستمبر کو ریٹائر ہونے سے ایک ماہ قبل 30 اگست کو انہیں ملازمت سے برخاست کر دیا گیا تھا۔

جسٹس کے ایم جوزف اور رشی کیش رائے کی بنچ نے ورما کو اپنی برخاستگی کو چیلنج دینے کے لیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کی اجازت دی ہے۔

ساتھ ہی بنچ نے کہا کہ ہائی کورٹ کو اس سوال پر غور کرنا ہے کہ آیا برخاستگی کے حکم پر روک برقرار رہے گی یا نہیں۔

بنچ نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ کیس کے حقائق کی روشنی میں انصاف کے مفاد میں یہ ضروری ہے کہ مدعی کی برخاستگی کے لیے مدعا علیہ کی طرف سے جاری کردہ حکم پر آج سے ایک ہفتے تک عملدرآمد نہ کیا جائے۔

ورما کے خلاف محکمہ جاتی جانچ کے مدنظر کارروائی کرنے کے لیے وزارت داخلہ کو ہائی کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا۔

محکمہ جاتی انکوائری میں ورما کے خلاف الزامات ثابت ہو گئے تھے۔ ان الزامات میں ان کے نارتھ ایسٹرن الیکٹرک پاور کارپوریشن شیلانگ کے چیف ویجیلنس آفیسررہنے کے دوران میڈیا سے بات چیت کرنابھی شامل ہے۔

ورما نے 2004 کے عشرت جہاں کیس کی تفتیش اپریل 2010 سے اکتوبر 2011 تک کی تھی۔ ان کی تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر ایک ایس آئی ٹی نے انکاؤنٹر کو فرضی قرار دیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، سوموار کو ورما کی جانب سے پیش ہوئے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ وہ (ورما) 30 ستمبر کو ریٹائر ہونے والے تھے، جبکہ ہائی کورٹ نے ان کی درخواست کو اگلے سال جنوری تک ملتوی کر دیا۔

یہ بتاتے ہوئے کہ تب تک ان کی عرضی بے معنی ہو جائے گی، سبل نےگزارش کی  کہ اس معاملے کو یا تو سپریم کورٹ میں منتقل کیا جائے یا ہائی کورٹ میں سماعت جلد از جلد کی جائے۔

لائیو لا کے مطابق، انہوں نے کہا کہ مرکز گزشتہ ایک سال سے اس کیس کو روک رہا ہے اور اس نے اس معاملے میں اپنا جوابی حلف نامہ تک داخل نہیں کیا ہے۔ نتیجے کے طور پرعرضی  کی سماعت نہ ہو سکی۔

مرکز کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ افسر نے ابھی تک برخاستگی کے حکم کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ بنچ نے پوچھا کہ سنٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل کے سامنے اپنی بات رکھنے سے پہلے ہائی کورٹ سے کیسے رجوع کر سکتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ ورما نے سپریم کورٹ کا رخ اس وقت کیا تھا جب دہلی ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کو ان کے خلاف محکمہ جاتی جانچ کے پیش نظر کارروائی کرنے کی اجازت دی تھی، جس میں ان کے خلاف الزامات ثابت ہوئے تھے۔

اپنے حتمی فیصلے میں ہائی کورٹ نے 30 اگست کو کہا تھا کہ ورما کے خلاف عدالت کی اجازت کے بغیر تادیبی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے، اگر یہ ان کے لیےمنفی ہے۔

اس حکم کے بعد مرکزی حکومت نے ورما کو ملازمت سے برخاست کرنے کے لیے تادیبی کارروائی کرنے کی اجازت کے لیے دوبارہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔

مرکز کو حکم پر عملدرآمد کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ نے کہا، یہ ہدایت دی جاتی  ہے کہ حکم 19 ستمبر 2022 تک نافذ نہیں کیا جائے گا، تاکہ درخواست گزار اپنی برخاستگی کے حکم کے خلاف قانون کے مطابق قدم اٹھاسکے۔

ورما اس وقت تمل ناڈو کے کوئمبٹور میں سی آر پی ایف میں انسپکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات ہیں۔ اگر ان کی برخاستگی عمل میں آ جاتی ہے تو وہ پنشن اور دیگر مراعات کےحقدار نہیں ہوں گے۔

وہیں  ان کے وکلاء کی جانب سے سپریم کورٹ میں دو ایس ایل پی دائر کی گئی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ 2016 کے عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس میں حکمراں جماعت کے سینئر ارکان نے اس کیس میں پیش کیے گئے شواہد کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے میڈیا مہم چلائی تھی اور اس میں  ریٹائرڈ افسر بھی شامل تھے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ (ایم ایچ اے) کے ایک سابق انڈر سکریٹری آر وی ایس منی نے ان کے خلاف تشدد کے جھوٹے الزامات لگائے تھے اور انہوں نے میڈیا میں ان الزامات کی تردید کی کیونکہ 2016 میں میڈیا نے انہیں گوہاٹی میں سرکاری گیسٹ ہاؤس میں گھیر لیا تھا۔

وزارت داخلہ کی طرف سے ورما کے خلاف تین چارج شیٹ— 13 اگست 2018، 28 ستمبر 2018 اور 9 مئی 2016 کو داخل کی گئیں۔ برخاستگی 13 اگست 2018 کو پیش  کی گئی چارج شیٹ کے مطابق کی گئی ہے۔

برخاستگی کے حکم نامے میں ورما کے خلاف چار الزامات کا ذکر ہے۔

سال 2018 میں افسر نے مرکزی وزارت داخلہ کی چارج شیٹ کو چیلنج دیتے ہوئے سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل (سی اے ٹی) کی گوہاٹی بنچ کے سامنے 1100 صفحات پر مشتمل ایک عرضی پیش کی تھی۔

انہوں نے الزام لگایا تھا کہ یہ ‘بد نیتی پر مبنی فعل درخواست گزار کو کا عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس کی تحقیقات کے لیےدو مرحلوں (ستمبر 2010 سے جنوری 2011 اور جولائی 2012 سے جون 2013) میں کیے گئے کام کی سزا دینے کے لیے ہے، جو صوبہ گجرات اور مرکزی حکومت دونوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز طاقتور لوگوں کی مجرمانہ سازش کا کڑوا سچ ہے۔

ورما نے اپریل 2010 سے اکتوبر 2011 کے درمیان عشرت جہاں کیس کی تفتیش کی تھی۔ بعد میں گجرات ہائی کورٹ نے جانچ سی بی آئی کو سونپ دی، لیکن ورما عدالت کے حکم پر تحقیقاتی ٹیم کا حصہ بنے رہے۔

تحقیقات میں گجرات کے چھ پولیس والوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں آئی پی ایس افسران پی پی پانڈے، ڈی جی ونجاارہ، جی ایل سنگھل اور این کے امین شامل ہیں۔

قابل ذکرہے کہ 15 جون 2004 کو ممبئی کے نزدیک ممبرا کی رہنے والی 19سالہ عشرت جہاں احمدآباد کے مضافات میں گجرات پولیس کے ساتھ ہوئے مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں ماری گئی تھیں۔ اس انکاؤنٹر میں جاوید شیخ عرف پرنیش پلئی، امجد علی رانا اور ذیشان جوہر بھی مارے گئے تھے۔

عشرت جہاں ممبئی کے قریب ممبرا کے ایک کالج میں پڑھائی کر رہی تھیں۔ڈی جی ونجارا کی قیادت میں کرائم برانچ کے احمدآباد سٹی ڈٹیکشن ٹیم نے اس انکاؤنٹر کو انجام دیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ یہ چاروں لشکر طیبہ کے دہشت گرد تھے جو گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ  نریندر مودی کے قتل  کے لیے آئے تھے۔

حالانکہ ہائی کورٹ کے ذریعےبنائی گئی اسپیشل  جانچ ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ انکاؤنٹر فرضی تھا، جس کے بعد سی بی آئی نے کئی پولیس اہلکاروں  کے خلاف معاملہ درج کیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)