خبریں

پی ایف آئی اگر ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ، تو آر ایس ایس پر بھی بین کیوں نہیں: مایاوتی

بہوجن سماج پارٹی کی صدر اور یوپی کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پر پابندی لگانے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس سے منسلک تنظیموں پر مرکز کی طرف سے لگائی گئی پابندی کو سیاسی مفاد سے متاثر قرار دیا ہے۔

بی ایس پی سپریمو مایاوتی/ فوٹو: پی ٹی آئی

بی ایس پی سپریمو مایاوتی/ فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر اور اتر پردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے جمعہ کو اسلامی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی)پر مرکزی حکومت کی پابندی کے سلسلے میں سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سیاسی خود غرضی ہے اور سنگھ اپیزمنٹ سے متاثر ہے۔ انہوں نے آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) پر پابندی کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔

بی ایس پی سربراہ نے جمعہ کو ٹوئٹ کیا، پاپولرفرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی ) کے خلاف مرکز کی طرف سے کی گئی ملک گیر کارروائی کے بعد، اس نے آخر کار اسمبلی انتخابات سے پہلے پی ایف آئی  سمیت اس کے آٹھ اتحادی  اداروں پر پابندی لگا دی ہے۔ لوگ اسے سیاسی خود غرضی اور سنگھ اپیزمنٹ کی  پالیسی مان  رہے ہیں اور ان میں اطمینان کم اور بے چینی زیادہ ہے۔

مایاوتی نے اپنے سلسلے وار ٹوئٹ میں کہا، یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں حکومت کی نیت میں کھوٹ مان کر معاملے پر مشتعل اورحملہ آور ہیں اور آر ایس ایس پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ  کھلے عام ہو رہا ہے کہ اگر پی ایف آئی کی ملک کی اندرونی سلامتی کے لیے خطرہ ہے تو اس جیسی دوسری تنظیموں پر بھی پابندی کیوں نہیں لگائی جانی چاہیے؟

غور طلب  ہے کہ مرکزی حکومت نے بدھ کو اسلامی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی ) پر آئی ایس آئی ایس جیسے عالمی دہشت گرد گروپوں کے ساتھ ‘روابط’ رکھنے اور ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے یو اے پی اے کے تحت پانچ سال کی پابندی عائد کردی ہے۔

گزیٹڈ نوٹیفکیشن کے مطابق،پی ایف آئی  کی آٹھ اتحادی تنظیمیں جن پر یو اے پی اے کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے ان میں- ری ہیب انڈیا فاؤنڈیشن (آر آئی ایف)، کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف)، آل انڈیا امام کونسل (اے آئی آئی سی)، نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن (این سی ایچ آر او)، نیشنل ویمن  فرنٹ، جونیئر فرنٹ، امپاور انڈیا فاؤنڈیشن اور ری ہیب فاؤنڈیشن (کیرالہ) کے نام شامل ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ حکومت کی جانب سے یو اے پی اے کے تحت پاپولرفرنٹ آف انڈیا ( پی ایف آئی) اور اس کے اتحادیوں پر پابندی عائد کیے جانے کے بعدآر جے ڈی سپریمو لالو پرساد یادو  سمیت دوسرے اپوزیشن لیڈروں نے بدھ کو مطالبہ کیا کہ راشٹریہ سویم سیوک جیسی تنظیموں پر بھی پابندی عائد کی جائے۔

لالو پرساد یادو نے اپنے ٹوئٹ میں کہا، پی ایف آئی کی طرح جتنی بھی نفرت اور عداوت  کو ہوا  دینے والی تنظیمیں  ہیں  سب پر پابندی لگنی چاہیے۔ جس میں آر ایس ایس بھی شامل ہے۔سب سے پہلے آر ایس ایس کو بین کریں، یہ اس سے بھی بدتر تنظیم ہے۔

انہوں نے مزید لکھا، آر ایس ایس پر پہلے بھی دو بار پابندی لگائی گئی ہے۔ سند رہے سب سے پہلے آر ایس ایس پرے پابندی مرد آہن سردار پٹیل نے لگائی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ 1948 میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد سنگھ پر پابندی لگا دی گئی تھی جسے ایک سال بعد ہٹا دیا گیا تھا۔

سال 2019 میں دی وائر نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس پابندی سے متعلق دستاویزات عوامی طور پر دستیاب ہونے چاہیے، لیکن اس وقت  ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں بتایا گیاتھاکہ یہ نہ تو نیشنل آرکائیوز کے پاس ہیں اور نہ ہی وزارت داخلہ کے پاس۔

بدھ کو کانگریس کے سینئر لیڈر اور کیرالہ کے سابق وزیر داخلہ رمیش چنیتھلا نے کہا تھا کہ پی ایف آئی پر پابندی لگانے کا مرکز کا فیصلہ خوش آئند قدم ہے۔

انہوں نے کہا، آر ایس ایس پر بھی اسی طرح کی پابندی لگنی چاہیے۔ کیرالہ میں اکثریتی فرقہ پرستی اور اقلیتی فرقہ پرستی دونوں کی یکساں مخالفت کی جانی چاہیے۔ دونوں تنظیموں نے فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دی اور اس طرح سماج کوتقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں  نے کہا کہ کانگریس ایک ایسی پارٹی ہےجس نے اکثریتی اور اقلیتی دونوں طبقوں کی طرف سے پھیلائی گئی فرقہ پرستی کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔

یہی بات ریاست میں کانگریس کے رکن پارلیامنٹ کوڈی کنل سریش نے بھی کہی تھی۔ سریش نے کہا تھا، ‘ہم آر آر ایس پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پی ایف آئی پر پابندی لگانا اس کا علاج نہیں ہے، آر ایس ایس بھی پورے ملک میں ہندو فرقہ پرستی کو ہوا دے رہی ہے۔ آر ایس ایس اور پی ایف آئی جیسے ہیں، اس لیے  حکومت کو دونوں پر پابندی لگانی چاہیے؟

(خبر رساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)