فکر و نظر

فارما کمپنی اور ڈاکٹروں کی ملی بھگت کے خلاف لازمی قانون سازی کی ضرورت پر زور دینے والی حکومت کا یو ٹرن   

مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک جواب میں کہا ہے کہ فارماسوٹیکلز کمپنیوں کی جانب سے ڈاکٹروں کو رشوت دینے سے روکنے کے لیےرضاکارانہ طور پر نافذ یونیفارم کوڈ آف فارماسوٹیکل مارکیٹنگ پریکٹس ہی کافی ہے۔ حالاں کہ، قبل میں حکومت لازمی قانون سازی کی ضرورت پر زور دیتی رہی ہے۔

ایک ڈاکٹر نسخے پر دوا لکھتے ہوئے۔ پس منظر میں سپریم کورٹ۔ (تصویر: کریٹیو کامنس اور پی ٹی آئی)

ایک ڈاکٹر نسخے پر دوا لکھتے ہوئے۔ پس منظر میں سپریم کورٹ۔ (تصویر: کریٹیو کامنس اور پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں یہ واضح کر دیا ہے کہ اس کو لگتا  ہے کہ فارماسوٹیکلزکمپنیوں کے ذریعے  ڈاکٹروں کو رشوت دینے سے روکنے کے لیے رضاکارانہ طور پر لاگو یونیفارم کوڈ آف فارماسوٹیکل مارکیٹنگ پریکٹس (یو سی پی ایم پی) ہی درست اور کافی ہے۔

حکومت نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس حوالے سے عجلت میں کوئی قانون بنانے کے حق میں نہیں ہے، جو مذکورہ اصولوں کو رضاکارانہ سے لازمی میں تبدیل کر دے۔

بتادیں کہ تنازعہ کے مرکز میں یو سی پی ایم پی  ہے، جو فارماسوٹیکلزکمپنیوں کو ڈاکٹروں کو مفت تحائف دینے سے منع کرتا ہے۔

یہ 1 جنوری 2015 کو وجود میں آیا تھا، لیکن اسے قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ کوڈ کو ابتدائی طور پر صرف چھ ماہ کے لیے متعارف کرایا گیا تھا، تاکہ بعد میں اس کا جائزہ لیا جا سکے۔ تاہم بعد میں اس میں توسیع کردی گئی اور یہ تب تک لاگو رہے گاجب تک کہ ایسا ہی  دوسرا قانون نہیں لایا جاتا ہے۔

اگست میں سپریم کورٹ میں جاری ایک کیس کی سماعت کے دوران،درخواست گزار نے اس سلسلے میں ایک قانونی متبادل  کا مطالبہ کیا، جس سے مبینہ ڈاکٹر-فارماملی بھگت از سرنو سرخیوں میں  آگئی۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے اس معاملے کو ‘سنگین’ قرار دیا تھا۔

جسٹس چندرچوڑ نے یہ بھی ریمارکس دیے تھے کہ یہ ان کے لیے ناقابل یقین تھا، جب انھیں معلوم ہوا کہ بخار میں مؤثر اینٹی پائریٹک دوا ‘ڈولو’بنانے والے مینوفیکچررنےمبینہ طور پر مارکیٹنگ پر بہت زیادہ پیسہ  خرچ کیا تھا۔

تاہم، حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنے جواب میں کہا کہ رٹ پٹیشن غلط تاثر پیش کرتی ہے کہ موجودہ قانون فارماسوٹیکلز کمپنیوں کی ہیلتھ سروس کے پیشہ ور افراد کے ساتھ  غیر اخلاقی مارکیٹنگ پریکٹس سے شہریوں کو تحفظ فراہم  کرنے میں  ناکافی ہے۔

حکومت نے یہ بھی کہا کہ یو سی پی ایم پی  اپنے اہتماموں کے مطابق خاطر خواہ کام کر رہا ہے۔

عدالت کو یہ بتا کر کہ یو سی پی ایم سی اچھا کام کر رہا ہے، حکومت  نے دراصل 2017 کے اپنے رخ سے قدم پیچھےکھینچ لیے ہیں۔

سال 2018 میں شائع فارماسوٹیکلز ڈپارٹمنٹ (ڈی او پی) کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا:

‘یو سی پی ایم پی کے نفاذ کا تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول این جی اوز/ سٹیزن سوسائٹیز کی مشاورت سے جائزہ لیا گیا ہے اور یہ محسوس کیا گیا ہے کہ اسے اور زیادہ مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے، اسے لازمی قرار دینا ضروری ہوگا۔’

ڈی او پی مرکزی وزارت کیمیکل اور فرٹیلائزر کے تحت کام کرتا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ڈی او پی نے لازمی قانون سازی کی ضرورت محسوس کی ہو۔ اس نے 2017 میں رضاکارانہ کوڈ کے بجائے کسی قسم کا قانونی قدم اٹھانے کی تجویز پر بات کی تھی۔

ڈی او پی نے مرکزی وزارت قانون کو ‘ضروری اشیاء (دواؤں کی مارکیٹنگ کی  غیر اخلاقی پریکٹس پر کنٹرول) آرڈر 2017’ کا مسودہ پیش کیا تھا۔ خیال یہ تھا کہ اسے ضروری اشیاء ایکٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔

تاہم، یہ تجویز منظور نہیں ہو سکی کیونکہ وزارت قانون کا خیال تھا کہ ضروری اشیاء ایکٹ کا دائرہ کار صرف ضروری اشیاء کی پیداوار، فراہمی اور تقسیم کو منظم کرنا ہے نہ کہ مارکیٹنگ کے پہلو کو کنٹرول کرنا۔

وہیں، 10 مئی 2016 کو پارلیامنٹ میں ایک سوال کے جواب میں، کیمیکل اور کھاد کے اس وقت کے مرکزی وزیر اننت کمار نے بھی کہا تھا، ‘رضاکارانہ کوڈ توقع کے مطابق کام نہیں کر رہا ہے’۔

اس طرح، اگلے تین سالوں – 2016، 2017 اور 2018 – تک حکومت یہ کہتی رہی کہ یو سی پی ایم پی ٹھیک سے کام نہیں کر رہا ہے۔

تاہم، 2019 میں وہ پوری طرح سے پلٹ گئی  اور صحت اور خاندانی بہبود کے مرکزی وزیر مملکت نے راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ضابطہ کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہے۔

ایک سال بعد 2020 میں بھی حکومت نے اسی بات کو دہرایا اور کہا کہ کوڈ کولازمی نہیں بنایا جائے گا۔

حکومت کے رویے میں تبدیلی کیوں آئی یہ واضح نہیں ہے۔

بہرحال، سپریم کورٹ میں حکومت کے جواب میں کہا گیا ہے کہ قانون بننے میں وقت لگتا ہے۔ کوڈ کو قانونی بنانا ایک پالیسی پر مبنی فیصلہ اور ایک قانونی کام ہے، جس کے لیے مختلف وزارتوں اور سرکاری محکموں کے درمیان وسیع مشاورت اور  اتفاق رائے کی ضرورت  ہوتی ہے۔ اس لیے یہ ایک وقت طلب عمل ہے، جسے عجلت  میں پورا نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم، ڈی او پی اور وزارت قانون کے درمیان مشاورت کا عمل پانچ سال قبل 2017 میں ہی شروع ہوگیا تھا۔

مزید برآں، حکومت اس قانون کوبنانے کا ارادہ رکھتی ہے، یہ واضح نہیں ہے کیونکہ 2020 میں اس نے خود ہی پارلیامنٹ میں واضح کر دیا تھا کہ اس کا ایسا کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

بتادیں کہ یو سی پی ایم پی  کے تحت موصول ہونے والی شکایات سے براہ راست نمٹنے کا اختیارڈی او پی کے پاس نہیں ہے۔ کیمیکل اور کھاد کے وزیر ڈی وی سدانند گوڑا نے 18 ستمبر 2020 کو راجیہ سبھا میں یہ بات کہی تھی۔

(اس  رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)